Knowledge Base

-->

Hinduism Religion History and Complete information in Urdu (ہندومت مذہب )


   



                         
ہندومت

ابتدائیہ:
ہندومت یا ہندو دھرم جنوبی ایشیا اور بالخصوص بھارت اور نیپال میں غالب اکثریت کا ایک مذہب ہے۔جس کی بنیاد ہندوستان میں رکھی گئ، یہ قدیم ترین (2000ق م سے چلا آرہا ہے)-
ہندومت کسی ایک مذہب کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف و متضاد عقائد و رسوم، رجحانات، تصورات اور توہمات کے مجموعہ کا نام ہے۔
مندر میں جانے والا بھی ہندو ہے اور وہ بھی ہندو ہے جس کے مندر جانے سے مندر ناپاک ہو جاتا ہے۔ وید کا سننے والا بھی ہندو ہے اور وہ بھی ہندو ہے جس کے متعلق حکم ہے کہ اگر وید سن لے تو اس کے کانوں میں پگلا ہوا سیسہ ڈالا جائے۔ غرض ہندومت ایک مزہب نہیں ہے بلکہ ایک نظام ہے، جس کے اندر عقائد و رسوم اور تصورات کی بہتات ہے۔
ہندو کا مفہوم:-
لفظ ہندو فارسی زبان کا ہے، جس کے معنی چور، چوکیدار، غلام اور کالے رنگ کا فرد کے ہیں۔
لفظ ہندو کی وجہ تسمیہ:
لفظ ہندو کی دو وجہ تسمیہ بتائ جاتی ہیں:
1:- ابتدا میں یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا جو دریائے سندھ کے پار رہتے تھے یا ان علاقوں کے رہنے والوں کے لیے جن علاقوں کو دریائے سندھ کا پانی سیراب کرتا تھا۔ انگریز مصنفین نے یہ لفظ 1835ء میں ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگوں کے مذہبی عقائد کے لیے استعمال کیا۔سوائے مسلمان اور عیسائی لوگوں کے۔
نوٹ:
سنسکرت کا "س" فارسی میں "ہ" سے بدل جاتاہے، مثلاً سفت اور ہفت یا موریہ اور ہوریہ- سندھو اور ہند ھو  وغیرہ؛ چنانچہ آریوں کا جو پہلا گروپ ہندوستان آیا انھوں نے سندھو ندی جو ایران اور ہند کی سرحد پر پڑنے والی پہلی ندی ہے اس کو ہندو کہا اور اس سندھو ندی کے پار جتنے لوگ بستے تھے انھیں ہندو کہا۔
2:- یہ لفظ حقارت کے طور پر مفتوح قوم دراوڑ کے لوگوں کے لیے آریاؤں نے استعمال کیا تھا۔ کیونکہ پہلے ہندوستان میں آباد دراوڑ( یہ لوگ روم سے آئے تھے) قوم تھی پھر یہاں 1500 قبل مسیح میں آریا قوم کے لوگ مختلف علاقوں (ازبکستان)سے آ کر آباد ہوئے اور انہوں نے دراوڑ قوم کو غلام بنا لیا اور ان کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ تو انہوں نے اپنے آپ کو معزز کہلوایا اور اپنے مقابلے میں یہاں کے مقامی باشندوں کو ذلیل کرنے کے لیے ہندو وغیرہ کے نام سے پکارا۔
ان معلومات کی وضاحت خود پنڈت لیکھا رام نے یوں کی ہے کہ:
"ہندو کے معنی چور، کالا اور غلام ہیں۔یہ نام ہمیں مخالفین نے حقارت سے دیا ہے، ہمیں اپنے آپ کو آریا کہلوانا چاہیے۔ جس کے معنی مہزب، شریف النفس انسان کے ہیں"
ہندومت میں تصور خدا:-
اگر ہم کسی عام ہندو سے پوچھیں کہ وہ کتنے خداؤں پر ایمان رکھتا ہے؟ تو وہ ہمیں مختلف جوابات ملیں گے۔ کوئ کہے گا کہ تین خداؤں پر، کوئ کہے گا تینتیس  
خداؤں پر، کسی کا جواب ہو گا ایک ہزار خداؤں پر جب کہ بعض ایسے بھی ہوں گے جو کہیں گے کہ وہ 33 کروڑ خداؤں کا وجود تسلیم کرتے ہیں-
ہندومت میں عبادت کے لئے مشہور دیوتا:
پرستش کے لیے ہندو تین دیوتاؤں کے قائل ہیں۔ پہلا گرام دیوتا، یعنی بستی کا دیوتا، دوسرا کل دیوی/دیوتا یعنی خاندان کا دیوتا، تیسرا اشٹ دیوتا، یعنی محبوب دیوتا۔ اس طرح ایک ہندو کا گرام دیوتا گنیش، کل دیوی لکشمی اور محبوب دیوتا نندی ہو سکتا ہے۔گرام دیوتا مندروں میں خاندانی اور محبوب دیوتا گھروں میں رکھے جاتے ہیں۔ ان تین دیوتاؤں کے علاوہ ہر ہندو دوسرے بہت سے دیوتائوں کو حسب مواقع پر پوجتا ہے۔درگاہ پوجا کے موقع پر درگا کو، گنیش چتر تھی کے موقع پر گنیش کو، کرشن کے جنم اشٹمی  کے زمانے میں کرشن کی، دیوالی کے موقع پر لکشمی کو اور شیواتری میں شیو کی پرستش کی جاتی ہے۔
ہندومت کے یہ اہم دیوتا ہیں ، مگر ان کی فہرست لمبی ہے اور ان کی تعداد لانچ کڑور بتائ جاتی ہے، اس لیے ان سب کا جائزہ لینا آسان نہیں ہے، مختصر یہ ہے کہ تمام اہم اور غیر اہم بے شمار دیوتاؤں کے علاوہ بے شمار جانور مثلاً ہاتھی، سانپ،گھڑیال،شیر، مور، ہنس، طوطا، چوہا وغیرہ مختلف دیوتاؤں کی طرف سے ہونے کی وجہ سے مقدس سمجھے جاتے ہیں اور ان کی پوجا ہوتی ہے۔ جانوروں میں سب سے اہم گائے ہے۔ ان کے علاوہ درختوں میں پیپل ، انجیر، تلسی اور بیول اور دریاؤں میں گنگا کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اسے مقدس سمجھا جاتا ہے۔
ہندوؤں کی عبادت گاہ:-
ہندوؤں کی عبادت گاہ کو مندر کہا جاتا ہے۔ جہاں ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں رکھی ہوتی ہیں۔ اور یہ مندر ان ہی کے جانب منسوب ہوتے ہیں۔ مثلاً شیو سے مراد وہ مندر ہے جہاں ہندوؤں کے بھگوان شیو کی پرستش کی جاتی ہے۔ سروسوتی مندر وہ مندر ہے جہاں ہندو عقیدے کے مطابق علم و دانش کی دیوی سرسوتی کی پرستش کی جاتی ہے۔ ہندوؤں میں سروسوتی دیوی کا سب سے مشہور مندر تلنگا نہر یاست کے نظام آباد ضلع کے باسر مقام پر پے۔اسی ہندوؤں میں دولت اور آسودگی کی دیوی لکشمی کے لیے جو مندر تعمیر کی جاتی ہے، لکشمی مندر کہلاتی ہے۔ ان معروف دیوی اور دیوتاؤں کے علاوہ ہندوؤں میں کئ ہزار دیوی اور دیوتا ہیں اور سب کے نام پر منادر تعمیر کیے گئے ہیں۔
کچھ اہم شخصیات کے نام پر بھی منادر بنائے جا چکے ہیں۔ ان بھارت میں عام طور سے بابائے قوم تسلیم کیے گئے موہن داس کرم چند گاندھی ہیں، جنہیں عوام میں مہاتما گاندھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے قاتل نتھورام گوڈ سے کے نام پر بھی بھارت میں  مندر  موجود ہیں۔
مزہبی روایت کی بنا پر اکثر یہ مندر دریاؤں اور چشموں کے کنارے یا پہاڑوں کی چوٹی پر بنائے جاتے ہیں۔ حالاں کہ ایسے منادر کی کمی نہیں جو زمین ہی حدود میں سمٹے ہوئے ہیں۔
ہندو دھرم کا تصور الہ اور عقیدہ تریمورتی:-
ہندو اپنے آپ کو توحید پرست کہتے ہیں اور اپنے مختلف انداز میں وحدت کا پرچار کرتے ہیں۔ حلانکہ یہ پختہ ترین تریمورتی کے قائل ہیں۔ اس تثلیث کا وجود قدیم ترین ہندوؤں نے رکھا مگر ماضی قریب سے لے کر اب تک ان کے ہاں عقیدہ تریمورتی پر ایمان لانا ضروری ہے، ان کے عقیدہ تریمورتی (برہما، وشنو، شیوجی) کو اقنوم ثلاثہ اور تگردم بھی کہا جاتا ہے۔
برہما:-
رب الا رباب ہے، یہ خالق کائنات ہے، بعض فلسفیوں کے مطابق تمام نیک روحیں بالآخر اس میں جزب ہو جائیں گی۔ اس دیوتا کے بڑے مجسمے تیار کیے جاتے ہیں اور اسے بڑا طاقتور ظاہر کیا جاتا ہے، اس کے مجسمے کے چار سر اور چار ہاتھ (ایک ہاتھ میں چمچہ ، دوسرے میں لوٹا، قربانی کا سامان، تیسرے میں تسبیح اور چوتھے میں وید ہوتا ہے) بنائے جاتے ہیں تاکہ ان سے قوت کا اظہار ہو سکے اس کے مجسمے کو راج ہنس پر سوار دکھایا جاتا ہے۔ اس کی بیوی کا نام سرسوتی بتایا جاتا ہے جو تمام دیویوں میں اعلیٰ شمار کی جاتی ہے، یہ مور پر سوار ہوتی ہے، برہما کو بالعموم پہاڑوں پر دکھایا جاتا ہے۔ ہندو فلاسفر کا خیال ہے کہ کائنات کی پیدائش کے بعد برہما کا کائنات کی پیدائش کے بعد برہما کا کائنات کے ساتھ کوئ تعلق نہیں رہا ہے، بلکہ اب وہ آرام کررہا ہے، دنیا میں عمل دخل و شنو اور شیو جی کا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ برہما کے مندر کم بنائے جاتے ہیں۔
وشنو:-
یہ دیوتا خوشحالی اور مسرت کا دیوتا ہے اس کی پوجا سب سے زیادہ کی جاتی ہے، ہندو عقیدے کے مطابق ہندوؤں کے  تمام عظیم ہیرو مثلاً رام چندر ، کرشنا چندر، کرشنا جی، مہاراج وغیرہ اس کے اوتار ہیں۔ وشنو انسان کے علاوہ نباتات ، حیوانات، کبھی مچھلی، کبھی سورج کی شکل میں، کبھی نرسنگ ،(شیر اور انسان کی باہمی شکل) کی صورت میں، کبھی آم کے درخت کی صورت میں، کبھی رام چندر کی صورت میں، کبھی کرشنا جی کی صورت میں، کبھی مہاتما بدھ کہ صورت مین ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کے اوتار جسے "کالکی" کی صورت میں پکارا جاتا ہے۔ اس کی آمد کا بھی انتظار ہے جو سوا چار لاکھ سال کے بعد ظاہر ہوگا۔
وشنو مہاراج کے چار ہاتھ ایک میں سنکھ، دوسرے میں گرز، تیسرے میں چکر اور چوتھے میں کنول کا پھول دکھایا گیا ہے۔ اس کی سواری کا جانور ، انسان اور پرندے کی صورت میں مرکب ہے، اس کی بیوی کا نام لکشمی ہے، جس کو حسن و جمال اور مال و دولت کی دیوی کہا جاتا ہے، اس کے ماننے والے اپنے ماتھے پر ترشول(مثلث) کی صورت میں سندور کا تلک لگاتے ہیں۔
شیوجی:-
ہندو تثلیث میں یہ دیوتا تباہی، بربادی، جنگ، طوفان اور موت کا دیوتا ہے۔ اس کے بت میں اس کے ماتھے پر ایک تیسری آنکھ ظاہر کی گئ ہے۔ جسے ترلوچن کہا جاتا ہے۔ اس تیسری آنکھ سے غیض و غضب کے شعلے نکلتے ہیں، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عشق کے دیوتا ام دیود اس سے ناراض ہو گیا تھا اور وہ اس کے  غیض و غضب سے جل مرا تھا پھر بعد میں بڑی قربانیوں اور منت سماجت کے بعد دوبارہ زندہ ہوا۔
شیونگ ہے جس کی پوجا کی جاتی ہے، اسے شکتی پوجا (طاقت کی پوجا) کہا جاتا ہے، بعض پرانی عمارتوں اور کھنڈروں کی کھدائی کے وقت وہاں سے لنگ برآمد ہوا، اس کی بیوی کالی دیوی جو پاربتی ، اوما اور درگا کہلاتی ہے۔ یہ تینوں نام صفاتی ہیں۔ اس کی تصویر اور مجسمہ بڑا خوفناک ہوتا ہے، زبان باہر نکلی ہوئ ، رنگ کالا، منہ کھلا ہوا، گلے میں سانپوں اور کھوپڑیوں کا ہار جو انسانی لاشوں پر ناچتی ہوئ دکھائ دیتی ہیں۔ چہرہ آلودہ ہوتا ہے، اوما کی صورت میں رحم دل ماں کا روپ رکھتی ہے جس نے دونوں ہاتھ آگے پھیلا رکھے ہیں۔ درگاہ ایک غضب ناک حسینہ کی صورت ہے جو شیر پر سوار ہے، شیو جی کی اولاد بتائ جاتی ہے، اس کے بیٹے کا نام رشکے ہے جو دیوتا کے دستے کا سالار ہے اور دوسرے بیٹے کا نام گھنیش ہے، جو ہاتھی اور انسان کی صورت میں مرکب ہے، جدید ہندو مذہب جو مقبول عام مذہب کہلاتا ہے اس میں ان تینوں دیوتاؤں کی پوجا کی جاتی ہے، شیو جی کی پوجا زیادہ تر خواتین کرتی ہیں، شیوجی کے مندروں میں خواتین زیادہ ملتی ہیں۔
ہندومت کا مزہبی ادب:-
ہندومت کی مزہبی کتابوں کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
1: سرتی علوم
2:سمرتی علوم
ہندومت کے فرقے:-
1:-وشنو مت
2:-شیومت
3:-شکتی مت
4:-گنپتی مت
5؛-سوریا مت
6:-سمارت سوتر
ہندومت کے عقائد
1:- عقیدہ تریمورتی
2:-عقیدہ مکتی
3:-عقیدہ تناسخ
4:-گائے پرستی کا عقیدہ
ہندو دھرم میں ذات پات کی تقسیم:-
ہندو دھرم نے اسلامی تعلیمات کے برعکس معاشرے اور انسان کو مختلف حصوں اور ذاتوں میں بانٹ رکھا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
برہمن:-
برہمن چونکہ ایشور کے منہ سے پیدا ہوا ہے لہذا وہ مقدس ہے۔ وید پڑھنا  اور سکھانا صرف اور صرف برہمنوں کے فرائض میں شامل ہے۔ اس کی گزر اوقات دیگر تین اقوام کے دان پن پر ہے۔ان کی مزہبی تعلیمات کے مطابق برہمن کو دان دینا لاکھ درجے ثواب کا باعث ہے۔ دنیا کی ہر شے کا مالک برہمن ہے۔ یہ ہر قسم کے موصول و صول کرنے کا حق رکھتا ہے اور انہیں معاف کرنے کا بھی اسے حق ہے۔ اگر اسے ضرورت ہو تو وہ تینوں اقوام کی ہر شے ضبط کر سکتا ہے۔ برہمن کو اگر رگ وید آتی ہے تو وہ بالکل بے گناہ تصور ہو گا خواہ وہ کتنے عالم کا پاپی کیو نہ ہو۔ برہمن کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی خواہ وہ قاتل کیوں نہ ہو۔
کھشتری:-
ہندو دھرم کے مطابق کھشتری کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خلقت کی حفاظت کریں اور برہمن کے لئے دان پن کا انتظام کریں۔ بے حیائ کی طرف قطعاً متوجہ نہ ہوں۔
ویش:-
ویش کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مویشی پالے، زراعت میں اپنی جان کھپائے، تجارتی لین دین کرے، دیوی دیوتاؤں کے آستانوں پر چڑھاوے چڑھائے اور برہمن کے لئے دان پن کرے۔
شودر:-
شودر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان تینوں کی خدمات بجا لائے۔ برہمن گروؤں کی خدمت میں اس کی نجات ہے۔ شودر کو یہ حق نہیں کہ وہ بینک بیلنس رکھے، شودر کو یہ بھی حق نہیں کہ وہ مزہبی تعلیم حاصل کریں اگر وہ کہیں چھپ چھپا کے مزہبی تعلیم حاصل کر لیتا ہے یا وید سن لیتا ہے تو اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ شودر کو صاف ستھرا رہنے کا بھی کوئ حق نہیں۔ وہ مہینے میں صرف ایک دفعہ  نہا سکتا ہے اور حجامت بنا سکتا ہے۔ شودر برہمن کے صحن میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اگر صحن میں داخل ہو جائے تو اسے دھو جائے گا۔ شودر اگر برہمن کو قتل کرد ے تو سزا پھانسی ہے۔ برہمن اگر شودر کو قتل کردیں تو برہمن کے صرف بال مونڈھے جائیں گے۔
ہندو ازم کے مشہور تہوار:-
ہندومت کے مشہور تہوار درج ذیل ہیں:
1:- دیوالی:-
چار روزہ تہوار وشنو کے پیروکار اور تاجر مناتے ہیں، چراغاں اور رام مندر کی تاج پوشی کی جاتی ہے، مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔
2:ہولی:-
بسنت ، بہار اور رنگ بکھیرا جاتا ہے۔
3:راکھی بندھن:-
حقیقی یا منہ بولی بہن بھائیوں کی کلائی پر سلو نو کے دھاگے باندھتی ہیں یہ ساون میں منایا جاتا ہے۔
4:دوسہرہ:-
اس کا معنی ہے دس روزہ یعنی دس گناہوں کے لے جانے والا۔ یہ جیٹھ میں گنگا میں نہایا جاتا ہے۔

Judaism Religion History, Origin in Urdu (یہودیت مذہب)

                                  یہودیت

دیباچہ:-
اس وقت موجود الہامی اور سامی مزاہب میں سے یہودیت کا مذہب سب سے پرانا ہے جس کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام سے آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے ہوا تھا۔ یہ مذہب غیر تبلیغی ہے اس اعتبار سے اب اس کی تعداد دیگر الہامی مذاہب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس مزہب کا مرکز فلسطین میں اسرائیلی ریاست کو کہا جاتا ہے جو کہ تحریک صیہونیت کی کاوشوں کے نتیجہ میں 1948ء کو اقوام متحدہ کے تعاون سے معرض وجود میں آئ۔ یہودیت کا اصل وطن عراق بتایا جاتا ہے جہاں حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئ تھی۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں یہ لوگ مصر میں آباد ہوگئے اور اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں مصر کے فرعون سے نجات پا کر واپس اپنے علاقہ عراق اور اس کے گردونواح میں آکر آباد ہو گئے۔



یہودیت کی وجہ تسمیہ:-
ربانی (ربیون کی) یہودیت کے مطابق، یہودی وہ ہے جس کی ماں یہودی ہو یا وہ جس نے رسمی طور پر یہودی مذہب قبول کر لیا ہو۔ "یہودی" یعقوب کے بارہ بیٹوں اور اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے ایک یہوداہ کے نام سے ماخوذ ہے۔ جوکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بڑے بیٹے کا نام تھا۔ آج بہت سے لوگ ایمان رکھتے ہیں کہ یہودی وہ ہیں جو باوجود ان اصل بارہ قبیلوں کے جن سے وہ پیدا ہوئے جسمانی طور پر حضرت ابرہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، اور حضرت یعقوب کی نسل ہیں۔ یہودیت کا دوسرو نام بنی اسرائیل ہے جوکہ حضرت یعقوب کی اولاد کو کہا جاتا ہے کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا جس کے معنی " اللہ کا بندہ" ہے۔
یہودیت کے مشہور انبیاء:-
یہودیت کا آغاز اگرچہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے ہو چکا تھا تاہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو باقاعدہ پہلا نبی ہونے کی شہرت حاصل ہے جن پر تورات نازل ہوئ پھر اس کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کو شہرت ملی جنہوں نے بیت المقدس کی بنیادیں رکھیں اور ان پر زبور نازل ہوئ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کو شہرت حاصل ہوئی جو کہ حضرت داؤد کے بیٹے تھے اور انہیں کے دور حکومت میں بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہوئ ، پھر حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحیی علیہ السلام وغیرہ مشہور بنی اسرائیلی انبیاء ہیں۔
یہودیت کے اہم عقائد:-
موجودہ دنیا میں یہودیت کی پانچ بڑی اشکال یا فرقے ہیں۔ یہ آرتھوڈوکس ، قدامت پسند، ریفامڈ، تنظیم نو کے حامی، اور انسان شناس (ہیومن اسٹک)
ہیں۔ہر گروہ کے عقائد اور مطالبات ڈرامائی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ تاہم یہودیت کے روایتی عقائد کی مختصر فہرست میں مندرجہ ذیل باتیں شامل ہیں۔ جن کو بارہویں صدی کے یہودی عالم ، فلسفی اور ربی موسی بن میمون نے تیرہ اساسی اصول "شولوشاہ عصر ارکام" کے نام سے ان تمام توارتی احکامات کو مدون کیا جو عقائد میں بنیادی حیثیت اور اہمیت رکھتے ہیں۔ موسی بن میمون کے نزدیک " یہ ہمارے مذہب کے وہ اساسی حقائق جن پر تمام مزہبی عقائد و رسوم کی بنیاد ہے"۔ ان اعتقادات کو یہودیت میں عقائد کی واضح ترین تشریح کے طور پر قبولیت عام حاصل ہوئ اور آج تک یہودی کتب ادعیہ میں مندرج ہیں۔ موسی بن میمون نے انہیں اس طرح بیان کیا ہے:-
1:-اس کی واحدانیت اور بے مثل ہونے پر اعتقاد۔
2-یہ کہ وہ لامکاں و ماورائے مادہ ہے۔ نہ وہ تھکتا ہے نہ کوئ سرگرمی اس پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
3:- اس کی ابدیت پر اعتقاد
4:-وجودخالق پر اعتقاد جو ہر جہت، سمت، اور صفت میں کامل اکمل ہے اور تمام تر موجودات اس کہ رہین منت ہیں۔
5:-صرف وہی لائق عبادت ہے اور اس کے علاوہ کوئ نہیں۔
6:- اس بات پر اعتقاد کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے انبیاء کے توسط سے بات کرتا ہے۔
7:-موسی کو نبوت کاملہ اور ان کے بتائے تمام غیبو شہود پر اعتقاد۔
8:تورات کے کلام الٰہی ہونے پر اعتقاد۔
9؛تورات کے تحریف و تنقیص سے مبرا ہونے پر اعتقاد۔
10:رب العزت کے ہر شے کے علم اور احاطے پر اعتقاد۔
11: رب العزت کے سزاوجزا پر قادر ہونے پر یا سزا وجزا من جانب اللہ پر اعتقاد۔
12: مسیح اور ان کے دور کے واپس آنے پر اعتقاد
13:روز حشر اور مردوں کے دوبارہ جی اٹھنے پر اعتقاد۔
یہودی ان 13 احکامات یا ادعیہ کو منظوم یا لے کے انداز ہر صبح سائینا گوگ میں بعد از عبادت پڑھتے ہیں اور آغاز میں ' انی مامن ' کہتے ہیں جس کے معنی ہیں میں ایمان لایا۔
یہودی عبادت گاہ:-
یہودیت میں بالخصوص وہ عبادت گاہیں ہیں جو فلسطین میں ہیں ان عبادت گاہوں کو سائنا گاگ کہتے ہیں۔ سائنا گاگ (کنیسہ) ہیکل ثانی کی تباہی کے بعد معرض وجود میں آیا اور مزہب یہودیت کا مرکز ٹھہرا۔ جو بیک وقت معبد، مقام دعا ہائے خصوصی اور جائے قربانی قرار پایا۔ اس میں پہلے ٹوپی پہن کر داخل ہونا شرط تھا تاہم اب ننگے سر بھی داخل ہونے کی اجازت ہے، نیز فلسطین سے باہر جو یہودی عبادت گاہیں ان کو صومعہ کہا جاتا ہے۔
یہودی عبادات اور ادعیہ:-
یہودی عبادت اور نماز کے لیے ہفتے کا دن مخصوص ہے۔ اسے سبت کہا جاتا ہے عربی میں یوم سبت کہلاتا ہے ۔ بائیبل میں سبت کو ہفتے کا ساتواں دن اور آرام وراحت کا دن کہا گیا ہے۔ اس دن یہودی خصوصی عبادات کا احتمام کرتے ہیں اور زائرین معابد کے لیے خصوصی اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کے نزدیک صرف تین نمازیں فرض ہیں، ان کے ہاں روزہ بھی ایک اہم عبادت ہے جو قومی اور انفرادی دو حصوں میں تقسیم ہے، نیز قربانی کی بھی بڑی اہمیت ہے جس میں سو ختنی اور غیر سو ختنی قربانی کی دو قسمیں مشہور ہیں۔
مزہبی تہوار:-
یہودیوں کے ہاں مندرجہ ذیل مشہور مزہبی تہوار ہیں:
1:-یوم سبت:
یہ دن خاص اہمیت کا حامل ہے، بروز ہفتہ اس کو منایا جاتا ہے، اس دن یہودی دنیاوی کاروبار نہیں کرتے اور یہود کے ہاں یہ یوم تعطیل ہے۔
2:- عید فصیح:-
ہر عیسوی سال کے ماہ اپریل میں یہ عید مسلسل سات دن منائ جاتی ہے، اس تہوار کے بارے مشہور ہے کہ یہ فرعون مصر سے نجات کی خوشی میں منایا جاتا ہے
3:- عید نوروز:-
ہر سال کے آغاز میں یہ تہوار یہودی نئے سال کا جشن مناتے ہیں۔ وغیرہ
یہود کا مقدس دینی ادب
یہود کا مقدس دینی ادب بنیادی طور پر دو کتابوں پر مشتمل ہے:
1_ عہد نامہ قدیم         2_ تالمود
1:- عہد نامہ قدیم:-
عہد نامہ قدیم کو آسانی کے ساتھ تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ( تورات، انبیاء کی کتابیں ، متفرق کتابیں) جس میں حصہ اول یعنی تورات مشہور ہے۔
تورات: اس کو شرعیت اور قانون بھی کہتے ہیں، اس میں درج ذیل پانچ کتابیں ہیں:
(1۔پیدائش، 2۔ خروج، 3۔ احبار، 4۔ گنتی ،5۔ استثناء)
2:-تالمود:-
تالمود کو بھی یہود کے ہاں بہت اہمیت دی جاتی ہے بلکہ اس کو وحی غیر مقطوع کی حیثیت حاصل ہے۔ تالمود ذن روایات کا مجموعہ ہے جو یہود کے ہاں انبیاء اور اکابر سینہ بہ سینہ علماء کاتبوں ، احبار اور پھر ربیوں تک پہنچا ہے۔ اس کو عہد نامہ قدیم کے تشریحی لٹریچر کی حیثیت حاصل ہے۔

Zoroastrianism Religion(Parsi Religion) in Urdu زرتشت ازم(مجوسی، پارسی، صابی)

  زرتشت ازم(مجوسی، پارسی، صابی)

ابتدائیہ:-
زرتشت یا زردشت مزہب کو پارسی بھی کہا جاتا ہے۔ زرتشت دنیا کا قدیم ترین اور واحدانیت پسند مزاہب میں سے ایک مزہب ہے، اس مزہب کو " زردشت" ہی نے ایجاد کیا۔ یہ ایران میں زرتشت کے ذریعہ وجود میں آیا تھا اور دنیا میں یہ ایک ہزار سال تک ایک بہت طاقت ور مزہب رہا ہے۔ یہ ایران کا 600 قبل مسیح سے 650 قبل مسیح تک سرکاری مزہب رہا ہے۔ لیکن اب یہ دنیا کا سب سے چھوٹا مزہب ہے۔ 2006 کے " نیو یارک ٹائم " کے مطابق اس مزہب کے ماننے والے 190000 سے بھی کم تعداد میں رہ گئے ہیں کیوں کہ یہ مزہب غیر تبلیغی ہے اور کوئ شخص جو پارسی ماں باپ سے نہ ہو وہ اسے نہیں اپنا سکتا۔ ہر دس برس بعد ان میں دس فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے شرح پیدائش میں کمی ہے۔ دوسرے اس مذہب کی خواتین میں یغیر شادی شدہ رہنے کا تجحان بھی زیادہ ہے۔
برصغیر پاک وہند میں زرتشتی ساتویں صدی عیسوی میں ایران سے ہجرت کرکے ہندوستان پہنچے اور ستر فیصد ہندوستان میں آباد ہیں 1857 کی جنگ آزادی کے بعد بہت ڈے پارسی عیسائی مشنری کا شکار ہوئے اور کچھ حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے اس وقت دنیا میں ان کی تعداد چند ہزار پر مشتمل ہے اور زیادہ تر بمبئی ، گجرات اور کراچی میں آباد ہیں۔ اسلامی روایات مین زرتشیوں کو اہل کتاب سمجھا جاتا ہے۔


زرتشت کے مطابق جس طرح دنیا کا نظام روشنی اور تاریکی میں منقسم ہے اس طرح کائنات کا نظام بھی خیروشر میں تقسیم ہے۔ لہذا اس دنیا کا خالق ایک نہیں دو ہیں ایک خدائے خیر جسے " اہور امزاد" کہتے ہیں اور دوسرا خدائے شر جسے اہرمن کہتے ہیں۔ خدائے شر سے کوئ تعلق نہیں رکھتا اور خدائے شر کو خیر سے کوئ واسطہ نہیں۔ یہ دونوں خدا آج کے زرتشتیوں  کے "یزداں "  اور " اہرمن" کہتے ہیں لیکن عبادت صرف " یزداں" کی جاتی ہے۔ ان کی عبادت گاہوں میں بت نہیں ہوتے بلکہ صندل کی لکڑی سے آگ جلا کر اس کی پرستش کی جاتی ہے یہ لوگ پہلے بھی آفتاب کی پرستش کے عادی تھے اور آگ بہ اعتبار حرارت و روشنی کے سورج سے متعلق ہے ان کی عبادت گاہ "آتش کدہ" کہلاتی ہے۔
ایران کے قدیم مذہب میں" اشورا" کی پرستش قدیم آریائی قوم کے مزہب کا ایک حصہ تھی " اشورا" سنسکرت میں "اہورامزدا" کے مترادف ہے۔ اس سے مراد ایسی فوق الفطرت ہستیاں جن کی پرستش کا رواج زرتشت ڈے قبل ایرانی مذہب میں عام تھا جسے مقامی زبان میں اہوار کہا جاتا تھا لیکن زرتشت نے " "اہور امزدا" یعنی یزداں کو حقیقی معبود قرار دیا اور اس کی درج ذیل خصوصیات و صفات بیان کیں:۔ 1۔روح القدس 2۔ درجہ کمال 3۔ نظم کائنات 4۔ اختیار کامل 5۔ نیک خیال 6۔ اخلاص 7۔ قائم و دائم۔
زرتشت کی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ " اہورامزدا"  ہی کو معبود حقیقی  اور خالق کل تصور کرتے ہیں اور کائنات کی مکمل حکمرانی اہورا مزدا ہی کو حاصل ہے جو مختلف صفات کی حامل شخصیتوں کے
ذریعہ حکمرانی کو نافذ کرتا ہے۔ اس مزہب میں سزا و جزا کا تصور موجود ہے اور مرنے کے بعد بہشت اور دوزخ کا بھی تصور موجود ہے اس مزہب کے لوگ  مرنے کے بعد لاش کو دفن نہیں کرتے بلکہ ایک کنویں یا تالاب میں لٹکا دیتے ہیں تاکہ پرندے یا جانور کھا سکیں۔ اس مزہب میں صحت و تندرستی کی تعلیم اور قول و فعل کی پاکیزگی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ زرتشت مذہب کے دو مشہور تہوار "گھمبار" اور"نوروز" ہیں۔





زرتشت/ مجوسیت کا آغاز:-
دنیا کے سب سے قدیم مزاہب میں سے ہوتا ہے، زرتشت مزہب کی کوئ کنفرم تاریخ ظہور تو نہیں ملتی تاہم کئ جگہوں پر اسے دو ہزار قبل مسیح کا مانا جاتا ہے، اس مذہب کی ابتداء ایران میں ہوئ ، جب دنیا کے تین بڑے مزاہب کا وجود نہ تھا، تب زرتشت مزہب اپنی پوری آن بان اور شان کے ساتھ  رائج تھا اور اس کے بے شمار ماننے والے تھے ، سلطنت وجود رکھتیں تھیں، اسلام آج سے 1440 سال پرانا مذہب ہے، عیسائیت 2019 سال پرانا ، یہودیت 3319 سال پرانا جبکہ زرتشت مذہب آج سے 4019 سال پرانا مزہب ہے۔ اسلام کے ظہور سے قبل ایران کا سرکاری مزہب زرتشت تھا اور بہت بڑی قوم آتش پرست تھی، پارسی مزہب کا زوال تب ہوا جب اسلام نے ایران پر اپنا اثر قائم کرتے ہوئے ایران کو فتح کیا اور وہاں اسلام کو مزہب کے طور پر نافز کر دیا گیا، اس وقت جو چند ہزار لوگ وہاں سے فرار ہو سکے انہوں نے برصغیر میں پناہ لی۔ آج پوری دنیا میں پارسی مذہب کے ماننے والے تقریبا ڈھائ لاکھ ہی بچے ہیں، اس میں سے 80 فیصد پارسی ہندوستان میں مقیم ہیں، باقی 20 فیصد پوری دنیا میں کہیں نا کہیں آباد ہیں، پاکستان میں بھی چند ہزار لوگ موجود ہیں جنکی زیادہ تر آبادی کراچی میں موجود ہے۔
جناب زرتشت سے پہلے  ایرانی مظاہر فطرت مثلاً آسمان، روشنی، آگ ، ہوا ، بارش، وغیرہ کی پرستش کرتے تھے، اور سورج کو خدا کی آنکھ اور روشنی کو خدا کا بیٹا کہتے تھے، اور اسے خیر کا مظہر گردانتے تھے، جبکہ ان کے نزدیک ، ظلمت ، شرکا پہلو لیئے ہوئے تھی۔ اس کے علاوہ ، ہندوستان قدیم کے ہندوئوں کی طرح بہت سے دیوتائوں کی بھی پرستش کرتے تھے۔۔وہ یہ بھی مانتے تھے کہ ان میں کچھ دیوتا  خیر کے نمائندہ ہیں اور کچھ شر کے۔اور دونوں میں ہر وقت نزاع رہتی ہے۔
جناب زرتشت نے تمام دیوتاؤں کو اکٹھا کر کے صرف دو خداؤں کا تصور دیا۔۔۔ ایک خیر کا خدا  جس کا نام ، اہور منردا تھا اور دوسرا اہرمن ، جو شرکا خدا تھا، ان کے عقائد کے مطابق ، دونوں قوتیں ہر وقت بر سر پیکار رہتی ہیں۔ جب شہنشاہ  پستا سپ نے جناب ، زرتشت صاحب کا مزہب قبول کر لیا تو وہ شاہی مزہب ہونے کی وجہ سے پورے ایران کا مزہب بن گیا۔
اس مذہب کے مطابق ، خیر اور شر کے دونوں خدا، تخلیق پر قادر ہیں۔ خیر کا نشان نور ہے اور شر کا ظلمت، خیر کے خدا نے روشنی ، پیدا کی ، پہرے دینے والے کتے پیدا کیے، مویشی اور مرغ پیدا کیئے۔ جب کہ شر کے خدا نے درندے ، سانپ اور اژدھے پیدا کیے، لہزا مومنیں کا فریضہ یہ ہے کہ جہاں ایسی موذی اشیاء دیکھے ، انہیں ہلاک کر دے، اسی ظلمت کو ختم کرنے کے لیے ان کی عبادت گاہوں میں ہر وقت آگ روشن رہتی ہے۔اس مذہب کے مطابق دونوں خدا آپس میں نہیں لڑتے بلکہ اپنی مخلوقات کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں۔
زرتشت کا مفہوم:-
زرتشت یا مجوسیت کو عام طور پر زرتشتیت ، عربی میں : زرادشتیته، انگریزی (Zoroastrianism)  کہا جاتا ہے۔ اس کا معنی بڑا پادری ، یا روحانی رہنما کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے، مگر یہ دنیا کے قدیم مزاہب میں سے ایک ہے۔ ایک ایرانی پیغمبر زرتشت نے پارسی مزہب کی بنیاد رکھی تھی اسے عام طور پر پارسی مذہب بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسے آتش پرستوں کا مزہب اور مجوسیت بھی کہا جاتا ہے۔
زرتشت کا تعارف:-
زرتشت ایران کے صوبہ آذربائجان میں بحر حزر کے مغربی کنارے میں 610, ق م میں پیدا ہوا اور 583 ق م میں وفات پائ ۔ آپ کے والد کا نام "پورشاسب اسٹیما" اور والدہ کا نام " وگدو" کے علاوہ بعض روایات میں " آسان" بتایا گیا ہے۔ آپ کا تعلق آریا خاندان کے جادوگر اور پروہت فیملی سے تھا، آپ نے جوانی گوشہ نشینی ، غوروفکر اور مطالعے میں گزاری۔
تیس برس کی عمر میں اہور امزدا (ارموز) یعنی خدائے واحد کے وجود کا اعلان کیا لیکن وطن میں کسی نے بات نہ سنی۔ تب مشرق ایران کا رخ کیا اور پھر صوبہ  بلخ کے بادشاہ شاہ گستاسپ کے دربار میں حاضر ہوا ۔ ملکہ اور وزیر کے دونوں بیٹے ( گھوڑے کی صحتیابی کے واقع کے بعد) اس کے پیرو کو گئے۔ بعد ازاں شہنشاہ نے بھی اس کا مزہب قبول کر لیا۔ کہتے ہیں کہ تورانیوں کے دوسرے حملے کے دوران میں بلخ کے مقام پر ایک تورانی سپاہی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ کوروش اعظم اور دارااعظم نے زرتشتی مزہب کو تمام ملک میں حکمارائج کیا۔ ایران پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد یہ مزہب اپنی جنم بھومی سے بالکل ختم ہو گیا۔ آج کل اس کے پیرو جنہیں پارسی کہا جاتا ہے، ہندوستان ، پاکستان ، آفریقا، یورپ،  میں بہت قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
زرتشت ازم کا عقیدہ ثنویت:-
زرتشت ثنویت کا قائل تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ کائنات میں دو طاقتیں ( یا دو خدا) کار فرما ہیں۔ ایک اہورامزد (یزداں) جو خالق اعلی اور روح حق و صداقت ہے اور جسے نیک روحوں کی امداد و اعانت حاصل ہے۔ اور دوسرا خدا اہرمن جوبدی ، جھوٹ اور تباہی کی طاقت ہے۔ اس کی مدد بد روحیں کرتی ہیں۔ ان دونوں طاقتوں یا خداؤں کی ازل سے کشمکش چلی آرہی ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ جب اہور امزدا کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے تو دنیا امن و سکون اور خوشحالی کا گہوارہ بن جاتی ہے اور جب اہرمن غالب آجاتا ہے تو دنیا فسق و فجور ، گناہ وعصیاں اور اس کے نتیجے میں آفات ارضی و سماوی کا شکار ہو جاتی ہے۔ پارسیوں کے اعتقاد کے مطابق بالآخر نیکی کے خدا یزداں کی فتح ہو گی اور دنیا سے برائیوں اور مصیبتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
زرتشت کی اہم تعلیمات اور عبادت گاہ:-
زرتشتی مذہب کے تین بنیادی اصول ہیں ۔ گفتار نیک ، پندار نیک ، کردار نیک ۔ اہور امزدا کے لیے آگ کو بطور علامت استعمال کیا جا تا ہے کیوں کہ یہ ایک پاک و طاہر شے ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک و طاہر کرتی ہے۔ پارسیوں کے معبدوں اور مکانوں میں ہر وقت آگ روشن رہتی ہے غالباً اسی لیے انہیں آتش پرست سمجھ لیا گیا۔ عرب انہیں مجوسی کہتے تھے۔
زرتشت میں خدا کا تصور:-
زرتشتی لوگ تو بنیادی طور پر آگ کی پوجا کرتے ہیں ، تاہم ان کی کتابوں میں ایک خدا کا تصور بھی موجود ہے۔ زرتشتیت میں خدا کے لیے " اہورمزدا" کا نام آیا ہے۔ "اہور" کا مطلب ہے "آقا" اور "مزدا" کے معنی " عقل مند" کے ہیں۔ یعنی اہور مزدا کا مطلب ہے عقل مند آقا یا عقل مند مالک اہور مزدا کے تصور میں بھی ایک خدا کے تصور کا بہت دخل ہے۔
زرتشتیت میں انسان کے اہم فرائض:-
انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ آگ ، پانی اور دھرتی میں آلودگی ( بدی) نہ پھیلائے، تاکہ وہ پاک رہیں کیونکہ انکا وجود خدا کا وجود ہے ، آگ ، پانی اور دھرتی میں نہ تو کوئ آلودگی پھیلائ جائے نہ ہی کوئ مردہ دفنایا جائے ، بلکہ مردوں کو موت کے مینارے پر رکھ دیا جائے جہاں آہور امزدہ کی طرف سے پیدا کیے گئے پرندے اور حشرات اس مردے کو قدرتی اسر متعین کئے گئے طریقے سے پاک کر دیں گے۔
زرتشت میں عقیدہ رسالت:-
پارسی انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور انکی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں، انکے پہلے نبی کا نام " رازوراسترس" ہے اور انکی کتاب کا نام " زند اوستا" ہے۔ " رازوراسترس" کی تخلیق کائنات بناتے وقت ہی کر دی گئ تھی، اب ہر صدی کے بعد یہی نبی دوبارہ آتا رہے گا اور نیکی کی طرف بلاتا رہے گا ، تیسرا اور آخری نبی " رازوراسترس" کا ہی بیٹا ہو گا جسکا نام " سوشیانت" جو دنیا میں آکر قیامت کی خبر دے گا اور پوری دنیا سے بدی کا خاتمہ کرے گا۔
بدی اور کفارے کا تصور:-
انسانی وجود دنیا کے اندر بدی کے وجود کی وجہ سے ہر وقت خطرات میں گھرا ہے، جو انسان بھی خدا کے احکامات کی پیروی نہیں کرتا وہ ناپاک ہوجانے کے خطرات سے دوچار ہے، اچھا نہ سو چنا، اچھا نہ بولنا، اچھے کردار کا حامل نہ ہونا، فحاشی کرنا، بچہ بازی، چوری ، اجسام فطرت کو آلودہ کرنا، دیگر عقاید پر عمل پیرا ہونا ، مردوں کا بہانا ، جلانا یا دفن کرنا مردہ اجسام کو چھونا ، پانچ وقت کی عبادت نہ کرنا ، خدا کے علاوہ کسی اور کے نام پر قربانی کرنا، عقیدے کے مطابق شادی نہ کرنا وغیرہ وہ اعمال ہیں جن سے انسان ناپاک اور گنہگار ہو جاتا ہے۔
قربانی کی افادیت اور پنجگانہ عبادت:-
پارسی قربانی بھی کرتے ہیں اور انکی قربانی " یسنا" کہلاتی ہے، قربانی کرنے سے خدا کی قربت حاصل ہوتی ہے اور اسکے بہت قریب جا کر کلام کرنا ممکن ہو جاتا ہے، نیز گندگی اور بدی کم سے کم ہوتی جاتی ہے اور پاکیزگی کا حصول ممکن ہوتا جاتا ہے، یہ قربانی کوئ مستند مزہبی نمائندہ ہی کر سکتا ہے جو صرف اور صرف آتشکدے میں ممکن ہے۔ یسنا میں کم و بیش دو گھنٹے لگاتار مزہبی مواد کو باآواز بلند پڑھا جاتا ہے، پہلے یسنا کے موقع پر جانور بھی قربان کئے جاتے تھے تاہم ابھی بھی کچھ معلومات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ یسنا کے بعد مقدس مشروب (دودھ)، مکھن اور ڈبل روٹی وغیرہ کا طعام کیا جاتا ہے۔ پارسیوں مین پانچ وقت کی عبادت رائج ہے اور پانچ وقت عبادت نہ کرنے والے کے لئے عزاب اور سزا مقرر ہے۔
مزہبی منتر اور گیت:-
مزہبی منتر اور گیت پاکیزگی پانے کا بہترین ذریعہ ہیں، جو آوشن زبان میں ہوتے ہیں یا پھر سنسکری زبان میں، یہ منتر  یا گیت خدا کو خوش کرنے اور اسکی قربت کے حصول کے لئے گائے جاتے ہیں جس سے انسان اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ یہ تمام منتر یا گیت بھی اچھا سو چو ، اچھا بولو، اچھا کردار ادا کرو کے فلسفے پر مشتمل ہو تے ہیں۔
زرتشت میں عقیدہ آخرت:-
موت ، جسم سے ذات خدا اور روح کے خروج کا نام ہے، جسم سے جب پاکیزگی اور نور مکمل طور پر ختم ہوجائے تب کوئ بھی انسان مر جاتا ہے، مرنے کے بعد مردے کی روح تین دن تک اسکے جسم کے آس پاس گھومتی رہتی ہے اور پھر روحوں کے رکھوالے " دائنہ " کے ساتھ روحانی دنیا کے سفر پر نکل جاتی ہے، جہاں اچھے خیالات ، اچھے الفاظ اور اچھے کردار کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے اک پل پر لے جایا جاتا ہے جہاں اچھائ کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں عارضی طور جنت اور تعداد کم ہونے کی صورت میں عارضی طور پر سرد جہنم میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ( غالباً پل صرات جیسا کوئ عمل) ، یہ عارضی ٹھکانے ہیں اسکے بعد قیامت آئے گی ، روز محشر بپا ہو گا اور فائنل حساب کتاب کے بعد اچھائ کے حامل افراد کو ہمیشہ کے لئے جنت ملے گی، جو بہت خوبصورت روشن اور خوشی کا ٹھکانہ ہے، ناپاک افراد کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا جو بہت تاریک اور منجمد کر دینے سے بھی زیادہ سرد ہے، جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب اسکا مقدر ہو گا۔
زرتشت ازم میں میت سے سلوک:-
پارسی اپنے مردوں کو جلانے یا دفنانے کی بجائے ایک کھلی عمارت میں رکھ دیتے ہیں تاکہ اسے گدھ وغیرہ جھا جائیں۔ اس خاص عمارت کو دخمہ " مینار خاموشی" کہا جاتا ہے۔ ان کے ہاں عجیب روایت ہے کہ لاش کے ساتھ پروہت کتے کو لاتے ہیں، اس رسم کو " سگ وید" کہتے ہیں، دخمہ ایسے شہروں میں تعمیر کیا جاتا ہے جہاں پارسیوں کی معتدبہ تعداد آباد ہو، مثلاً  بمبئی، کراچی۔ جہاں دخمہ نہیں ہوتا وہاں ان کے قبرستان ہوتے ہیں جن میں مردوں کو بہ امر مجبوری دفن کیا جاتا ہے، لاہور کا پارسی قبرستان وغیرہ۔ 
زرتشت ازم مزہبی ادب:-
پارسیوں کی مقدس کتابوں میں : اوستا ، گاتھا اور دساتیر شامل ہیں۔
1-اوستا:
زرتشتیوں کی بنیادی مزہبی کتاب کا نام اوستا ہے جو ساسانی خاندان کے بادشاہ اردشیر کے عہد میں لکھی گئ تھی، ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے مزہبی رہنما کے پاس اوستا کا وہ قدیم نسخہ موجود ہے جو ان کے پیغمبر زرتشت یا زردشت پر نازل ہوا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں یہ ناپید ہے، اب اس کی دو شرحیں (ژند، پاژند) موجود ہیں جن پت زرتشیت کی بنیاد ہے۔ اوستا میں آہور کی تعریف و منا جات درج ہیں نیز پارسیوں کی لئے نظام زندگی کے اصول بھی موجود ہیں۔
2 گاتھا:
گاتھا در حقیقت خود اپنے آپ میں ایک آذاد مزہبی کتاب نہیں بلکہ یہ اوستا کا حصہ ہے جس کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ زرتشت کی اپنی تحریر ہے، گاتھا نثر کی بجائے نظم میں ہے۔ اس کے مشہور پانچ حصے ہیں ۔
3۔دساتیر:
دستیر کا مطلب ہے دس حصوں پر مشتمل ایک کتاب " دس" کے معنی ہے دس اور تیر کا مطلب ایک حصہ ۔ دساتیر ، دستور کی بھی جمع ہے، جس کا مطلب ہے، قانون یا مزہبی قاعدہ ۔ دساتیر کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خرد ( چھوٹا) دساتیر اور کلان ( برا) دساتیر۔ اس کتاب میں زرتشت مزہب کے بڑے بڑے اشخاص اور بزرگوں کے تزکرے اور سوانح حیات موجود ہیں۔  



Confucianism Religion In Urdu (کنفیوشس ازم )

  کنفیوشس ازم   

دیباچہ:-
کنفیوشس مت چین کا سب سے بڑا مقامی مزہب ہے۔ کنفیوشس مذہب 25 صدیوں کی مسلسل تاریخ رکھتا ہے۔ تقریباً دو ہزار سال تک حکمرانوں کا مزہب رہا ہے۔ کنفیوشس ازم کا نام مغربی اقوام کا دیا ہوا ہے، اس کا اصلی نام "کنفیوشس کی تعلیمات" ہے یا پھر اس کو روجیا کہتے ہیں جس کے معنی "علما کی تعلیم" کے ہیں۔ اس مذہب کی بنیاد کائنات کی پرستش پر ہے اور یہ پرستش کائنات کے اجزا اور مظاہر کی پرستش ہے۔
اس مزہب کا بانی  علمائے مغرب کے دیے ہوئے نام کے مطابق چین کا مشہور حاکم کنفیوشس ہے جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ 471 قبل مسیح میں گزرا ہے۔ اس کا باپ شیولیان تھا جو ایک ضلع کا حاکم تھا ، جس کی بڑھاپے کی اولاد کنفیوشس تھا۔
کنفیوشس مزہب صرف چین میں نہیں ، بلکہ بلکہ جاپان میں بھی مقبول ہے، جہاں کم از کم اس زمانے میں اس کے ایک سے دو کروڑ کے درمیان پیروکار موجود ہیں، جاپان کے سب سے بڑے مزہب شنتو کی سیاسی تعلیمات و نظریات پر بھی ان کا خاصا اثر ہے ، یوں یہ مزہب کافی وسیع ہے۔
موجودہ چین میں سو شلزم کی آمد بعد تمام مزاہب پر پابندی ہے، جن میں بطور خاص کنفیوشس مت، بدھ مت، اور تاؤمت ہے لیکن ان کے پیروکار پھر بھی کروڑوں میں ہیں۔
کنفیوشس چونکہ الہامی مزہب نہیں لہذا ایک فرد کنفیوشسی ہوتے ہوئے بدھ بھی بن سکتا ہے، تاؤ بھی اور مسلم بھی۔








کنفیوشس کا تعارف:-
کنفیوشس (Confucius) سر زمین چین کا معروف فلسفی ، حکیم اور عالم گزرا ہے۔ اس کی اخلاقیات پر مبنی تعلیم نے نہ صرف چین بلکہ جاپان ، کوریا اور مشرق بعید میں زبردست پزیرائی حاصل کی۔
کنفیوشس کا خاندانی نام کونگ (K'ung-fu-tzu) تھا۔وہ 551 قبل مسیح میں چین کے موجودہ صوبے شہانگ کے علاقہ کوفو میں پیدا ہوا۔ یہ اپنے والدین کی واحد اولاد ہے جو انہیں ستر سال کی عمر میں ملی، تین سال کی عمر میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ جس کے بعد قبیلہ کی(Ki) نے اس کی پرورش کی۔ انیس سال کی عمر میں شادی کی جس سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ پھر چار سال بعد طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد کوئ شادی نہیں کی۔ تقریباً 25 سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہوگیا۔ جس پر اس نے تین سال تک والدہ کا سوگ منایا۔ پیشہ کے اعتبار سے حکومتی ملازم تھا۔ ابتد میں مال خانہ میں ملازمت کی پھر ترقی کرتے ہوئے زراعت اور چرواہوں کا نگران مقرر ہوا۔ دوران ملازمت اس نے تاریخ 'ادب' شاعری اور سیاسیات کا خوب مطالعہ کیا۔
والدہ کے انتقال کے بعد اس نے ملازمت چھوڑ کر تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ بعد ازاں وہ چین کے ایک معروف جامعہ سے منسلک ہوگیا اور عوام و خواص میں عزت و شہرت پائ۔ شان تنگ ( سابق ریاست لو LU) ہزاروں شاگردوں کا معلم و رہنما بن کر سامنے آیا۔ اس کا طریقہ تعلیم زبانی ہوا کرتا تھا۔ اس کی تعلیمات کا اتنا چرچہ ہوا کہ لو کے وزیراعظم نے بسر مرگ پر اپنے بیٹے کو کنفیوشس سے تعلیم حاصل کرنے کی وصیت کی۔ تقریباً 3 ہزار سے زائد افراد اس کے شاگرد رہے  اور 70 سے زائد طالبعلموں نے بطور دانشور پائ۔ کنفیوشس کے شاگرد اسے کنگ فوزے ( چینی) یعنی استاد کنگ کہتے تھے۔ کنفیوشس نے اخلاقیات اور تعلیم پر زور دیا۔ " گلدستہ تحریر "(لون یو) اس کی شہرہ آفاق تصنیف ہے۔ 479 قبل مسیح میں 72 سال کی عمر میں اس معلم اخلاقیات کا انتقال ہوا۔
51 سال کی عمر میں شہر چنگ ٹو (Chung-tu) کا قاضی مقرر ہسوا۔ اس دوران اس نے ایک مثالی عدلیہ قائم کی۔ پورے ملک میں جرائم کا سد باب کیا۔ ہر طرف امن و امان قائم کیا لیکن یہ سلسلہ کچھ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ حکمران وقت اور کنفیوشس کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے جن کے سبب کنفیوشس کو اپنے عہدے سے معزول کر کے ملک بدر کردیا۔ تقریباً 14 سال غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد جب ڈیوک گائ سلطنت لو(LU) پر قابض ہوا۔ اسے واپس شہر چنگ ٹو بلایا گیا۔ جہاں اس نے از سر نو لوگوں کی اصلاح اور تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔
مختلف مزاہب کے بانیوں کو چھوڑ کر دنیا میں کنفیوشس کے سوا کوئ ایسا شخص نظر نہیں آتا جس نے اتنا زیادہ لوگوں کے کردار پر اثر ڈالا ہو۔ کنفیوشس کی پیدائش کو ڈھائ ہزار سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی لاکھوں کروڑوں چینی اس کی تعلیمات کو لفظ بہ لفظ دہراتے ہیں۔ تاہم یہ فلسفی کسی الہام کا دعویدار نہ تھا، بلکہ پرانے دانشمندوں کے اقوال جمع کرکے اپنے شاگردوں کے سامنے بیان کرتا تھا۔ ابھی کنفیوشس کی عمر اکیس سال تھی کہ اس نے ان نوجوانوں کے لیے ایک درسگاہ کھولی جو اچھی حکومت اور اچھے کردار کے متعلق کچھ سیکھنا چاہتے تھے جب وہ اس درسگاہ کے قیام کے لیے شہنشاہ کے پایہ تخت میں پہنچا تو تائو مذہب کے بانی لائو زے سے اس کی ملاقات ہوئ۔
سینتالیس سال کی عمر میں اس کے وطن میں اس کو ایک سیاسی عہدہ دیا گیا جس سے اس کو حکومت کے متعلق اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کا موقع مل گیا۔ اس جے نتائج اس قدر شاندار نکلے کہ آس پاس کی ریاستیں خوف زدہ ہو گئیں اور اس کے خلاف سازشیں کرنے لگیں۔ چنانچہ وہ تیرہ سال کے لیے جلا وطن کر دیا گیا۔ اڑسٹھ سال کی عمر میں کنفیوشس جلا وطنی سے واپس آیا اور پھر آخر دم تک (479ق م) اپنی قوم کے تاریخی مواد، نظموں، عوامی کہانیوں اور معاشرتی رسموں کو مرتب کرنے میں مصروف رہا۔ اس کے اخلاقی افکار کی پیروی کرنے والے مختلف ممالک میں موجود ہیں جن میں چین ، تائیوان، ہانگ کانگ، مکاؤ ، کوریا ، جاپان، سنگا پور اور ویتنام شامل ہیں۔
کنفیوشس کے افکار و نظریات اور مشہور تعلیمات
کنفیوشس نے کہا تھا!
1۔ چیزوں کا خاموشی سے مشاہدہ اور مطالعہ کرو۔ چاہے کتنا ہی پڑھ لکھ جاؤ، اشتیاق اور لگن کو برقرار رکھو اور دوسروں کو تعلیم دینے سے کبھی نا تھکنا چاہیے۔ تعلیم کا مقصد ایک مثالی انسان کی تکمیل ہے۔
2۔ اگر تم اپنا سفر روکتے نہیں ، تو اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ تم کتنا آہستہ چلتے ہو۔
3۔ اس شخص سے کبھی دوستی نہ کرو جو تم سے زیادہ اچھا نہ ہو۔
4۔ جب تم غصہ میں آؤ ، تو اس کے بعد کے نتائج کے بارے میں سوچو۔
5۔ اگر تم یہ جان جاؤ کہ تم اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے، تب بھی تم اپنا مقصد تبدیل مت کرو، اپنے اعمال تبدیل کرو۔
6۔ اگر تم نے نفرت کی، تو تم ہار گئے۔
7۔ زندگی میں جو بھی کرو، اسے پورے دل اور دلچسپی کے ساتھ کرو۔
8۔ صرف ان لوگوں کی رہنمائی کرو، جو اپنی کم علمی کے بارے میں جانتے ہوں اور اس سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہوں۔
9۔چھوٹی چیزوں پر اسراف کرنا بڑے نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔
10۔ اگر لوگ تمہارے پیٹھ پیچھے باتیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تم آگے بڑھ رہے ہو۔
11۔ چیزوں کا خاموشی سے مشاہدہ اور مطالعہ کرو ۔ چاہے کتنی ہی تعلیم حاصل کر لو۔ اشتیاق اور لگن کو برقرار رکھو۔
12۔ ہر چیز میں ایک خوبصورتی ہوتی ہے، لیکن اسے ہر شخص نہیں دیکھ پاتا۔
13۔عظمت یہ نہیں کہ کوئ انسان کبھی  نہ گرے، بلکہ کئ بار گر کر دوبارہ اٹھنا عظمت ہے۔
کنفیوشس کا اللہ تعالیٰ کے متعلق عقیدہ
1۔میں نے پچاس سال کی عمر میں خدا کا عرفان حاصل کیا۔
2۔ خدائے تعالیٰ واحد ہے۔
3۔ نور و ہدایت ہمیں خدا کی طرف سے حاصل ہوئے ہیں۔ جن کے ذریعے ہم اپنی اور نسل آدم کی اصلاح کرکے انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں۔
4۔ خدائ نظام کے تحت کائنات وجود میں آئ ہے اور ایک مقررہ مدت تک قائم رہے گی۔
5۔ اللہ تعالیٰ اپنا نظام لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔ جس پر عمل کر کے انسان حیات ابدی اور سعادت مندی حاصل کر سکتا ہے۔
6۔ خدا ہی حقیقی پناہ گاہ ہے جس کی تلاش ہمیشہ سے جاری ہے۔
7۔ جو خدا کو ناراض کرتا ہے اس کی نجات مشکل ہے۔
8۔ اگر خدا چاہتا تو سارا عمدہ تمدن مٹ جاتا روئے زمین پر کسی انسان کو باقی نہیں رکھتا۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
9۔ تقوی اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا ہی صراط مستقیم ہے۔
کنفیوشس کا آخرت کے متعلق عقیدہ
موت کے بعد زندگی اور جزاء وسزا کے حوالے سے اس کے عقائد مبہم ہیں تاہم یی کنگ(Yeking) نامی کتاب (جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی اپنی تصنیف ہے) میں ایسے ارشادات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حیات بعد الموت اور جزاوسزا کا عقیدہ رکھتا تھا۔ جیسا کہ اس نے ایک جگہ لکھا
"جو خاندان نیکی کرتا ہے وہ یقیناً بے انتہا خوشی جمع کرلے گا اور جو خاندان برائ کرتا ہے اسے غیر محدود غم و افسوس سے واسطہ پڑے گا"
کنفیوشس اور حقوق العباد:-
کنفیوشس نے حقوق العباد کے قیام پر بھی زور دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ:
1۔ باپ کے اندر شفقت اور بیٹے میں احترام ہونا چاہیے۔
2۔ بڑے بھائ میں شرافت اور چھوٹے بھائ میں انکساری ہونی چاہیے۔
3۔ شوہر کو سچا اور بیوی کو اطاعت گزار ہونا چاہئے۔
4۔ بڑوں کو غوروفکر سے کام لینا چاہیے اور چھوٹوں کو بڑوں کا  ادب کرنا چاہیے۔
5۔ حکمرانوں میں خیر اندیشی اور عوام میں وفا شعاری ہونی چاہیے۔
اصلاح معاشرہ کے لئے بنیادی اصول
کنفیوشس نے چار بنیادی اصول بھی پیش کیے ہیں۔ اس کے مطابق ان کو اپنایا جائے تو معاشرہ اعلیٰ ہو جاتا ہے۔
(الف) لی (LI) اس کا مطلب ہے سیدھا راستہ اس کا مطلب انسان کی فطرت درست رہنی چاہیے۔
(ب) یی (YI) وہ انداز عمل جو درست فطرت کے مطابق معاملات کو سر انجام دینے سے پیدا ہوتا ہے۔
(ج) جن (JAN) اس نظریہ کے مطابق سماجی ا قدار کو بہترین بنانے کے لئے ہر فرد کو اس کی فطرت کے مطابق کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
(د) چی (CHIH) اس نظریہ کے مطابق ہر انسان سوال کا سامنا کئے بغیر عادت کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔
سیاست اور امور سلطنت کے بارے قوانین
اس کے علاوہ کنفیوشس نے سیاسیات اور سلطنت کے امور کے متعلق بہت سے قوانین وضع کئے۔ اس کے مطابق اگر ان کو اپنایا جائے تو حکومت عوام کے اذہان کے مطابق ہوتی ہے اور عوام بھی حکومت کے قوانین کے مطابق عمل پیرا ہوتی ہے۔ باہمی اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہے۔ مثلاً اس کا کہنا ہے:
1۔ حکمران اپنے عمل سے رعایا کے لئے اعلیٰ مثالیں قائم کریں۔
2۔ حکمران طبقہ اور رعایا اپنے اپنے فرائض خلوص سے سر انجام دیں۔
3۔ حکمران لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند نہ کرتا ہو ( وغیرہ)
کنفیوشس کے رابطے
کنفیوشس کے مطابق اگر انسان دیگر انسانوں سے 5 قسم کے رابطے استوار کر لے تو معاشرہ پر امن ہو جائے گا:
1۔ حکمران اور رعایا کا رابطہ
2۔باپ اور بیٹے کا رابطہ
3۔ بڑے اور چھوٹے بھائ کا رابطہ
4۔ شوہر اور بیوی کا رابطہ
5۔ دوست کا دوست سے رابطہ
کنفیوشس ازم کا مزہبی ادب
اس مذہب کو اکثر مزہب کتب کہا گیا ہے۔ اس کی متعدد کتب میں سے لن یو (Lun-Yu) یعنی
" گلدستہ تحریر" اہم ترین ہے کیونکہ اس کے مطالعہ سے اس کی تعلیمات کا سمجھنا آسان ہے ۔ یہ کنفیوشس کے ملفوظات کا مجموعہ ہے جو اس کے چند شاگردوں نے اس کی وفات کے بعد تالیف کیا۔ اس میں زندگی کے ہر پہلو کے حقائق کو عام فہم کہانیوں اور عمدہ تمثلیوں میں بیان کیا ہے۔
ایک اور کتاب کنفیوشس کی طرف منسوب ہوتی ہے اور یہ انتساب محل نظر ہے۔ اس کا نام " علم عظیم"(Great Learning ) ہے۔ ایک اور کتاب بنام اعتدال کا اصول (Doctrine of the Mean)  کنفیوشس کے پوتے زیسی (Zisi) کے نام سے منسوب ہے لیکن حقیقتاً وہ کی چی (Li-Chi/Liji) اور مین شس (Mencious) کی کتابوں کی اکتیسواں باب ہے۔ ان کے علاوہ پانچ اور قدیم کتابیں ہیں جو قدیم روایات کے مطابق کنفیوشس کی ادارت میں لکھی گئیں ، وہ یہ ہیں:
شوچنگ(Shu-ching)  یعنی کتاب التواریخ: جو تاریخی دستاویزوں پر مشتمل ہے۔ پہلے سو تھیں لیکن اب صرف اٹھاون رہ گئ ہیں، جو 2400 ق م سے 800 ق م تک کے زمانہ پر مشتمل ہے۔
شی چنگ (Shih-Ching) اس میں تین سو پانچ نظمیں ہیں یہ 200 ق م سے 700 ق م کے عرصہ میں لکھی گئیں۔
لی چی (Li-Chi/Liji) رسموں کی کتاب، جس میں ان سب رسوم کا زکر ہے جو مزہبی اور غیر مزہبی تہواروں پر ضروری ہیں۔
یی چنگ (Yi-Ching) انقلابات کی کتاب۔
چون چیو (Ch'un–ch'iu) خزاں اور بہار کی تاریخ ، صوبہ لو کے 732 ق م سے 481 ق م تک کے واقعات ، حادثات اور حالات کی تاریخ۔

Buddhism Religion History, Origin in Urdu Written ( بدھ مت مذہب)

بدھ مت

ابتدائیہ:-
آج سے تقریباً اڑھائ ہزار سال پہلے بدھ مزہب کی بنیاد جنوب مشرق ایشیاء میں شمالی بہار اور سرحد نیپال کی ایک ریاست "کپل وستو" کے شہزادے "ساکھیا منی" نے رکھی جنہوں نے تخت و تاج کو ٹھکراتے ہوئے انسانی مصائب اور ان کو حل کرنے کی کوشش کی۔ اس مذہب کی بنیاد "حصول نروان" ہے جسے سکون و طمانیت کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ بدھ مت کے بانی مہاتما بدھ کا اصل نام "سدھارتا" ہے "گوتم" ان کا لقب ہے اور "مہاتما" تعظیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ چھٹی صدی قبل مسیح میں شمالی ہندوستان کے ایک زمیندار کے گھر پیدا ہوئے 30 سال کی عمر میں گھر بار چھوڑ کر سنیاسی ہو گئے اور 80 سال کی عمر میں بمقام پھیر۔ (ضلع گور کھپور یوپی) میں وفات پائ۔ اور جہاں ان کو دفنایا گیا ہےاس کو اسٹوپا کہتے ہیں، آپ پچاس (50) سال بدھ مذہب کو پھیلاتے رہے۔ ہندوستان ،لنکا، برما، ہند چینی، چین، جاپان، تبت، اور بنگلہ دیش ملکوں میں بدھ مذہب کے پیروکار موجود ہیں۔
گوتم بدھ خود ایک ہندو گھرانے کے تربیت یافتہ تھے۔ سب سے پہلے مصلح دین کے طور پر ابھرے اور پھر ایک عظیم مصلح دین بن گئے گوتم بدھ نے خود کو کبھی پرستش کے لئے پیش نہیں کیا مگر مرنے کے بعد وہ خود ایک مقدس معبود کی شکل اختیار کر گئے۔ بلکہ بدھ عبادت کا جزولا ینفک بن گئے۔ بدھ مزہب کی مزہبی کتاب "تری پتاکا" کہلاتی ہے جن کے جاپانی، چینی، انگریزی و دیگر زبانوں میں بھی تراجم موجود ہیں۔ بدھ مذہب اپنی تعلیمات کے اعتبار سے ایک ضابطہ اخلاق کہا جا سکتا ہے۔ اس مذہب کی تعلیمات انتہائ سادہ تھیں ۔ یہ اخلاقی تعلیمات پر مبنی ایک ایسا نظام حیات ہے جس کا مقصد انسان کو ہندو مذہب کے "نظریہ تناسخ" سے نجات دلانا تھا۔
مہاراج اشوک اور راجہ چندر نے اس مذہب کی تبلیغ و اشاعت میں زیادہ حصہ لیا اور اسے بین الاقوامی سطح پر بھی متعارف کروایا۔ آج اس کے پیروکار دنیا کے اکثر ممالک میں پائے جاتے ہیں۔
اس مذہب کی تعلیمات ایک انگریز مصنف ہالراکڑنے نے اپنی تصنیف (Indian Customs) میں یوں بیان کی ہیں "اس مذہب میں ذات کو کوئ دخل نہیں ہے ہر ایک آدمی کا درجہ اس کے عمل پر ہے" مردوں ، عورتوں، جوان اور بچے سب کو رحم دلی اختیار کرنے اور تکلیفیں سہنے کی عادت ڈالنی چاہئے، "ساکیہ منی" (گوتم بدھ) کے نزدیک نجات ایک خاص حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان کو خوشی و رنج ، دوستی و دشمنی بلکہ تمام مصائب اور خواہشوں سے چھوٹ مل جاتی ہے۔ ان میں سے ایک فرقہ کا قول ہے کہ خدا کچھ چیز نہیں سب سے بڑا " بدھ" ہوتا ہے اب تک کئ بدھ ہو چکے ہیں گوتم بدھ پچیسواں بدھ ہے۔ اس مزہب کے بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ خدا موجود ہے لیکن اس نے دنیا کو پیدا نہیں کیا اور نہ ہی اس کو دنیا کے کاموں اور انسانوں کے نیک وبد سے کوئ واسطہ ہے اور بعض کہتے ہیں کہ پھر بھی تمام چیزیں خدا کی مرضی سے پیدا ہوتی ہیں۔
یہاں بدھ مت کے اکثر پیروکار ہندوؤں کے دیوتاؤں کو بھی مانتے ہیں لیکن ان کا درجہ بدھ سے کم مانتے ہیں بدھ مت کے تصور معبود پر ہندو مزہب کی چھاپ پائ جاتی ہے۔ اس مذہب میں خواہشات کو سب مصیبتوں کی جڑ گردانا گیا ہے۔ خواہشات پر قابو پانے کے لیے آٹھ اصول بیان کیے ہیں:
1۔ علم و عقیدہ
2۔ صحیح ارادہ
3۔ صحیح کلام
4۔ صحیح عمل
5۔ صحیح سلوک
6۔ صحیح کوشش
7۔ صحیح یاداشت
8۔ صحیح غور وفکر ہیں۔
بدھ کا مفہوم
سنسکرت میں " بدھ" کے معنی عارف اور نور کے ہیں، یعنی ایسا آدمی جسے معرفت الٰہی حاصل ہوگئ ہو اور دنیا کی تاریکی سے باہر نکل آیا ہو نیز انسانیت کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف بلا رہا ہو۔

گوتم بدھ کا تعارف
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے 567 برس پہلے موجودہ نیپال میں ہمالیہ کے دامن میں بنارس کے ایک گاؤں "کپل وستو" کے مہاراج شدھو دھن شاکیو نے کولی مہاراج کی لڑکی سے شادی کی۔ نام مہامایا تھا جو حاملہ ہوئ تو وہاں اصول کے مطابق زچگی سے پیشتر اسے سسرال رخصت کیا گیا جبکہ وہ دوران سفر شدید بیمار ہونے کی وجہ سے وہیں راستے میں ٹھہر گئ، اور بڑکے درخت کے نیچے اس نے بچے کو جنم دیا جس کا نام سدھارتھ ( جو بعد میں گوتم بدھ کے نام سے مشہور ہوا) رکھا گیا۔ گوتم بدھ کا تعلق کھشتری خاندان سے تھا۔
نیز مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ گوتم کا اصل نام کیا تھا۔ بعض لوگوں نے سدھارتھ پہلا نام اور گوتم قبائلی نام بتسایا ہے۔ مگر جدید تحقیق کے مطابق ان کا اصل نام گوتم تھا اور سدارتھ ، ساکیہ منی، ساکھیہ سہنا ، جن بھاگو ، لوک ناتھ اور دھن راج وغیرہ ان کے القاب تھے ، جو ان کے متعقدین نے انہیں دیے تھے۔ گوتم کے بچپن کے حالات مستند کتابوں میں نہیں ملتے ہیں اور جو ملتے ہیں وہ عقیدت مندوں کی عقیدت سے اس طرح متاثر ہوئے ہیں کہ تاریخی معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ بہرحال اتنا پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے رواج کے مطابق علوم و فنون اور سپہ گری میں مہارت پیدا کی اور ان کی شادی سولہ سال کی عمر میں چچا زاد بہن یشو دھرا سے کر دی گئ۔
گوتم بدھ ایک دن گھر سے باہر نکلا تو اس نے راستے میں تین منظر دیکھے جس کے نتیجہ میں اس کی زندگی میں گیان کی طرف رغبت شروع ہوئ۔ کہ ایک دن بوڑھا دیکھا جو ضعیف العمر تھا، اور دوسرا بوڑھا دیکھا وہ ضعیف العمر ہونے کے ساتھ بیمار بھی تھا اور تیسرے منظر میں لوگوں کو ایک میت کو کاندھوں پر اٹھا کر لیجاتے دیکھا اور اس کے بعد اس نے ایک بزرگ کو دیکھا جو خوشگوار و خوش سیرت و صورت نظر آیا جس کی زندگی میں اطمینان اور کفایت شعاری و قناعت پسندی کا رنگ نمایاں تھا۔
شادی کے دس برس بعد ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا اور پھر اس کے تین سال بعد اور اس منظر نامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے شاہوں کی زندگی ترک کرنے کے ارادے سے گھر سے نکل گیا اور اپنے چند شاگردوں کے ہمراہ جنگل و صحراؤں میں مراقبے، مجاہدے اور ترک طعام و شراب کے ذریعہ راحت و سکون اور اطمینان حاصل کرنے میں مصروف رہا۔ بعض روایات کے مطابق گوتم کی تمام عمر جب تیس سال کی ہوئ تو ان میں ذہنی تبدیلی ہوئ اور کچھ طبعی رجحان اور کچھ زندگی کے تلخ واقعات نے گوتم کو مجبور کیا کہ وہ ابدی سکون و مسرت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے حصول کا طریقہ معلوم کرنے کی کوشش کریں۔اس ذہنی خلفشار کے زمانے میں ان کا ایک بیٹا پیدا ہو گیا تو وہ بول پڑے مجھے یہ نیا رشتہ توڑنا پڑے گا۔ اخر بعض روایات کے مطابق گوتم اسی شب گھر کو چھوڑ کر جنگل نکل گئے۔ جہاں انہوں نے چھ سال تک مختلف ریاضتوں میں گزارے۔ جس میں گھاس بھونس پر گزارہ، بالوں کے کپڑے کا پہنا، گھنٹوں کھڑے تہنا، کانٹوں میں لیٹ جانا، جسم پپر خاک ملنا، سر اور داڑھی کے بال نوچنا۔ اس طرح کے سخت مجاہدات میں مشغول رہے۔ آخر ان پر یہ حقیقت عیاں ہوئ کہ جسم کی آزادی اور اس طرح کے مجاہدات سے تسکین ناممکن ہے اور یہ طریقہ مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ انہوں نے باقاعدہ کھانا پینا شروع کر دیا اور اپنے چیلوں سے کہا کہ ریاضت کے یہ تمام طریقہ غلط ہیں ۔ چنانچہ وہ انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔
چیلوں کے چلے جانے کے بعد گوتم سخت ہیجان میں مبتلا ہو گئے۔ آخر وہ بدھ گیا میں جو اس وقت غیر آباد علاقہ تھا، وہاں ایک بڑ کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ اس واقع کے بعد انہوں نے تہیہ کرلیا، کہ جب تک ان پر حقائق ظاہر نہ ہوئیں گے وہ اسی طرح مرقب رہیں گے۔ دفعتاً غروب آفتاب کے وقت ان کے ذہن میں ایک چمک پیدا ہوئ اور ان پر یہ حقائق منکشف ہوئے کہ "صفائے باطن اور محبت خلق" میں ہی فلاح ابدی کا راز مضمر ہے اور تکلیف سے رہائ کے یہ ہی دو طریقے ہیں۔ انہوں نے حیات کے چشمہ موت اور زندگی ک ایک لامتناہی سلسلہ دیکھا۔ ہر حیات کو موت سے اور موت کو حیات وابستہ پایا۔ ہر سکون اور ہر خوشی کو نئ خواہش نئ مایوسی اور نئے غم کے دوش بدوش پایا۔ زندگی کو موت سے ملاقات ہوتے پھر اپنے کرم کے مطابق جنم لیتے دیکھا۔ اس نوری کیفیت اور انکشاف کے بعد وہ بدھ یعنی روشن ضمیر ہو گئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ وہ غلطی اور جہالت کے دھند لکوں سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ان کی زندگی خواہشوں اور الائشوں سے آزاد ہو چکی ہے اور انہیں تناسخ کے چکر سے نجات مل چکی ہے۔ بدھ مت میں گوتم بدھ کے بڑ کے درخت کے نیچے پیدا ہونے اور نروان حاصل ہونے کی وجہ سے اس درخت کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔
انسانی مصاحبوں کے علاج جان لینے کے بعد وہ بنارس آئے اور وہاں ایک مقام مگادیہ میں قیام کیا۔ ان کے چیلے جو انہیں چھوڑ گئے یہاں آن ملے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے چیلوں کو اپنی تعلیمات سے روشناس کرایا اور زندگی و موت کے حقائق انہیں سمجھائے۔ آخر وہ ان کے دین میں داخل ہو گئے، پھر انہوں نے اپنی دعوت کو عام کیا اور تین ماہ یہاں قیام کیا۔ ان کی بزرگی و علم کا شہر دور دور تک پھیل گیا اور بہت سے لوگ ان کی کرامتوں کو دیکھ کر ان کے مزہب میں داخل ہو گئے۔ یہاں سے گوتم راج گڑھ گئے۔ اس وقت مگدھ کا راجا بمبارا تھا۔ اس نے گوتم کا خیر مقدم کیا اور ایک باغ ان کے قیام کے لیے وقف کر دیا۔ یہاں گوتم نے کئ سال گزارے۔ وہ ہر سال گرمی اور جاڑے میں تبلیغ کے لیے نکلتے تھے اور برسات میں واپس آجاتے تھے۔ بعض روایات کے سے معلوم ہوتا ہے کہ راجا بہار ادراجات سترہ نے گوتم سے ملاقاتیں کیں اور انہوں نے بدھ مذہب قبول کر لیا تھا۔
الغرض چند سال کے اندر گوتم کا مزہب تیزی سے پھیل گیا۔ پھر کپل وستو میں باپ کے بلانے پر آئے اور گھر والوں سے ملاقاتیں کیں، مگر راج گڑھ واپس آگئے اور تقریباً چوالیس سال تک گوتم اپنے مزہب کی تبلیغ کرتے رہے اور اس سلسلے میں ہندوستان کے مختلف مقامات پر گئے۔ پہلے کاشی یعنی بنارس پہنچا۔ یہاں مرد اور عورت سب کو دھرم سنایا۔ تین مہینے کے قیام میں 60 چیلے جمع کیے اور ان کو روانہ کیا کہ جاؤ ہر طرف دھرم کا چرچا کرو۔ پھر راج گڑھ گیا۔ یہاں راجا پر جاسب اس کے دھرم کے پیرو بنے۔ پھر کیل وستو میں گیا جہاں اس کا بوڑھا باپ راج کرتا تھا، وطن سے رخصت ہونے کے وقت وہ شہزادہ تھا، اب جو واپس آیا تو زرد لباس، ہاتھ میں کاسئہ گدائ، سر منڈا جوگی تھا، باپ، بیوی، بیٹے اور ساکیہ قوم کے سب مرد عورتوں نے اس کا وعظ سنا اور چیلے ہوگئے۔ ان کی حیات میں ان کا مزہب تیزی سے مقبول ہو گیا اور دور دور تک ان کے مبلغین ہندوستان کے ہر حصہ میں پہنچ گئے اور لوگوں کو اس نئے مذہب سے روشناس کرایا۔ عام روایات کے مطابق گوتم نے 80 سال کی عمر میں وفات پائی۔ہندو رسم کے مطابق ان کی لاش نذر آتش کر دی گئ۔

گوتم بدھ کی اہم تعلیمات:-
بدھ مذہب کی کتابیں دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بانی مذہب کی طرح نہیں بلکہ ایک مصلح یا فلسفی کی حیثیت سے اپنی تعلیمات کا سارا زور اخلاق و اعمال پر پیش کیا گیا ہے اور ان بنیادی عقائد کو نظر انداز کر دیا ہے، جن پر ایک مذہب کی تعمیر ہوتی ہے۔ گوتم نے نہ تو خدا کے وجود پر کوئ صاف بات کہی ہے اور نہ کائنات کی تخلیق کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور نہ ہی روح کی وضاحت کی ہے، بلکہ اسے مادہ کا جز کہہ کر خاموشی اختیار کی ہے۔ جنت و جہنم، حشر و نشر اور آخرت و قیامت جیسے مسائل کو انہوں نے پس پشت ڈال دیا ہے اور آواگون کے ہندو عقیدے کو اہمیت دے کر راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ عالم کی چیزیں اسباب کے تحت وجود میں آتی ہیں اور ہر لمحہ غیر محسوس طریقہ سے بدلتی رہتی ہیں اور انہی اسباب کے تحت فنا ہوتی ہیں۔ گویا پوری کائنات میکانکی طور پر وجود میں آئ ہے اور اسی طور پر چل رہی ہے۔ اس میں کوئ شعور اور ارادہ کارفرما نہیں ہے۔ گوتم نے ان تمام مسائل کی وضاحت اور تشریح کے بغیر اخلاقی احکام کی تلقین کی ہے، جس کے ذریعے نروان حاصل کیا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں گوتم نے والدین، اولاد، استاد و شاگرد، خادم و آقا اور شوہر و بیوی کے فرائض، حقوق اور ذمہ داریاں بتائیں ہیں۔ انہوں نے والدین کو حکم دیا ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دیں اور انہیں برائ سے بچائیں، نیز ان کے لیے ترکے کی شکل میں معاش مہیا کریں۔ اولاد کو حکم دیا کہ وہ والدین کی اطاعت اور احترام کریں۔ اس طرح دوسرے لوگوں کو شفقت، محبت، ہمدردی، احترام، وفاداری، ہنر مندی، مساوات، حسن سلوک، ادب اور تعظیم کی ہدایت کی ہے۔ گویا ایک فلسفی کی موجودات کے اجزاء ترکیبی سے بحث کی ہے۔ پھر انسان کی خصوصیات اور صفات و روپ پر ایک تفصیلی بحث کی ہے، جس سے ایک مذہب کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی ہے۔ گوتم مذہب کے تمام فطری مسائل کو حل کرنے سے قاصر رہے۔ یہی وجہ ہے بدھ مذہب ان لوگوں کے درمیان میں تو پھیل سکا، جو بت پرست اور اوبام پرست تھے۔ مگر اہل مذہب کے مقابلے میں قطعی ناکام رہا۔
بدھ مت کے مشہور فرقے:-
بدھ مت مذہب میں اختلافات گوتم کی زندگی میں ہی پیدا ہو گئے تھے۔ ایک بھنگی کو سنگھ میں داخل کرنے پر اعلیٰ ذات کے ممبروں نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ ذات کے علاوہ اور بہت سے مسائل نزاع کا باعث بن گئے تھے۔ مگر پھر بھی گوتم کی زندگی میں انہیں ابھرنے کا موقع نہیں ملا اور گوتم کی موت کے بعد انہوں نے شدت اختیار کر لی اور بہت جلد بدھ کے تابع اٹھارہ گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ اشوک اور کنشک کی سر پرستی میں جو مجالس منعقد ہوئیں، ان میں اختلافات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئ مگر دور نہ ہو سکے اور بالا آخر بدھ مذہب دو فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ جو ہنیان اور مہایان کے نام سے موسوم ہیں۔ اول الزکر چھوٹا پہیہ (Lesser Wehicle) اور ثانی الذکر بڑا پہیہ (Great Wehicle) بھی کہتے ہیں۔ ان دونوں فرقوں میں سے ہر ایک متعدد ذیلی فرقوں میں تقسیم ہے۔ ہنیان فرقہ جزویات کو چھوڑ کر کلیات میں قدیم مذہب پر کار بند ہے۔ یہ گوتم کی تعلیمات کے مطابق روح اور خدائ کا قائل نہیں ہے، نیز گوتم کو ہادی مانتا ہے، مہایان اس کے بر عکس گوتم کا مافوق الانسان سمجھتا ہے اور اس کی مورت کو بحیثیت دیوتا پوجا کرتا ہے، یہ گوتم کے علاوہ دوسرے دیوتاؤں کا قائل ہے اور ان کی پرستش بھی کرتا ہے۔ اس فرقے کی اشاعت کنشک کے دور میں زور و شور سے ہوئ، اس لیے منگولیا، چین، جاپان اور تبت میں اسی کا غلبہ حاصل ہوا۔ مگر لنکا، برما، سیام، اور مشرقی جزائر میں ہنیان نے پامردی سے مقابلہ کیا، لیکن بالآخر اسے وہاں مغلوب کر لیا گیا۔

بدھ ازم کا مزہبی ادب:-
گوتم کے زمانے میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا۔ اس لیے ایک عرصہ تک ان کی تعلیمات زبانی منتقل ہوتی رہیں۔ تقریباً تین سو سال کے بعد 252 ق م میں اشوک کے عہد میں پہلی مرتبہ انہیں ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کی گئ۔ یہ کتابیں تری پتا کا یعنی تین ٹوکریوں (وینہ پتاکا، ستا پتاکا، ابھی دھماں) کے نام سے منسوب ہوئیں۔ مگر حقیقت میں یہ تین سے زائد ہیں، یعنی ہر کتاب کئ اجزاء پر مشتمل ہے۔ یہ اشوک کے عہد میں بہار کی زبان پالی میں قلمبند کی گئیں تھیں۔ مگر اصل جلدیں بہت جلد ناپید ہو گئیں۔ ان کی نقل مہند لنکالے گیا تھا۔ وہاں ان کا ترجمہ سنگھالی زبان میں ہوا۔ وہ نقل بھی اصل کی طرح معدوم ہو گئیں۔ مگر سنگھالی زبان کا ترجمہ رہ گیا۔
بدھ ازم کی چار عظیم سچائیاں:-
1- زندگی دکھ ہی دکھ ہے۔
2- دکھ کا سبب خواہشاتِ نفسانی ہیں۔
3- خواہشاتِ نفسانی کو قابو کر لیا جائے تو دکھ کم ہو جاتا ہے۔
4- خواہشاتِ نفسانی کا خاتمہ کرنے کے لیے مقدس ہشت اصولی مسلک پر چلنا چاہیے۔
اس مسلک میں راسخ عقیدہ، راست عزم (ترک خواہشاتِ نفسانی اور اہنسا وغیرہ) راست گفتاری، راست روی، کسب حلال، کوشش صالح، نیک نیتی یا راست بازی اور حقیقی (Right Ecstasy) شامل ہیں۔
بدھ مت کے آٹھ اصول/ ہشت پہلو تعلیمات:-
1:- صحیح علم و عقیدہ
2:- صحیح ارادہ
3:-صحیح کلام
4:- صحیح عمل
5:- صحیح سلوک
6:- صحیح کوشش
7:- صحیح یاداشت
8:- صحیح غور وفکر ہیں۔

سنگ کسے کہتے ہیں؟
بدھ ازم کے بخشو گوتم بدھ کی تعلیمات کو ایک خاص موسم میں 9 ماہ بعد مندروں سے باہر نکل کر اپنے مت کی 3 مہینے تلقین کرتے اور باقی ماہ مندر میں بیٹھ کر چلاتے اور نفس کشی کرتے ہیں، گوتم بدھ نے اپنی ایک جماعت بنائ جس کا نام سنگ رکھا تھا۔
سنگ کے بنیادی اصول:-
کوئ شخص سنگ میں شامل نہیں ہو سکتا تھا، جب تک بدھ کے 4 بنیادی اصولوں پر کار بند نہ ہو جائے۔
1-زرد پوشی
2:-سر منڈانا
3-ہاتھ میں کشکول پکڑے رکھنا
4-ہر روز کچھ وقت گھیان دھیان پر صرف کرنا۔
بدھ ازم کے اہم مراکز اور اشاعت کی وجوہات:-
بدھ مت کی ترقی و مقبولیت کا راز اس کے بانی کی بے داغ زندگی میں تھا۔ اس کے علاوہ بدھ مت کے اصول نہایت سادہ تھے۔ مذہبی و راہبانہ جماعت سنگھ نے اس کی اشاعت میں نہایت اہم کردار ادا کیا ۔ ابتدا میں راجاؤں اور سرداروں نے بھی اس کی سر پرستی کی۔ عام رواداری اور محبت کا پیغام عوام کے لیے جو برہمنی نظام کی قیود میں بندھے ہوئے تھے۔ بدھ مذہب کو ابتداء میں نیچی ذات کے لوگوں اور درویشوں نے اختیار کیا تھا۔ پھر سرحدی ریاستوں کے راجاؤں نے اختیار کیا۔ جب اشوک نے بھی بدھ مت کا پیروہو کر اسے اپنی سلطنت کے سرکاری مذہب کا درجہ دیا، تو اس کی شہرت دور دور تک پھیل گیا۔ یہ مذہب وادی سندھ سے افغانستان اور وسط ایشیاء میں داخل ہوا اور چین کے راستے کوریا تک پہنچ گیا۔ اس طرح لنکا، برما، تبت، سیام، نیپال اور ملایا کے لوگوں نے اسے خوشی خوشی قبول کر لیا۔

Christianity Religion History,Origin Complete Religion in Urdu ‎(عیسائیت مذہب)

عیسائیت              

دیباچہ:-
مسیحیت ایک تثلیث کا عقیدہ رکھنے والا مذہب ہے، جو یسوع کو مسیح، خدا کا بیٹا اور خدا کا ایک اقنوم مانتا ہے۔ اور اسے بھی عین اسی طرح خدا مانتا ہے، جیسے خدا اور روح القدس کو۔ جنہیں بالترتیب باپ، بیٹا اور روح القدس کا نام دیا جاتا ہے۔ اپنے پیروکاروں کی تعداد کے اعتبار سے مسیحیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ عمومی لحاظ سے مسیحیوں میں یسوع ناصری کی انفرادیت کے بارے میں عقیدہ مشترک ہے کہ وہ خدا کے بیٹے تھے اور انہوں نے اپنی صلیبی موت کے ذریعہ انسانیت کا کفارہ ادا کیا اور اپنی موت تیسرے دن ہی قبر سے جی اٹھے۔ مسیحی لوگ مذہب میں داخلے کے لیے بپتسمہ پر عقیدہ رکھتے ہیں۔
مسیحیت کا تعارف:-
مسیحیت مذہب پہلی صدی عیسوی میں وجود میں آیا۔ یسوع مسیح جن کو اسلامی دنیا عیسیٰ ابن مریم کے نام سے پکارتی ہے، ان کو تثلیث کا ایک جزو یعنی خدا ماننے والے مسیحی کہلاتے ہیں۔ لیکن کچھ فرقے یسوع کو خدا نہیں مانتے وہ انہیں ایک نبی یا عام انسان مانتے ہیں۔ یہ مذہب مختلف ناموں (مثلاً عیسائیت، مسیحیت اور نصرانیت) کے ساتھ پکارا جاتا ہے۔
حضرت عیسیٰ کا تعارف:-
حضرت عیسیٰ حضرت مریم کے ہاں بغیر باپ کے یروشلم کی ناصرہ بستی میں پیدا ہوئے اور آپ علیہ السلام نے بچپن ہی سے گفتگو کر کے اپنی والدہ کی عفت و عصمت اور اپنے نبی ہونے کا اظہار کیا تھا، 30 سال کی عمر میں رمضان میں آپ کو نبوت دی گئ، کچھ عرصہ آپ علیہ السلام نے تبلیغ کی اور چند حواری تیار کیے پھر یہودیوں کی قتل کی سازش میں اللہ تعالیٰ نے آپ
کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور اب قیامت کے قریب آپ علیہ السلام دوبارہ نزول فرمائیں گے۔
 
عیسائیت کے مشہور عقائد:-
1:- عقیدہ کفارہ:-
یہ عقیدہ عیسائی مذہب کی جان ہے، دراصل عیسائیت میں حضرت آدم علیہ السلام کے جنت میں درخت کے پھل کھانے کا گناہ موروثی طور پر ان کی اولاد میں منتقل ہو گیا تھا جس کے کفارہ کے لئے مسیح علیہ السلام نے سولی پر اپنی جان پیش کی۔ گویا تمام لوگوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی جان کا کفارہ پیش کیا جس کی وجہ سے گناہ معاف ہوا۔ نیز مسیح علیہ السلام کی یہ وہ قربانی ہے جس کے ذریعے ایک گناہ گار انسان اللہ کے قریب ہو جاتا ہے۔
2:- عقیدہ تثلیث:-
مسیحیت میں تین خداؤں کا عقیدہ بہت عام ہے جسے عقیدہ تثلیث کہا جاتا ہے۔ عام طور پر مسیحی کہتے ہیں باپ، بیٹا، روح القدس تینوں مل کر ایک خدا بنتے ہیں اور یی تینوں الگ الگ بھی مکمل خدا ہیں۔
مقدس رسومات اور تہوار:-
1:- بپتسمہ:-
عیسائیت کی پہلی رسم ہے۔ یی ایک غسل ہے جو دائرہ عیسائیت میں داخل ہونے والے کو دیا جاتا ہے اس کے بغیر عیسائیت قبول کرنے والا شخص عیسائی نہیں ہو سکتا۔
2:-عشائے ربانی:-
دائرہ عیسائیت میں داخل ہونے کے بعد یہ اہم ترین رسم ہے، یہ رسم حضرت مسیح علیہ السلام کی یاد میں منائ جاتی ہے جو انہوں نے اپنی گرفتاری سے ایک دن پہلے اپنے حواریوں کے ساتھ رات کا کھانا کھایا تھا۔
3:-ایسٹر:-
یہ تہوار عیسائیت میں 21 مارچ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پر جان کا نزرانہ پیش کرنے کے تیسرے دن بعد زندہ ہونے کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔
4:- کرسمس:-
عیسائی 25 دسمبر کو یوم میلاد مسیح علیہ السلام مناتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ کے مشہور معجزات:-
1:- مٹی کے پرندے بنا کر ان میں پھونک مارتے تو وہ پرندے زندہ ہو کر اڑنے لگتے۔
2:- کوڑ اور پھلبہری کی بیماری والے شخص کے جسم پر ہاتھ پھیرتے تو وہ صحت مند ہو جاتا۔
3:- مردے کو بوقت ضرورت اللہ کے حکم سے زندہ کرتے۔
4:- شیر خوارگی کی عمر میں ماں کی گود میں بول کر ماں کی عفت و عصمت کی گواہی دی۔ وغیرہ۔
حضرت عیسیٰ اور صلیب:-
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پر جان دینے کے بارے سامی مذاہب کے پیروکاروں کا نقطہ نظر مختلف ہے:
عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ کو صلیب پر لٹکایا گیا تھا مگر آپ علیہ السلام تیسرے دن زندہ ہو کر واپس اپنے شاگردوں کے پاس آگئے اور پھر چالیس دن کے بعد شاگردوں کی موجودگی میں آسمان کی طرف واپس آنے کا وعدہ کر کے چلے گئے۔
یہودیوں کے نزدیک:-
حضرت عیسیٰ کو صلیب پر لٹکایا گیا اور وہی انہوں نے جان دے دی اس لئے وہ دوبارہ زندہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آسمان کی طرف گئے ہیں۔
مسلمانوں کے نزدیک وہ صلیب پر نہیں لٹکائے گئے بلکہ ان کے ساتھ منافقت کرنے والے ان کے شاگرد یہودا اسکریوطی کو ان کی جگہ صلیب پر لٹکایا گیا تھا اور حضرت عیسیٰ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا دوبارہ قیامت کے قریب نزول فرمائیں گے۔
مقدس کتاب:-
بائبل میں ایک حصہ مسیحیت کی مقدس کتاب پر مشتمل ہے۔ بائبل کے دو حصے ہیں، عہد نامہ قدیم (عتیق) اور عہد نامہ جدید (اسی میں چار کتب کو انجیل کہا جاتا ہے)
عہد نامہ قدیم یہودیوں کی مقدس کتاب ہے اور اس میں موسیٰ علیہ السلام اور دیگر تمام انبیاء کے حالات کو ضبط تحریر میں لایا گیا ہے، بائبل کا عہد نامہ(عتیق) 39 کتب جبکہ عہد نامہ جدید 27 کتب پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کتب ہیں۔ اس لیے رومن کیتھولک فرقے کے عہد نامہ عتیق میں 46 کتب ہیں جبکہ پروٹسٹنٹ کے عہد نامہ قدیم میں 39 کتب ہیں۔
عہد نامہ جدید یسوع مسیح کے احوال اور کلیسیائ تاریخ پر مشتمل ہے۔ دونوں فرقوں (کیتھولک اور پروٹسٹنٹ) کا عہد نامہ جدید 27 کتب پر مشتمل ہے۔
مشہور اناجیل:-
1:- انجیل متی
2:- انجیل مرقس
3:- انجیل لوقا
4:- انجیل یوحنا
5:- انجیل برنباس۔



Sikhism Religion History, Origin,Tehreek-e-Khalistan All In Urdu ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎(‎سکھ ‏ازم)

سکھ ازم 

سکھ کی تعریف:- "سکھ"  پنجابی زبان کا لفظ ہے اور سنسکرت سے بنا ہے اور اس کا مطلب ہے سیکھنے والا ۔۔ بعض کے بقول "سکھ" کے معنی شاگرد یا مرید کے ہیں۔اصطلاح میں ہر وہ شخص سکھ کہلاتا ہے جو اپنے آپ کو سکھ کہے اور دس گروؤں کا شاگرد مانے اور ان کی تعلیمات اور ملفوظات پر ایمان رکھے اور اس پر عمل کرے۔
سکھ مت کا پس منظر:-سکھ ازم ایک غیر سامی اور آریائ مزہب ہے۔ اگرچہ یہ دنیا کے بڑے مزاہب میں تو شامل نہیں ہوتا مگر یہ مزہب ہندومت سے نکلنے والی شاخ ہے۔ سکھ مت دنیا کے جدید ترین مزاہب میں سے ایک ہے۔ سکھ مت ہندوستان میں ہمیشہ اقلیت کی حیثیت سے رہا ہے۔ موجودہ دور میں اس کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کا مسکن پاکستان اور شمالی بھارت کا وہ علاقہ ہے جس کو پنجاب بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا آغاز سولہویں صدی میں ہوا۔ یہ بنیادی طور پر دو مذہب کا مجموعہ ہے۔ کچھ لوگ اسے الگ ایک مزہب نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک یہ مزہب کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ کیونکہ اس میں نہ عقائد کی تفصیل ہے اور نہ معاملات کی تشریح۔ اس لیے وہ اسے کوئ باقاعدہ مستقل مزہب شمار نہیں کرتے بلکہ وہ اسے ہندومت کی ایک اصلاحی تحریک قرار دیتے ہیں۔ جو ہندومت میں اصلاح چاہتا ہے۔ البتہ یہ مذہب دین اسلام کے چند عناصر کی بھی تبلیغ کرتا نظر آتا ہے اس لیے اپنی بقاء کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
سکھ مت میں داخل کا طریقہ:-
کوئ شخص سکھ خاندان میں پیدا ہو کر سکھ نہیں بنتا بلکہ پختہ عمر میں پاہل لینے کے بعد سکھوں میں شامل ہوتا ہے۔ اس رسم میں میٹھے پانی کے پیالے میں کرپان پھیری جاتی ہے اور نئے سکھ کو عقیدے کی سچائیاں اور ممنوعات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس پر اس پانی کے چھینٹے مارے جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرد مزہب میں شامل ہوتا ہے۔
سکھ ہونے کی شرائط:-
1:- ایک خدا کو ماننا
2:- 10 گرووں کو ماننا جو گرو نانک سے گورو گوبند سنگھ تک ہیں۔
3:- گرگرنتھ صاحب، سکھوں کی مقدس کتاب کو ماننا۔
4:- 10 گروؤں کی تعلیمات کو ماننا
5:- ایک ایماندارانہ زندگی گزارنا، ظلم سے باز رہنا اور نیک لوگوں کی عزت کرنا۔
سکھ مت کے عناصر دین:-
اعتقادات:-
1) ایمان باللہ
 2) ایمان بالرسول
 3) ایمان بالآخرت
عبادات:-
1) بدنی عبادات
2)مالی عبادات
3) مالی و بدنی عبادات
4) صوم و صلوٰۃ
5) زکوٰۃ
6) حج
اعتقادات:-
توحید:-
سکھوں کی مزہبی کتاب گرنتھ صاحب میں "مول منتر" کلام کو ان کے تمام کلام میں سب سے مقدس سمجھا جاتا ہے۔ جوکہ ان کا سب سے پہلا شاعری میں اظہار کا کلام تھا۔ جو انہوں نے سلطان پور کے قیام کے بعد کہا تھا اس میں بابا گرو نانک نے بڑی جامعیت سے ذات خداوندی کا تصور پیش کیا۔ انہوں نے بت پرستی کی سخت مخالفت کی۔ گرونانک کی رب باری تعالیٰ کے بارے میں رائے کچھ یوں تھی: "کہ وہ نہ تو کسی شخصیت کا مالک ہے اور نہ ہی کسی صفت کا مالک ہے۔ وہ اکیلا ہے جو ناقابل تقسیم ہے۔ وہ زمان اور مکان سے ماورا ہے۔ وہ ایسا آزاد ہے جو ہر شے میں سمایا ہوا ہے۔"وہ کہتے کہ
اگرچہ اس کی تعریف کرنا ممکن نہیں لیکن پھر بھی اسے کسی نام سے یاد تو کرنا ضروری ہے۔ اس لیے آپ واضح تور پر خدا کے نام کا زکر کرتے تھے "وہ اتار اور حلول کے عقیدے کے منکر تھے۔
رسالت:-
نعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم:
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے بارے میں گرونانک لکھتے ہیں:
کیتھے نور محمدی ڈیتھے نبی رسول
نانک قدرت دیکھ محر خودی گئ سب بھول
تمام انبیاء کے نور کا، نور محمدی سے ظہور ہوا۔
نانک خدا کی یہ قدرت دیکھ کر اپنی خودی بھول گیا۔
اٹھے پہر بھوندا پھرے کھاون سنڑرے رسول
دوزخ پوندا کیوں رہے جال چت نہ ہوئے رسول
جن لوگوں کے دلوں میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت اور محبت نہ ہوگی وہ اس دنیا میں بھی بھٹکتے پھریں گے اور مرنے کے بعد ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ دنیا کی نجات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے ہی وابستہ ہے۔
ہندو کہن ناپاک ہے دوزخ سولی
کہ دو اللہ اور رسول کو اور نہ بوجھو کوئ
ہندو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ناپاک الفاظ بکتے ہیں۔ وہ یقیناً جہنمی ہیں۔ سچے دل سے تصدیق کرو اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں۔ اس کے سوا کچھ نہ پوجھو۔

آخرت

پل صراط: گرو نانک پل صراط کے بارے میں لکھتے ہیں: پل صراط کا راستہ بڑا کھٹن ہے۔ وہاں کوئی کسی کا ساتھ نہ دے گا۔ ہر ایک کو اکیلا گزرنا ہو گا۔

 اس طرح ایک اور جگہ آتا ہے۔ میں صراط بال سے باریک ہے۔ کیا اس پر چلنے کی مصیبت کے بارے میں نے تو کچھ سنتا نہیں۔ بابا فرید بھی کہتے ہیں کہ

 ظالم خود کو اپنے ہاتھوں برباد نہ کر۔

عبارات

نماز:-

گرونانک نماز کے بارے میں اپنے خیالات ان الفاظ میں پیش کرتا ہے۔

فریدا بے نماز کیتا۔
ایہہ نہ بھلی ریت

کبھی چل نہ آیا۔

پنجے وقت مسیت۔

اٹھ فرید اوضوساج۔

صبح نماز گزار۔

جو سر سائیں نہ ہنوئیں۔ 

سوسر کپ اتار۔

جو سرسائی نہ ہوئیں۔

سوسرکیجیئے کاٹیں۔

کنے ہیٹھ جلائیے۔

بالن سنرڈتے تھائیں

بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اے بے نمازی کتے! تیرا یہ طریق پسندیدہ نہیں ہے کہ کبھی بھی پانچ وقت چل کر نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں نہیں جاتا۔ اے فرید صبح اٹھ کر وضو کرو اور نماز پڑھو۔ جو سر خدا تعالی کے حضور نہیں جاتا اسے جسم سے الگ کر دو۔ جو سر خدا تعالی کے حضور نہیں جھکتا وہ کسی کام کا! وہ تو بے کار ہے۔ ایسے سر کوچولھے میں ہنڈیا کے نیچے ایندھن کی طرح جھونک دو۔

اسی طرح ایک جگہ آتا ہے!

جمع کر نام دی پنج نماز گزار

باجھوں یاد خدائے دلے لہو سیں بہت خوار

پانچوں نمازیں باجماعت پڑھا کر، اگر تو نے اس طرح یاد خداسے غفلت کی تو بہت ذلیل ہو گا۔

زکوة

 بابا گرو نانک زکوۃ کے بارے کہتے ہیں:

لعنت برسے نت نہاں جو زکوٰۃ نہ کڈھدے مال

دھکا  پونداغیب داہوند اسب زوال

ان پر اللہ تعالی کی لعنت جو اپنے مال سے زکوۃ نہیں نکالتے ایسوں پر اچانک غیب سے عذاب آتا ہے اور سارا مال و دولت ختم ہو جاتا ہے۔روزه:-

روزے کے بارے میں گرو نانک کہتے ہیں:

تونے تیسں روزے رکھے اور پانچ نمازیں ساتھ پڑھیں لیکن دیکھنا جس کا دوست شیطان ہے۔ وہ کہیں سارے اعمال کو ہی ضائع نہ کر دے۔ اسی طرح کے کتب میں صاف لکھا ہے کہ گرونانک کی دو سال مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ٹھہرے تھے اور گروجی کا اکثر وقت روزه داری ہی میں گزرتا نیز سکھ کتب سے یہ بھی ثابت ہے کہ گروجی نے اوروں کو بھی روزہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔

حج:-

آخر کار گرونانک اسلام کی طرف مائل ہوئے اور مزارات پر جانا شروع ہو گئے اور پھر یہ تڑپ اتنی بڑھی کہ دل میں آرزوئے حج پید اہوئی۔ جیسا کہ جہنم ساکھوں میں ایک ان کا قول موجود ہے۔ "مردانہ"ان حاجیوں کو جانے دو۔ اگر ہماری قسمت میں حج کعبہ ہے تو ہم بھی پہنچ جائیں گے۔ مردانہ یہ راہ ایسی ہے کہ اگر مہر، محبت خدمت کرتے جائیں تو فیض حاصل ہوتا ہے اور اگر ہنسی مذاق کرتے جائیں تو حاجی نہیں بن سکتے۔

آخر جب یہ عزم بالجزم بن گیا تو ایک دن بابا جی نے مردانہ سے کہا کہ چل ہم بھی دیدار اور حج مکہ کریں" گورونانک جی نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ایک سال تک قیام کیا تھا۔

قرآن مجید

قرآن مجید کلام الہی ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا سر چشمہ ہے۔ حیات اسلامی دستور ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا معجزہ ہے جس کو آج تک کوئ رد نہیں کرسکا۔ چیلنج کے باوجود اس کے مقابلے میں کوئ آج تک کچھ نہیں بنا سکا ہے۔ گرونانک اس کی حقانیت و سچائ سے متاثر ہو کر لکھتے ہیں: کل جنگ کے زمانہ میں صرف قرآن شریفہی منظور شدہ کتاب ہے دوسری تمام کتابیں منسوخ ہو گئیں ہیں ۔ اب اللہ تعالی کی صفت رحمانی جلوہ گر ہے۔

اخلاقیات

جواں مردی:

اس تمام کے باوجود ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اپنی ذات کے فرائض ضروری ہیں۔ جب تک کہ انسان اپنی دنیاوی زندگی میں عشق الٰہی میں کمال نہ حاصل کر لے۔ اس وقت تک وہ بار با اس دنیا میں مختلف شکلوں میں جنم لیتا رہے گا۔ جن کی تعداد چوراسی  لاکھ تک بتائ جاتی ہے۔

اس دوران ایک بار ضرور ایسانادر موقع ملتا ہے جس میں وہ عشق الہی میں کمال حاصل کر لیتا ہے۔ اور یہ صرف انسان کی صورت میں پیدا ہو کر ہی ممکن ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے چھ طریقے سے عشق حقیقی کو پایا تو انہیں 84 لاکھ مختلف زندگیوں سے گزر کر ایک طویل مدت کے بعد یہ موقع ملے گا۔ 

انا کی نفی:

 گرونانک کے نزدیک خدانک پینے میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی امین " میں " ہے۔ ان کے نزدیک انسان اس میں " کی حقیقت کو سمجھ جائے تو اس کی نفی کر کے اپنے مالک حقیقی سے جڑ سکتا ہے۔ جیسا کہ آپ لکھتے ہیں:۔ اگر انسان اس "میں" کی حقیقت کو سمجھ لے تو اس کو خدا کا دروازہ مل جائے۔ انسان معرفت کے بغیر فضول کی بحث میں پڑا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گرو نانک نے بعض دوسری نفسانی بیماریوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کے خیال میں جب تک انسان ان بیماریوں سے پاک نہ ہو اس وقت تک وہ اپنے رب کو نہیں پاسکتا۔ جیسے کہ وہ اپنی تبلیغ میں کہتے تھے خواہشات ، لا ، دنیا سے تعلق اور غصہ و غیرہ سے انسان فلاح نہیں حاصل کر سکتا۔

گرونانککےتبلیغی نکات:-

گرونانک صاحب کی تعلیمات سے ایک چیز جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ آپ کوئی مذہبی مفکر یا فلسفی نہیں تھے۔ بلکہ آپکا سارا زور عشق الہی اور عرفان الہی کی تلقین پر ہی رہا ہے۔ گرونانک کی تبلیغ کے اہم نکات درج ذیل ہوتے تھے

1۔ گرو نانک نیکی کی دعوت دیتے رہے۔

2- برائی سے روکتے تھے۔

3- ریاکاری سے روکتے تھے۔

4۔ خودغرضی سے روکتے تھے۔

5۔ دنیاداری سے روکتے رہے۔

6- جھوٹ کے خلاف تبلیغ کرتے رہے۔

7- تمام کو اللہ کے ہاں حساب دینا ہے۔

8- نجات نیک عمل سے ہوگی۔

9- حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت پڑھتے تھے۔

گور نانک کی کرامات:-

اگرچہ بابا گرو نانک نے اپنی پوری زندگی میں بھی کبھی کرامت دیکھانے کی بات نہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو عام انسان اور گنہگار ہونے کا اعتراف کرتے تھے۔ مگر اس کے باوجود پھر بھی ان سے کچھ کرامات کو منسوب کیا جاتا ہے۔

1- کالے ناگ کا چہرے پر سایہ کرنا

نوجوانی کے ایام میں اپنے مویشیوں کو کھیتوں میں چرارہے تھے۔ بڑی سخت دھوپ اور گرمی کے دن تھے۔ بابا نانک دھوپ سے بچنے کے لیے ایک درخت کے سائے کے نیچے تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئے اور نیند آگئی ۔ تاہم سورج کی کچھ کرنیں آپ کے چہرے پر پڑرہی تھیں، پاس ہی ایک کالا ناگجس نے آپ کے چہرے پر سایہ کر رکھا تھا اپنے منہ کی کھال سے۔ یہ سارا منظر تلونڈی کے سردار راۓ صاحب نے دیکھا تو فورا گھر واپس آ کر نانک کے والدین کو یہ خوشخبری سنائی کہ آپ کا بیٹا عظیم انسان بنے گا۔ لیکن ان کے والدین نے کہا خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

2- آب حیات:- 

ایک دن نانک صاحب کو سخت پیاس لگی تو انہوں نے گاؤں کے قریب تالاب سے پانی لانے کے لیے ایک چرواہے سے کہا کہ جاو تالاب سے پانی لاؤ۔ تو اس    نے جواب دیا حضور میں نے وہاں گیا تھا تالاب خشک تھا اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا۔ تو بابا گرونانک نے نہیں کہا جا کر دیکھو پانی اس میں ہے؟ جب وہ چرواہا تالاب پر آیا تو دیکھ کر حیران ہو گیا کہ واقعی تالاب پانی سے بھرا ہوا ہے ۔ حالانکہ صبح سویرے وہ یہاں سے گزرا تھا تو تالاب میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔ آج بھی یہ تالاب امرت سر میں موجود ہے۔ جس کو آب حیات کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔

3-پنجہ صاحب

کا بل قندھار جاتے ہوئے راستے میں انہوں نے ایک بڑی چٹان جو کہ گررہی تھی اسے گرنے سے روک دیا تھا۔ اس پر آپ کے پنجہ کا نشان آج بھی موجود ہے۔ اس مقام کو “ پنجہ صاحب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

4 انتقال کے بعد جسم کا غیب ہو جاتا

آپ کی وفات کے بعد ہندو اور مسلمانوں میں سخت تنازع ہوا۔ ہندوؤں کا کہنا تھا کہ نانک ہندوؤں کے گھر پیدا ہوا ہے لہذا ہندو ہے اور ہم اس کے جسد خاکی کو جلائیں گے، جبکہ مسلمان اسے خدا پرست اور خداشناس سمجھتے تھے وہ اسے دفن کرنا چاہتے تھے۔ کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تو دونوں طرف سے تلواریں نکل آئیں ، آخر کچھ لوگوں نے فیصلہ دیا کہ نانک کے جسد خاکی کو نہ جلایا جائے اور نہ ہی دفن کیا جائے بلکہ اسے بعد کفنانے اور خوشبو لگاکے راوی میں بہا دیا جائے۔ مسلمان اس پر راضی نہ ہوئے اور ہلہ بول کر اندر جاگھسے ، جہاں پر نانک کا جسد خاکی پڑ اہوا تھا۔ اندر جا کر چادر ہٹائی تو اس میں بابا نانک کی لاش غائب تھی اور چند پھول چادر کے نیچے سے بر آمد ہوئے، خیال ظاہر کیا گیا کہ شاید کوئی نانک کی لاش کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ مسلمانوں نےچاہا کہ اس چادر اور پھولوں کو لے جا کر دفن کر دیا جائے مگر ہندو بھی تیزی سے آگے بڑھے اور انہوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے آدھی چادر کھینچ لی۔ سو مسلمانوں نے آدھی چادر دفن کر دی اور ہندوؤں نے اسے جلاڈالا۔ بعد ازاں سکھوں نے کر تار پور میں ان کی یاد میں ایک مقبرہ تعمیر کیا جہاں ہر سال سکھ بڑی تعداد میں اپنی مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں۔

"پانچ" ک:-

سکھ مذہب میں ہر سکھ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی شناخت کے لیے پانچ چیزوں کو اپنائے یا اپنے پاس رکھے:


 

1-کیش: بال نہ کاٹے جائیں کیونکہ تمام گرو بھی بال نہیں کاٹتے تھے۔

2- کنگھا: سر کے بالوں کو ہموار اور صاف رکھنے کے لیے۔

3-کڑا: اسٹیل یا دھات کی موٹی چوڑی جو قوت کے لیے پہنی جاتی ہے۔

4- کرپان: خنجر جو اپنے دفاع کے لیے رکھاجاتا ہے۔

5-کچھا: پھرتی اور چستی کے لیے پہناجانے والا زیر جامہ جس کی لمبائی گھٹنوں تک ہوتی ہے۔

جدید سکھ مت

اگرچہ دنیا کے مختلف ممالک میں سکھ حضرات موجود ہیں ۔ البتہ جدید سکھ مت کے پیرو کار مرکزی طور پر ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں اہم فرقے یہ ہیں۔ ہر فرقہ گرو نانک کی تعلیمات کو قبول کرتا ہے۔ گرنتھ صاحب کو مقدس مذہبی کتاب مانتا ہے۔ اور دس گروؤں کو الہام یافتہ تصور کرتا ہے۔ سکھ مت مختلف فرقوں میں منقسم ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

ا۔ اداسی فرقہ:

ان کو "نانک پترا" کہتے ہیں ۔ یہ بنیادی طور پر مقدس افراد کا فرقہ ہے۔ انکا جد امجد گرو نانک کا بڑا بیٹا تھا۔ یہ گرو گوبند کی گرنتھ کو مسترد کرتے ہیں۔ جبکہ گرو نانک کے آدھے حصے کی گرنتھ کو مانتے ہیں۔ یہ حضرات ہندو مت، بدھ مت، جین مت، کے کئی قوائد و اصول پر عمل پیرا ہیں۔ یہ کھردرے پیلے کپڑے پہنتے ہیں۔ ان کے پاس صرف ایک برتن کشکول ہو تا ہے۔ یہ سرگرم مبلغ ہوتے ہیں۔ گھوم پھر کر اپنے نظریات و عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اور اپنے مذہب سے دوسروں کو متعارف کراتے ہیں۔ یہ لوگ رہبانیت پسند ہوتے ہیں۔ اداسی کا مطلب ہی تارک دنیا ہے۔

2۔ سہج دھاری سکھ:-

یہ دوسرا فرقہ ہے ۔ یہ جارحیت پسندی کو مسترد کرتے ہیں ۔ جو اب سکھ مذہب کی پہچان بن چکی ہے۔ یہ داڑھی منڈواتے ہیں۔ انکا دوسرا نام " نانک پنتھی"بھی ہے۔

3- نامداری سنگھ سکھ:-

یہ تیسرا فرقہ ہے۔ جو عمومآ سکھ مت کے پیرو کاروں پر بولا جاتا ہے۔ اس فرقہ کی ابتداء بھائی رام سنگھ نے کی۔ جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں سپاہی کی حیثیت سے ملازم ہوا۔ یہ مذہبی مزاج کا آدمی تھا۔ اس کے پیرو کار  بابا بالک رام کو گیارہویں اور اس کو بارہویں گرو سمجھتے ہیں۔ یہ غیر نامداری سکھوں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھاتے۔

4-اکالی فرقہ

" اکالی" کا معنی "اللہ" کے ہیں۔ یعنی خدا کی پوجا کرنے والا فرقہ یہ لوگ انتہائی جنگجو ہوتے ہیں۔ اور دوسرے فرقوں کی بانسبت زیادہ کڑے عقائد کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بندہ پنتھی فرقہ، مذہبی فرقہ اور امداس فرقہ بھی ہیں۔

سکھ مت کی مذہبی کتاب اور عبادت گاہ 

سکھ مت ایک توحیدی مذہب ہے۔ اس مذہب کے پیروکاروں کو سکھ کہا جاتا ہے۔ سکھوں کی مذہبی کتاب شری آوی گرنتھ یا گیان گرو گرنتھ صاحب ہے۔ سکھوں کے مذہبی مقام کو گردوارہ کہتے ہیں۔

گرو گرنتھ صاحب

یہ سکھ مذہب کی مذہبی کتاب ہے۔ گرو نانک نے اپنے فرقہ کے لئے مذہبی نظمیں اور مناجات میں چھوٹی تھیں جن کو سکھوں نے بڑی احتیاط سے محفوظ رکھا۔ دوسرے گرونے گورمکھی پنجابی رسم الخط ایجاد کیا۔ پانچویں گرو نے ان سب کو جمع کر کے ایک کتاب بنادی۔ جس میں کبیر اور پندرہ دیگر رہنماؤں کے اقوال اور گیت شامل ہیں۔ یہ آدی گرنت یا صلی گرنتھ کہلاتی ہے۔ دسویں گرو نے اس میں بہت سانیا اضافہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہو کہ یہ سکھ مذہب کی مقدس کتاب بن گئی۔ مرنے سے پہلے دسویں گرو نے سکھوں سے کہا کہ اب وہ نیا گرونہ مقرر کریں بلکہ گرنتھ کو اپنا گرو قراد دیں۔ اس وقت سے یہ مقدس کتاب گرنتھ صاحب) سکھ فرقہ کا مرکزی اور روحانی سرچشمہ ہے۔ یہ کتاب ساری کی ساری منظوم ہے جس میں گرو نانک اور بابا فرید شکر نج کے علاوہ گرو امر داس، گروار جین، گرو تیغ بہادر اور 25 دوسرے کجھگتوں اور صوفی شاعروں کا کلام شامل ہے۔ گرو ارجن نے ادی گرنتھ کی ترتیب و تدوین کا کام 2004 میں مکمل کیا اور تمام سکھوں کو اس کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی۔

سکھوں کی آبادی:-

 دنیا بھر میں سکھوں کی تعداد 2 کروڑ 30 لاکھ ہے اور اس کا 60 بھارتی صوبہ پنجاب میں رہتے ہیں۔ بھارت کے سابقہ وزیر اعظم منموہن سنگھ بھی ایک سکھ ہیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق، بھارت میں سکھ آبادی 2 08 کروڑ (20.8 ملین) ہے، یہ کل آبادی کا صرف  1.72% ہے بھارت میں کل سکھ آبادی میں سے، 77٪ پنجاب میں رہتے ہیں۔جہاں آبادی کا 58 فی صد سکھ ہیں، بھارتی ریاست پنجاب بھارت کی واحد ریاست ہے جہاں سکھ مت اکثریتی مذہب ہے۔ دوسری ریاستیں جہاں سکھوں کی قابل ذکر آبادی ہے ان میں چندی گڑھ کا لو نی ( 13. 11 %)، نئی دہلی (5. 4%)، ہریانہ ( 4.91%)، اتار کھنڈ ( %2.34)، راجستھان (1.27%)، جموں اور کشمیر (1.87%) اور ہماچل پردیش ( 1. 16%) شامل ہیں۔

گروہر گوبند گرو ارجن دیو کے بعد اس کا بیٹا گرو ہر گوبند (644[ تا606[) اس کا جانشین ہوا۔ یہ سکھ مت کے چھٹے گرو تھے۔ گرو گوبند نے اپنی مسند نشینی کے موقع پر عام اعلان کیا کہ سکھ مذہب میں دین اور سیاست دونوں یک جان ہیں۔ ان کے اس علان کے بعد سکھ مذہب میں سیاست کی بنیاد پڑی۔ اب گرو کا پرانا تصور جو کہ ایک مذہبی راہنما کا تھا تبدیل ہو گیا اور اس پر سیاکی را ہنم کا پہلو غالب آچکا تھا۔ انہوں نے پنجاب کے مخل گورنر کے ساتھ تین اہم جنگیں لڑنی پڑیں جن میں انکا پلہ بھاری تھا۔ انہیں جہانگیر نے گوالیار" کے قلعہ میں کچھ دنوں کے لیے نظر بند کر دیا تھا۔ جہاں سے وہ لاہور کے مشہور صوفی بزرگ میاں میر رحمتہ اللہ تعالی علیہ کی سفارش سے رہائی پا سکے ۔ انہوں نے امرت سر سے اپنی رہائش ختم کر کے شمال مشرق کے پہاڑی علاقے میں ایک باغی راجہ کے پاس اپنے لیے محفوظ ٹھکانہ تلاش کر لیا۔ اور وہیں اپنے آخری ایام گزارے۔

7- گروہری راۓ:-

ساتویں گرو ہری راۓ ( 1661 تا 4664) تھے۔ یہ نرم مزاج اور صلح پسند انسان تھے۔ انہوں نے صرف ایک موقع پر جب شہزادہ داراشکوہ اور نگزیب کی فوجوں سے نیچ کر فرار ہورہا تھا تو انہوں نے اس کی مدد کی تھی اس کے علاوہ انکا کوئی سیاسی اقدام نہیں ہے۔

10- گروہرکشن

آٹھویں گروہ گروہرکشن (1644 تا 4664) تھے۔ یہ گروہری رائے کے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے رام رائے اور نگزیب کے دربار میں مقیم تھے۔ اور اپنے والد سے ناراض تھے اس لیے گروہر کشن کو پانچ سال کی عمر میں اس عہدے پر فائز کیا گیا۔ رام رائے کے کہنے پر اور نگزیب نے انہیں دبلی بلایا۔ جہاں پر چیک کے مرض میں انکا انتقال ہو گیا۔

گروتیغ بہادر:-

 نویں گرو گرو یخ بار (1664 تا2675) تھے۔ جو کہ ایک صلح پسند اور صوفی پند انسان تھے۔ یہ قتل و غارت کی بجائے سخاوت و مهمان نوازی کے نام سے منسوب ہونازیادہ پسند کرتا تھا۔ اور نگزیب نے انہیں دہلی بلوایا اور مسلمان ہونے سے انکار کرنے پر قتل کروایا۔

10۔ گرو گوبند سنگھ

دسویں گروه گرو گوبند سنگھ (1675 تا 708) تھے۔ یہ گرو نانک کے بعد سکھوں کے اہم ترین گور ثابت ہوئے۔ اگر چہ سکھ مت میں تمام گرووں میں باہم کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ گرو تیغ بہادر کے بیٹے تھے۔ انہوں نے سکھوں کو منظم کرنے کے لیے باضابطہ ارادت کا سلسلہ شروع کیا۔ وفاداری کے سخت ترین امتحان کے بعد مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے پانچ سکھوں کو ایک مخصوص رسم "امرت چکھنا" کے ذریعے حلقہ مریدین میں داخل کیا اور انہیں "خالصہ " کا لقب دیا، اس کے بعد اس حلقہ میں عمومی داخلہ ہوا اور ہزاروں سکھ "خالصہ" میں داخل ہوئے۔ اس گرونے شرعی قوانین بھی بنائے۔ ان احکامات میں تمباکو سے اجتناب ، حلال گوشت کی ممانعت، مردوں کے لیے "سنگھ " (شیر) کے نام کا استعمال اور عورتوں کے لیے انگور" (شہزادی کا استعمال لازمی قرار دیا اور پانچ چیزوں کو ہمیشہ اپنے پاس رکھنے کا کہا۔ جن کی ابتدا "ک" سے ہوتی ہے۔

سکھ مت پر اسلام کے اثرات 

1-توحید میں اسلام اور سکھ مت مساوی مذہب:-

 اسلام کی طرح سکھ مت بھی خدائے واحد پر یقین رکھتا ہے اور ذات باری کو ان تمام صفات سے متصف قرار دیتا ہے جن سے اسلام اسے متصف مانتا ہے۔ ڈاکٹر گوپال چندر سنگھ گرو گرنتھ صاحب کے ترجمہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: “ وہ ازلی خالق اور محیط ہے، حسد و نفرت سے دور اور علت العلل ہے، جملہ مخلوقات کا معبود، عادل، رحیم اور کریم ہے، اس نے انسانوں کو ان کے گناہوں پر سزادینے کیلئے نہیں بلکہ اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا ہے ۔ اسلام نے بھی خدا کو ان جملہ صفات سے متصف قرار دیا ہے۔

2-اسلام اور سکھ مت میں نجات کا انحصار: 

سکھ مت میں نجات کا دار و مدار بندگی رب اور اس کے طریقہ کی پیروی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: “اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم لوگ اس کے علاوہ کسی اور کی بندگی نہ کرو" (بنی اسرائیل :32)۔ سورة الذاریات میں ہے : میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی بندگی کیلئے پیدا فرمایا ہے ۔ سورة الاعراف میں شریعت خداوندی کی پیروی کا حکم کیوں دیا گیا ہے: اپنے رب کی جانب سے نازل کی گئی شریعت کی پیروی کرو”. سورة الزمر میں ہے: اس بہتر شریعت کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے” (الزمر:55)۔

3- اسلام اور سکھ مت میں رہبانیت کی مذمت

 سکھ مت رہبانیت کو حرام قرار دیتا ہے اور لوگوں کو حلال رزق کی تلاش پر آمادہ کرتا ہے، مشہور حدیث ہے:" لا ريبانية في الاسلام اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ہے:" اے لوگو جو ایمان لائے ہو ان پاکیزه اموال میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائے ہیں اور ان غلات میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لئے پیدا فرمایا ہے" (البقرہ:267)۔ " پس جب نماز ختم ہو جائے تو تم لوگ زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا رزق تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرو، شاید کہ تم فلاح پاؤ" (الجمعہ :9)۔

4تحریک خالصتان

بھارتی سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو، بھارت سے الگ کر کے ایک آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک ہے۔ سکھ زیادہ تر بھارتی پنجاب میں آباد ہیں اور امرتسر میں ان کا صدر مقام ہے۔ 1980 کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ بھارتی حکومت نے آپریشن بلیو سٹار کرکے اس تحریک کو کچل ڈالا۔ کینیڈا میں مقیم سکھوں پر یہ الزام بھی لگا کہ انہوں نے بھارتی مسافر طیارہ اغوا کر کے تباہ کر دیا۔ د ہشت پر جنگ کے آغاز کے بعد یہ طیارہ واقعہ کینیڈا اور مغربی ابلاغ میں خوب اچھالا گیا جس کی وجہ سے بھارت سے باہر مقیم سکھ اب اس تحریک سے کنی کتراتے ہیں۔

سکھ مت کے مشہور دس گرووں کا مختصر تعارف

1۔ گرونانک

سکھ مت کے بانی گرو نانک نے اپنی مذ ہی زندگی کو باقاعدہ جماعت کی تشکیل کے نظریہ سے نہیں گزارا بلکہ اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں گزارہ اور اس

سے حاصل ہونے والے مشاہدات و طریقے کار کی روشنی میں تبلیغ کے فرائض انجام دے۔ جس کی وجہ سے سکھ مت ابتداء میں ایک تحریک اور پھر بعد میں آنے والے گروہوں نے اس کو ایک مذہب کی شکل دی۔ بعد میں آنے والے گرووں کی سکھ مذہب میں خدمات کا مختصر خلاصہ کچھ یوں ہے:

2- گردان گد

یہ بابا گرونک کے بعد پہلے گرو ہیں۔ ان کو یہ رتبہ حاصل ہے کہ نہیں بابا گرو نانک نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں گرو کے رتبے پر فیض کیا۔ انہوںنے مقامی رسم الخط میں کچھ تبدیلیاں کر کے ایک نیارسم الخط ایجاد کیا۔ اور اس کا نام اگر کھی"رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے گرو نانک کے جملہ کلام کو جو انہوں نے اپنی سیاحت کے دوران جمع کیا تھا اور سنتوں کے کلام کو "گرمی" میں لکھوایا۔ دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ گرونانک کے ایک قریبی ساتھی " بالا" کے ذریعے سے گرو نانک کی سوانح حیات مرتب کرائی۔ جس میں انہوں نے گرونانک کی تعلیمات کو بھی تلخیص کے ساتھ تحریر کیا۔

3- گرامر داس

سکھوں کے تیسرے گرو گرو امر داس" (1574تا1552)تھے۔ گرو انگد نے گرو نانک کے طریقے پر چلتے ہوئے اپنے بیٹوں کی بجائے انہیں منتخب کیا تھا۔ انہوں نے سکھوں کو جو کہ پورے پنجاب میں منتشر تھے۔ پہلی مرتبہ منظم کرنے کے لیے اصلاحات کیں۔ ایسی گرو کے شہنشاہ اکبر کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔

4- گرورام داس

سکھ مت کے چوتھے گرو رام داس (1518 تا574) تھے۔ انہوں نے سکھوں کی شادی اور مرنے کی رسومات ہندومذہب سے الگ متعین کیں۔" ستی" کی رسم کی مخالفت کی اور بیواؤں کی شادی پر زور دیا۔ انہوں نے گرو نانک سے منسوب ایک قدرتی چشمہ پر قائم حوض کو مزید وسعت دے کر ایک تالاب کی شکل دی۔ جس کا نام امرت سر چشمہ آب حیات ) تھا۔ جو بعد میں ایک مقدس مقام بن گیا اور اس کے گرد ایک شہر آباد کیا۔ اور اس شہر کا بھی یہی نام "امرت سر" پڑ گیا۔

5- گرو ارجن دیو

سکھ مت کے پانچویں گرو گرو ارجن دیو (1606 تا 1581) تھے۔ ان کا سکھ مت کو ایک باقاعدہ الگ مستقل مذہب بنانے میں سب سے اہم کردارہے۔ گرو ارجن دیو کا سب سے بڑا کارنامہ "گرنتھ صاحب کا مرتب کروانا ہے۔ جو اس سے پہلے سینه با سینہ چلی آرہی تھی۔ انکا دوسرا کار نامہ" ہری مندر کی تعمیر بھی ہے۔ یہ مندر انہوں نے امرت سر تالاب پر بنوایا۔ جسے اب " در بار صاحب" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ گرو ارجن سنگھ نے سکھوں سے "وس ونتر " یعنی عشره وصول کرنے کا انتظام کیا اور تین شہر "ترن تارن " ، " کر تار پور "، اور " ہر گوبند پور " آباد کئے۔ پھر اس کی بادشاہ وقت جہانگیر سے مخالفت ہوگئی، جہانگیر نے گرو ارجن سنگھ کو قتل کروا دیا اس کا مال و اسباب سب ضبط کر لیا۔

6-گروگوبند:-

 

۔ اسلام اور سکھ مت میں بھیک مانگنے کی مذمت متعدد احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو رزق کے حصول پر اکسایا ہے اور انھیں بھیک مانگے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے منع فرمایا ہے:"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: خدا کی قسمتم میں سے کسی کارتی لے کر نکلنا اور پھر اس کے ذریعہ ایند هنوں کو اپنی پشت پر لاد کر لے آناتا کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے کھانے کا انتظام کرے اور راہ خدا میں صدقہ خیرات کرے زیادہ بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی مال دار شخص کے پاس آکر سوال کرے پس وہ اسے دے یا انکار کر دے، کیونکہ اوپر والاہاتھ نے والے ہاتھ سے بہتر ہے" (متفق علیہ)۔

5- اسلام اور سکھ مت میں مردوزن میں مساوات:

اسلام کی طرح سکھ مت بھی مرد و عورت میں تفریق کا قائل نہیں ہے۔ اس کے نزدیک دونوں نجات پاسکتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا فرمایا ہے اور پھر تمہیں مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹ دیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، یقینا خدا کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والا ہو” (الحجرات:13)۔

6- اسلام اور سکھ مت میں زبان کا تقدس:

 سکھ مت کے نزدیک کوئی زبان مقدس نہیں ہے، الہی سے لیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: "ہم نے کسی بھی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں اپنا نام دے تا کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کی وضاحت کر سکے" (ابراہیم:4)۔

7- عقیدہ رسالت:

 سکھ مت رسالت و نبوت کا قائل اور عقید و او تار کا مخالف ہے۔ آغاز میں سکھ مت کا یہی عقیدہ تھا لیکن رفتہ رفتہ وہ اپنے گردوں کو پوجنے لگے اور ان میں ہی خدا تجھ بیٹھے اور ان کی گفتگو کو مقدس نیز مراقبہ میں ان کی یاد کو افضل عبادت سمجھنے لگے۔

8- دینی کامیابی کی ضمانت ہے:-

 اسلام کی طرح سکھ مت بھی یہ تصور رکھتا ہے کہ خدا کا دین جملہ اقوام کیلئے ہے، کسی گروہ کو خدا کے یہاں مخصوص مقام حاصل نہیں اور نہ ہی مذہبی رسوم کی ادائیگی کی طبقہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ قرآن مجید میں ہے: اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے گزری ہوئی قوموں کو پیدا فرمایا ہے شاید کہ تمہارے اندر خداترسی پیدا ہو” (البقرہ:21)۔

وذہبی کتابوں کا احترام، دونوں مذاہب میں مذہبی کتابوں کی تقدیس و احترام کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ سکھوں کی مقدس کتاب گروگرنتھ صاحب کو وہی شخص اس کے مخصوص مقام سے نکال کر پڑھنے کیلئے لا سکتا ہے جس نے کچھ ہی دیر پہلے عمل کیا ہو نیز اس کی قرأت کے دوران مکمل خاموشی اور سنجیدگی بنائے رکھنا ضروری ہے۔ قرآن مجید کے تعلق سے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:" قرآن مجید کی آیات معزز اوراق میں درج ہیں۔ یہ اوراق انتہائی پاکیزہ اور بلندیوں پر رکھے ہوئے ہیں ، ایسے معززکاتبوں کے ہاتھوں میں ہیں جو انتہائی نیک ہیں" (عبس: 15-13)۔

10- عشر و زکوٰۃ:- دونوں مذاہب میں عشر کا نظام پایا جاتا ہے۔

Writer:-ShoaibKamboh