امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ
ولادت و خاندان
آپ کا نام محمد بن ادریس شافعی، کنیت ابو عبداللہ تھی اور کقب ناصرالسنتہ تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا سن ولادت 150 ہجری ہے۔ اسی سال امام ابو حنیفہ کا انتقال ہوا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مقام ولادت صوبہ عسقلان کا گاؤں غزہ ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نسبی لحاظ سے قریشی، ہاشمی اور مطلبی تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد ماجد ادریس مدینہ منورہ کے قریب ایک قصبہ تبالہ کے ساکن تھے پھر مدینہ منورہ اور وہاں سے عسقلان میں جا کر رہائش پذیر ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد آپ رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش سے قبل وفات پا چکے تھے۔ اس طرح آپ رحمتہ اللہ علیہ نے یتیمی میں آنکھ کھولی۔
حصول علم
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ نے ان کی ایسی عمدہ تربیت کی کہ بچپن میں ہی انھیں علم کا شوق پیدا ہوگیا۔ ذکاوت و ذہانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت تھی۔ سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ والدہ نے دس برس کی عمر میں، حصول علم کے لیے مکہ مکرمہ بھیجا وہاں تین سال میں فقہ اور حدیث کی تکمیل کی پھر مدینہ منورہ امام مالک کی خدمت میں تشریف لے گئے اور ان کی وفات تک برابر ان کے آستانہ علم سے وابستہ رہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے انھیں نصیحت فرمائ تھی کہ
"اے محمد بن ادریس! خدا سے ڈرتے رہنا، عنقریب تمہاری شان بڑی بلند ہو گی۔"
امام شافعی نے تحصیل علم کے لئے یمن اور عراق کا بھی سفر کیا۔ عراق میں امام بن حسن شیبانی سے عراقی فقہ سیکھی۔ بالآخر مور میں اقامت گزیں ہوگئے اور یہیں 204 ہجری میں وفات پائ۔
دینی و فقہی خدمات
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ لغت، فقہ اور حدیث کے امام تھے۔ زبان دانی اور فصاحت و بلاغت سے غیر معمولی لگاؤ تھا۔ اخبار اور اشعار میں اس قدر کمال حاصل تھا کہ اصمعی جیسا ادیب، امام شافعی کے متعلق کہتا ہے کہ
"اشعار کی تصحیح میں ایک قریشی نوجوان سے کر لیا کرتا ہوں جس کا نام محمد بن ادریس ہے۔"
تصنیفی خدمات
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اصول فقہ پر متعدد کتب لکھ کر اس کے قواعد مرتب کیے۔ فقہ کے دائرہ کو محدود و مضبوط کیا اور فقہ کو قابل بنایا۔ انھوں نے فقہ کے چاروں مصادر سے مسائل کا استنباط کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے چھوٹی بڑی 113 کتب تصنیف کیں جن میں "الرسالہ" اور کتاب الام زیادہ مشہور ہیں۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "الرسالہ" میں اصول فقہ پر کھل کر بحث کی ہے۔ قرآن، حدیث، خبرواحد ، اجماع اور اجتہاد کے موضوع پر مفصل کلام کیا ہے۔ اس طرح انھوں نے کتاب الام پر فقہی مسائل اور احکام جمع کر دیئے ہیں۔ یہ مناظرانہ انداز میں لکھی گئ ہے جو سات جلدوں پر مشتمل ہے۔
ابتلاء و آزمائش
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو بھی امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی طرح حق گوئ پر ابتلا و آزمائش سے گزرنا پڑا۔ آپ یمن میں مقیم تھے کہ عامل یمن نے خلیفہ ہارون الرشید کو امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی شکایت کی کہ وہ آل علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خواب دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ اس نے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کا حکم دیا۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ دور ابتلاء ہمت و صبر سے برداشت کیا اور سلطان جابر کے سامنے بھی کلمہ حق کہنے سے باز نہ آئے۔
اساتذہ
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ کے بہترین اور معروف اور فاضل اساتزہ سے استفادہ کیا۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق، آپ کے اساتذہ میں جو اصحاب فقہ و فتوی تھے صرف ان کی تعداد 19 ہے۔ آپ کے معروف اساتذہ میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ سفیان بن عینہ رحمتہ اللہ علیہ اور مسلم بن خالد زنجی ہیں۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اپنے فقہ کے استاد محمد بن حسن شیبانی کے بڑے مداح ہیں فرماتے ہیں۔
"جس شخص کا فقہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان ہے وہ امام بن حسن ہیں"
تلامزہ
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے تلامزہ کا حلقہ بڑا وسیع ہے ان میں کئ مجتہد اور اصحاب مزاہب ہیں جن میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ داؤد ظاہری رحمتہ اللہ علیہ اور ابن جریر طبری رحمتہ اللہ علیہ زیادہ مشہور ہیں۔
ربیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے ایک وقت میں حدیث و فقہ کی تحصیل کرنے والوں کی سات سو سواریاں کھڑی دیکھی ہیں۔
علمی مقام
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا دینی علوم میں بڑا بلند مقام ہے۔ پندرہ سال کی عمر میں انھیں فتویٰ دینے کی اجازت مل گئ تھی۔ انھوں نے اپنے زمانے کی مروجہ حنفی اور مالکی فقہ پر عبور حاصل کیا۔ ان پر ناقدانہ نظر سے محاکمہ کیا اور اپنا جداگانہ فقہی مسلک اپنایا جسے مصر میں عروج حاصل ہوا۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ خداوند کریم ہر صدی کے آغاز سے اس امت کے لیے ایسا شخص مبعوث کردے گا جو دین اسلام کو قائم کرنے والا ہو گا۔ اس طرح پہلے شخص حضرت عمر بن عبد العزیز اور دوسرے شخص شافعی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔"
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک "امام شافعی" کا شمار ان فقہائے عظام میں ہے جو لائق اتباع ہیں۔"
امام محمد فرماتے ہیں کہ کوئ ایسا محدث نہیں جس کی گردن پر امام شافعی کا احسان نہ ہو۔"
اجتہاد اور فتوی کا طریقہ
وہ مسائل اخز کرنے کے لیے پہلے قرآن مجید پر نظر ڈالتے ہیں پھر حدیث، پھر اجماع صحابہ پر، ازاں بعد خبر واثد پر۔ جب دو احادیث باہم ٹکراتی ہوں تو اس صحابی کی رائے لیتے جو پہلے ایمان لایا ہو یعنی سابق الایمان ہو۔
خدمات اور فقہ کی خصوصیات
حنفی اور مالکی کے بین بین
یہ مسلک حنفی و مالکی کے بین بین ہے کیونکہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو خاص طور پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور محمد بن الحسن دونوں کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔
ادبی محاسن
قرآن مجید و حدیث کے بعد امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اپنی فقہ میں لغت و ادب کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ان کی فقہی تصانیف،۔ایجاز و اختصار اور فصاحت و بلاغت کا لافانی شاہکار ہیں۔ ان کی تحریر اس زمانے کے تبلیغ ترین انشاء پردازوں سے کم درجہ نہیں رکھتی۔
اختلافی مسائل میں دو اقوال
تقریباً ہر اختلافی مسئلہ میں امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے دو قول ہیں یعنی قدیم اور جدید۔ مصر آنے سے پہلے کے شافعی مزہب کو مزہب قدیم اور مصر آنے کے بعد والے مسلک کو مزہب جدید کہا جاتا ہے۔ مصر میں امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے بہت سے اقوال سے رجوع کر کے جدید رائے قائم کی تھی۔
اہل مکہ کا اجتماعی عمل
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی فقہ میں اہل مکہ کے تعامل کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جس طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ میں اہل مدینہ کے عمل کو لائق توجہ سمجھا گیا ہے۔
استحسان اور مسئلہ
اس مسلک میں استحسان اور مصالح مرسلہ کی نفی کی گئ ہے۔
احادیث پر خصوصی توجہ
احادیث سے استنباط کرتے وقت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ قوانین روایت کا خاص احترام کرتے ہیں اور وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو منشائے ربانی کا نام دیتے ہیں۔ کسی روایت کے راوی ثقہ ہوں تو اسے بہر صورت قیاس پر ترجیح دیتے ہیں۔
اجماع صحابہ
اگر قرآن و حدیث کی نص موجود نہ ہو تو صحابہ رضی اللہ عنہ کے اجماع پر عمل فرماتے ہیں۔
قیاس ماخزفقہ
وہ قیاس کو بھی مخز علم جانتے ہیں۔ اگرچہ ان کی زیادہ توجہ کتاب و سنت کے نصوص پر رہی۔
اکثر شافعی حضرات اشعری ہیں۔
بعض بڑے بڑے ائمہ تصوف بھی شافعی گزرے ہیں۔
مصر میں سلطنت ایوبی میں یہ مسلک حکومت کا۔سرکاری مزہب رہا ہے۔
باطل فرقوں بالخصوص معتزلہ کا رد سب سے زیادہ شوافع نے کیا ہے۔