یہودیت
اس وقت موجود الہامی اور سامی مزاہب میں سے یہودیت کا مذہب سب سے پرانا ہے جس کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام سے آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے ہوا تھا۔ یہ مذہب غیر تبلیغی ہے اس اعتبار سے اب اس کی تعداد دیگر الہامی مذاہب کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس مزہب کا مرکز فلسطین میں اسرائیلی ریاست کو کہا جاتا ہے جو کہ تحریک صیہونیت کی کاوشوں کے نتیجہ میں 1948ء کو اقوام متحدہ کے تعاون سے معرض وجود میں آئ۔ یہودیت کا اصل وطن عراق بتایا جاتا ہے جہاں حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئ تھی۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں یہ لوگ مصر میں آباد ہوگئے اور اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں مصر کے فرعون سے نجات پا کر واپس اپنے علاقہ عراق اور اس کے گردونواح میں آکر آباد ہو گئے۔
ربانی (ربیون کی) یہودیت کے مطابق، یہودی وہ ہے جس کی ماں یہودی ہو یا وہ جس نے رسمی طور پر یہودی مذہب قبول کر لیا ہو۔ "یہودی" یعقوب کے بارہ بیٹوں اور اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے ایک یہوداہ کے نام سے ماخوذ ہے۔ جوکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بڑے بیٹے کا نام تھا۔ آج بہت سے لوگ ایمان رکھتے ہیں کہ یہودی وہ ہیں جو باوجود ان اصل بارہ قبیلوں کے جن سے وہ پیدا ہوئے جسمانی طور پر حضرت ابرہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، اور حضرت یعقوب کی نسل ہیں۔ یہودیت کا دوسرو نام بنی اسرائیل ہے جوکہ حضرت یعقوب کی اولاد کو کہا جاتا ہے کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا جس کے معنی " اللہ کا بندہ" ہے۔
یہودیت کے مشہور انبیاء:-
یہودیت کا آغاز اگرچہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے ہو چکا تھا تاہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو باقاعدہ پہلا نبی ہونے کی شہرت حاصل ہے جن پر تورات نازل ہوئ پھر اس کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کو شہرت ملی جنہوں نے بیت المقدس کی بنیادیں رکھیں اور ان پر زبور نازل ہوئ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کو شہرت حاصل ہوئی جو کہ حضرت داؤد کے بیٹے تھے اور انہیں کے دور حکومت میں بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہوئ ، پھر حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحیی علیہ السلام وغیرہ مشہور بنی اسرائیلی انبیاء ہیں۔
یہودیت کے اہم عقائد:-
موجودہ دنیا میں یہودیت کی پانچ بڑی اشکال یا فرقے ہیں۔ یہ آرتھوڈوکس ، قدامت پسند، ریفامڈ، تنظیم نو کے حامی، اور انسان شناس (ہیومن اسٹک)
ہیں۔ہر گروہ کے عقائد اور مطالبات ڈرامائی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ تاہم یہودیت کے روایتی عقائد کی مختصر فہرست میں مندرجہ ذیل باتیں شامل ہیں۔ جن کو بارہویں صدی کے یہودی عالم ، فلسفی اور ربی موسی بن میمون نے تیرہ اساسی اصول "شولوشاہ عصر ارکام" کے نام سے ان تمام توارتی احکامات کو مدون کیا جو عقائد میں بنیادی حیثیت اور اہمیت رکھتے ہیں۔ موسی بن میمون کے نزدیک " یہ ہمارے مذہب کے وہ اساسی حقائق جن پر تمام مزہبی عقائد و رسوم کی بنیاد ہے"۔ ان اعتقادات کو یہودیت میں عقائد کی واضح ترین تشریح کے طور پر قبولیت عام حاصل ہوئ اور آج تک یہودی کتب ادعیہ میں مندرج ہیں۔ موسی بن میمون نے انہیں اس طرح بیان کیا ہے:-
1:-اس کی واحدانیت اور بے مثل ہونے پر اعتقاد۔
2-یہ کہ وہ لامکاں و ماورائے مادہ ہے۔ نہ وہ تھکتا ہے نہ کوئ سرگرمی اس پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
3:- اس کی ابدیت پر اعتقاد
4:-وجودخالق پر اعتقاد جو ہر جہت، سمت، اور صفت میں کامل اکمل ہے اور تمام تر موجودات اس کہ رہین منت ہیں۔
5:-صرف وہی لائق عبادت ہے اور اس کے علاوہ کوئ نہیں۔
6:- اس بات پر اعتقاد کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے انبیاء کے توسط سے بات کرتا ہے۔
7:-موسی کو نبوت کاملہ اور ان کے بتائے تمام غیبو شہود پر اعتقاد۔
8:تورات کے کلام الٰہی ہونے پر اعتقاد۔
9؛تورات کے تحریف و تنقیص سے مبرا ہونے پر اعتقاد۔
10:رب العزت کے ہر شے کے علم اور احاطے پر اعتقاد۔
11: رب العزت کے سزاوجزا پر قادر ہونے پر یا سزا وجزا من جانب اللہ پر اعتقاد۔
12: مسیح اور ان کے دور کے واپس آنے پر اعتقاد
13:روز حشر اور مردوں کے دوبارہ جی اٹھنے پر اعتقاد۔
یہودی ان 13 احکامات یا ادعیہ کو منظوم یا لے کے انداز ہر صبح سائینا گوگ میں بعد از عبادت پڑھتے ہیں اور آغاز میں ' انی مامن ' کہتے ہیں جس کے معنی ہیں میں ایمان لایا۔
یہودی عبادت گاہ:-
یہودیت میں بالخصوص وہ عبادت گاہیں ہیں جو فلسطین میں ہیں ان عبادت گاہوں کو سائنا گاگ کہتے ہیں۔ سائنا گاگ (کنیسہ) ہیکل ثانی کی تباہی کے بعد معرض وجود میں آیا اور مزہب یہودیت کا مرکز ٹھہرا۔ جو بیک وقت معبد، مقام دعا ہائے خصوصی اور جائے قربانی قرار پایا۔ اس میں پہلے ٹوپی پہن کر داخل ہونا شرط تھا تاہم اب ننگے سر بھی داخل ہونے کی اجازت ہے، نیز فلسطین سے باہر جو یہودی عبادت گاہیں ان کو صومعہ کہا جاتا ہے۔
یہودی عبادات اور ادعیہ:-
یہودی عبادت اور نماز کے لیے ہفتے کا دن مخصوص ہے۔ اسے سبت کہا جاتا ہے عربی میں یوم سبت کہلاتا ہے ۔ بائیبل میں سبت کو ہفتے کا ساتواں دن اور آرام وراحت کا دن کہا گیا ہے۔ اس دن یہودی خصوصی عبادات کا احتمام کرتے ہیں اور زائرین معابد کے لیے خصوصی اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کے نزدیک صرف تین نمازیں فرض ہیں، ان کے ہاں روزہ بھی ایک اہم عبادت ہے جو قومی اور انفرادی دو حصوں میں تقسیم ہے، نیز قربانی کی بھی بڑی اہمیت ہے جس میں سو ختنی اور غیر سو ختنی قربانی کی دو قسمیں مشہور ہیں۔
مزہبی تہوار:-
یہودیوں کے ہاں مندرجہ ذیل مشہور مزہبی تہوار ہیں:
1:-یوم سبت:
یہ دن خاص اہمیت کا حامل ہے، بروز ہفتہ اس کو منایا جاتا ہے، اس دن یہودی دنیاوی کاروبار نہیں کرتے اور یہود کے ہاں یہ یوم تعطیل ہے۔
2:- عید فصیح:-
ہر عیسوی سال کے ماہ اپریل میں یہ عید مسلسل سات دن منائ جاتی ہے، اس تہوار کے بارے مشہور ہے کہ یہ فرعون مصر سے نجات کی خوشی میں منایا جاتا ہے
3:- عید نوروز:-
ہر سال کے آغاز میں یہ تہوار یہودی نئے سال کا جشن مناتے ہیں۔ وغیرہ
یہود کا مقدس دینی ادب
یہود کا مقدس دینی ادب بنیادی طور پر دو کتابوں پر مشتمل ہے:
1_ عہد نامہ قدیم 2_ تالمود
1:- عہد نامہ قدیم:-
عہد نامہ قدیم کو آسانی کے ساتھ تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ( تورات، انبیاء کی کتابیں ، متفرق کتابیں) جس میں حصہ اول یعنی تورات مشہور ہے۔
تورات: اس کو شرعیت اور قانون بھی کہتے ہیں، اس میں درج ذیل پانچ کتابیں ہیں:
(1۔پیدائش، 2۔ خروج، 3۔ احبار، 4۔ گنتی ،5۔ استثناء)
2:-تالمود:-
تالمود کو بھی یہود کے ہاں بہت اہمیت دی جاتی ہے بلکہ اس کو وحی غیر مقطوع کی حیثیت حاصل ہے۔ تالمود ذن روایات کا مجموعہ ہے جو یہود کے ہاں انبیاء اور اکابر سینہ بہ سینہ علماء کاتبوں ، احبار اور پھر ربیوں تک پہنچا ہے۔ اس کو عہد نامہ قدیم کے تشریحی لٹریچر کی حیثیت حاصل ہے۔