-->

Zoroastrianism Religion(Parsi Religion) in Urdu زرتشت ازم(مجوسی، پارسی، صابی)

  زرتشت ازم(مجوسی، پارسی، صابی)

ابتدائیہ:-
زرتشت یا زردشت مزہب کو پارسی بھی کہا جاتا ہے۔ زرتشت دنیا کا قدیم ترین اور واحدانیت پسند مزاہب میں سے ایک مزہب ہے، اس مزہب کو " زردشت" ہی نے ایجاد کیا۔ یہ ایران میں زرتشت کے ذریعہ وجود میں آیا تھا اور دنیا میں یہ ایک ہزار سال تک ایک بہت طاقت ور مزہب رہا ہے۔ یہ ایران کا 600 قبل مسیح سے 650 قبل مسیح تک سرکاری مزہب رہا ہے۔ لیکن اب یہ دنیا کا سب سے چھوٹا مزہب ہے۔ 2006 کے " نیو یارک ٹائم " کے مطابق اس مزہب کے ماننے والے 190000 سے بھی کم تعداد میں رہ گئے ہیں کیوں کہ یہ مزہب غیر تبلیغی ہے اور کوئ شخص جو پارسی ماں باپ سے نہ ہو وہ اسے نہیں اپنا سکتا۔ ہر دس برس بعد ان میں دس فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے شرح پیدائش میں کمی ہے۔ دوسرے اس مذہب کی خواتین میں یغیر شادی شدہ رہنے کا تجحان بھی زیادہ ہے۔
برصغیر پاک وہند میں زرتشتی ساتویں صدی عیسوی میں ایران سے ہجرت کرکے ہندوستان پہنچے اور ستر فیصد ہندوستان میں آباد ہیں 1857 کی جنگ آزادی کے بعد بہت ڈے پارسی عیسائی مشنری کا شکار ہوئے اور کچھ حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے اس وقت دنیا میں ان کی تعداد چند ہزار پر مشتمل ہے اور زیادہ تر بمبئی ، گجرات اور کراچی میں آباد ہیں۔ اسلامی روایات مین زرتشیوں کو اہل کتاب سمجھا جاتا ہے۔


زرتشت کے مطابق جس طرح دنیا کا نظام روشنی اور تاریکی میں منقسم ہے اس طرح کائنات کا نظام بھی خیروشر میں تقسیم ہے۔ لہذا اس دنیا کا خالق ایک نہیں دو ہیں ایک خدائے خیر جسے " اہور امزاد" کہتے ہیں اور دوسرا خدائے شر جسے اہرمن کہتے ہیں۔ خدائے شر سے کوئ تعلق نہیں رکھتا اور خدائے شر کو خیر سے کوئ واسطہ نہیں۔ یہ دونوں خدا آج کے زرتشتیوں  کے "یزداں "  اور " اہرمن" کہتے ہیں لیکن عبادت صرف " یزداں" کی جاتی ہے۔ ان کی عبادت گاہوں میں بت نہیں ہوتے بلکہ صندل کی لکڑی سے آگ جلا کر اس کی پرستش کی جاتی ہے یہ لوگ پہلے بھی آفتاب کی پرستش کے عادی تھے اور آگ بہ اعتبار حرارت و روشنی کے سورج سے متعلق ہے ان کی عبادت گاہ "آتش کدہ" کہلاتی ہے۔
ایران کے قدیم مذہب میں" اشورا" کی پرستش قدیم آریائی قوم کے مزہب کا ایک حصہ تھی " اشورا" سنسکرت میں "اہورامزدا" کے مترادف ہے۔ اس سے مراد ایسی فوق الفطرت ہستیاں جن کی پرستش کا رواج زرتشت ڈے قبل ایرانی مذہب میں عام تھا جسے مقامی زبان میں اہوار کہا جاتا تھا لیکن زرتشت نے " "اہور امزدا" یعنی یزداں کو حقیقی معبود قرار دیا اور اس کی درج ذیل خصوصیات و صفات بیان کیں:۔ 1۔روح القدس 2۔ درجہ کمال 3۔ نظم کائنات 4۔ اختیار کامل 5۔ نیک خیال 6۔ اخلاص 7۔ قائم و دائم۔
زرتشت کی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ " اہورامزدا"  ہی کو معبود حقیقی  اور خالق کل تصور کرتے ہیں اور کائنات کی مکمل حکمرانی اہورا مزدا ہی کو حاصل ہے جو مختلف صفات کی حامل شخصیتوں کے
ذریعہ حکمرانی کو نافذ کرتا ہے۔ اس مزہب میں سزا و جزا کا تصور موجود ہے اور مرنے کے بعد بہشت اور دوزخ کا بھی تصور موجود ہے اس مزہب کے لوگ  مرنے کے بعد لاش کو دفن نہیں کرتے بلکہ ایک کنویں یا تالاب میں لٹکا دیتے ہیں تاکہ پرندے یا جانور کھا سکیں۔ اس مزہب میں صحت و تندرستی کی تعلیم اور قول و فعل کی پاکیزگی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ زرتشت مذہب کے دو مشہور تہوار "گھمبار" اور"نوروز" ہیں۔





زرتشت/ مجوسیت کا آغاز:-
دنیا کے سب سے قدیم مزاہب میں سے ہوتا ہے، زرتشت مزہب کی کوئ کنفرم تاریخ ظہور تو نہیں ملتی تاہم کئ جگہوں پر اسے دو ہزار قبل مسیح کا مانا جاتا ہے، اس مذہب کی ابتداء ایران میں ہوئ ، جب دنیا کے تین بڑے مزاہب کا وجود نہ تھا، تب زرتشت مزہب اپنی پوری آن بان اور شان کے ساتھ  رائج تھا اور اس کے بے شمار ماننے والے تھے ، سلطنت وجود رکھتیں تھیں، اسلام آج سے 1440 سال پرانا مذہب ہے، عیسائیت 2019 سال پرانا ، یہودیت 3319 سال پرانا جبکہ زرتشت مذہب آج سے 4019 سال پرانا مزہب ہے۔ اسلام کے ظہور سے قبل ایران کا سرکاری مزہب زرتشت تھا اور بہت بڑی قوم آتش پرست تھی، پارسی مزہب کا زوال تب ہوا جب اسلام نے ایران پر اپنا اثر قائم کرتے ہوئے ایران کو فتح کیا اور وہاں اسلام کو مزہب کے طور پر نافز کر دیا گیا، اس وقت جو چند ہزار لوگ وہاں سے فرار ہو سکے انہوں نے برصغیر میں پناہ لی۔ آج پوری دنیا میں پارسی مذہب کے ماننے والے تقریبا ڈھائ لاکھ ہی بچے ہیں، اس میں سے 80 فیصد پارسی ہندوستان میں مقیم ہیں، باقی 20 فیصد پوری دنیا میں کہیں نا کہیں آباد ہیں، پاکستان میں بھی چند ہزار لوگ موجود ہیں جنکی زیادہ تر آبادی کراچی میں موجود ہے۔
جناب زرتشت سے پہلے  ایرانی مظاہر فطرت مثلاً آسمان، روشنی، آگ ، ہوا ، بارش، وغیرہ کی پرستش کرتے تھے، اور سورج کو خدا کی آنکھ اور روشنی کو خدا کا بیٹا کہتے تھے، اور اسے خیر کا مظہر گردانتے تھے، جبکہ ان کے نزدیک ، ظلمت ، شرکا پہلو لیئے ہوئے تھی۔ اس کے علاوہ ، ہندوستان قدیم کے ہندوئوں کی طرح بہت سے دیوتائوں کی بھی پرستش کرتے تھے۔۔وہ یہ بھی مانتے تھے کہ ان میں کچھ دیوتا  خیر کے نمائندہ ہیں اور کچھ شر کے۔اور دونوں میں ہر وقت نزاع رہتی ہے۔
جناب زرتشت نے تمام دیوتاؤں کو اکٹھا کر کے صرف دو خداؤں کا تصور دیا۔۔۔ ایک خیر کا خدا  جس کا نام ، اہور منردا تھا اور دوسرا اہرمن ، جو شرکا خدا تھا، ان کے عقائد کے مطابق ، دونوں قوتیں ہر وقت بر سر پیکار رہتی ہیں۔ جب شہنشاہ  پستا سپ نے جناب ، زرتشت صاحب کا مزہب قبول کر لیا تو وہ شاہی مزہب ہونے کی وجہ سے پورے ایران کا مزہب بن گیا۔
اس مذہب کے مطابق ، خیر اور شر کے دونوں خدا، تخلیق پر قادر ہیں۔ خیر کا نشان نور ہے اور شر کا ظلمت، خیر کے خدا نے روشنی ، پیدا کی ، پہرے دینے والے کتے پیدا کیے، مویشی اور مرغ پیدا کیئے۔ جب کہ شر کے خدا نے درندے ، سانپ اور اژدھے پیدا کیے، لہزا مومنیں کا فریضہ یہ ہے کہ جہاں ایسی موذی اشیاء دیکھے ، انہیں ہلاک کر دے، اسی ظلمت کو ختم کرنے کے لیے ان کی عبادت گاہوں میں ہر وقت آگ روشن رہتی ہے۔اس مذہب کے مطابق دونوں خدا آپس میں نہیں لڑتے بلکہ اپنی مخلوقات کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں۔
زرتشت کا مفہوم:-
زرتشت یا مجوسیت کو عام طور پر زرتشتیت ، عربی میں : زرادشتیته، انگریزی (Zoroastrianism)  کہا جاتا ہے۔ اس کا معنی بڑا پادری ، یا روحانی رہنما کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے، مگر یہ دنیا کے قدیم مزاہب میں سے ایک ہے۔ ایک ایرانی پیغمبر زرتشت نے پارسی مزہب کی بنیاد رکھی تھی اسے عام طور پر پارسی مذہب بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسے آتش پرستوں کا مزہب اور مجوسیت بھی کہا جاتا ہے۔
زرتشت کا تعارف:-
زرتشت ایران کے صوبہ آذربائجان میں بحر حزر کے مغربی کنارے میں 610, ق م میں پیدا ہوا اور 583 ق م میں وفات پائ ۔ آپ کے والد کا نام "پورشاسب اسٹیما" اور والدہ کا نام " وگدو" کے علاوہ بعض روایات میں " آسان" بتایا گیا ہے۔ آپ کا تعلق آریا خاندان کے جادوگر اور پروہت فیملی سے تھا، آپ نے جوانی گوشہ نشینی ، غوروفکر اور مطالعے میں گزاری۔
تیس برس کی عمر میں اہور امزدا (ارموز) یعنی خدائے واحد کے وجود کا اعلان کیا لیکن وطن میں کسی نے بات نہ سنی۔ تب مشرق ایران کا رخ کیا اور پھر صوبہ  بلخ کے بادشاہ شاہ گستاسپ کے دربار میں حاضر ہوا ۔ ملکہ اور وزیر کے دونوں بیٹے ( گھوڑے کی صحتیابی کے واقع کے بعد) اس کے پیرو کو گئے۔ بعد ازاں شہنشاہ نے بھی اس کا مزہب قبول کر لیا۔ کہتے ہیں کہ تورانیوں کے دوسرے حملے کے دوران میں بلخ کے مقام پر ایک تورانی سپاہی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ کوروش اعظم اور دارااعظم نے زرتشتی مزہب کو تمام ملک میں حکمارائج کیا۔ ایران پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد یہ مزہب اپنی جنم بھومی سے بالکل ختم ہو گیا۔ آج کل اس کے پیرو جنہیں پارسی کہا جاتا ہے، ہندوستان ، پاکستان ، آفریقا، یورپ،  میں بہت قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
زرتشت ازم کا عقیدہ ثنویت:-
زرتشت ثنویت کا قائل تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ کائنات میں دو طاقتیں ( یا دو خدا) کار فرما ہیں۔ ایک اہورامزد (یزداں) جو خالق اعلی اور روح حق و صداقت ہے اور جسے نیک روحوں کی امداد و اعانت حاصل ہے۔ اور دوسرا خدا اہرمن جوبدی ، جھوٹ اور تباہی کی طاقت ہے۔ اس کی مدد بد روحیں کرتی ہیں۔ ان دونوں طاقتوں یا خداؤں کی ازل سے کشمکش چلی آرہی ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ جب اہور امزدا کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے تو دنیا امن و سکون اور خوشحالی کا گہوارہ بن جاتی ہے اور جب اہرمن غالب آجاتا ہے تو دنیا فسق و فجور ، گناہ وعصیاں اور اس کے نتیجے میں آفات ارضی و سماوی کا شکار ہو جاتی ہے۔ پارسیوں کے اعتقاد کے مطابق بالآخر نیکی کے خدا یزداں کی فتح ہو گی اور دنیا سے برائیوں اور مصیبتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
زرتشت کی اہم تعلیمات اور عبادت گاہ:-
زرتشتی مذہب کے تین بنیادی اصول ہیں ۔ گفتار نیک ، پندار نیک ، کردار نیک ۔ اہور امزدا کے لیے آگ کو بطور علامت استعمال کیا جا تا ہے کیوں کہ یہ ایک پاک و طاہر شے ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک و طاہر کرتی ہے۔ پارسیوں کے معبدوں اور مکانوں میں ہر وقت آگ روشن رہتی ہے غالباً اسی لیے انہیں آتش پرست سمجھ لیا گیا۔ عرب انہیں مجوسی کہتے تھے۔
زرتشت میں خدا کا تصور:-
زرتشتی لوگ تو بنیادی طور پر آگ کی پوجا کرتے ہیں ، تاہم ان کی کتابوں میں ایک خدا کا تصور بھی موجود ہے۔ زرتشتیت میں خدا کے لیے " اہورمزدا" کا نام آیا ہے۔ "اہور" کا مطلب ہے "آقا" اور "مزدا" کے معنی " عقل مند" کے ہیں۔ یعنی اہور مزدا کا مطلب ہے عقل مند آقا یا عقل مند مالک اہور مزدا کے تصور میں بھی ایک خدا کے تصور کا بہت دخل ہے۔
زرتشتیت میں انسان کے اہم فرائض:-
انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ آگ ، پانی اور دھرتی میں آلودگی ( بدی) نہ پھیلائے، تاکہ وہ پاک رہیں کیونکہ انکا وجود خدا کا وجود ہے ، آگ ، پانی اور دھرتی میں نہ تو کوئ آلودگی پھیلائ جائے نہ ہی کوئ مردہ دفنایا جائے ، بلکہ مردوں کو موت کے مینارے پر رکھ دیا جائے جہاں آہور امزدہ کی طرف سے پیدا کیے گئے پرندے اور حشرات اس مردے کو قدرتی اسر متعین کئے گئے طریقے سے پاک کر دیں گے۔
زرتشت میں عقیدہ رسالت:-
پارسی انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور انکی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں، انکے پہلے نبی کا نام " رازوراسترس" ہے اور انکی کتاب کا نام " زند اوستا" ہے۔ " رازوراسترس" کی تخلیق کائنات بناتے وقت ہی کر دی گئ تھی، اب ہر صدی کے بعد یہی نبی دوبارہ آتا رہے گا اور نیکی کی طرف بلاتا رہے گا ، تیسرا اور آخری نبی " رازوراسترس" کا ہی بیٹا ہو گا جسکا نام " سوشیانت" جو دنیا میں آکر قیامت کی خبر دے گا اور پوری دنیا سے بدی کا خاتمہ کرے گا۔
بدی اور کفارے کا تصور:-
انسانی وجود دنیا کے اندر بدی کے وجود کی وجہ سے ہر وقت خطرات میں گھرا ہے، جو انسان بھی خدا کے احکامات کی پیروی نہیں کرتا وہ ناپاک ہوجانے کے خطرات سے دوچار ہے، اچھا نہ سو چنا، اچھا نہ بولنا، اچھے کردار کا حامل نہ ہونا، فحاشی کرنا، بچہ بازی، چوری ، اجسام فطرت کو آلودہ کرنا، دیگر عقاید پر عمل پیرا ہونا ، مردوں کا بہانا ، جلانا یا دفن کرنا مردہ اجسام کو چھونا ، پانچ وقت کی عبادت نہ کرنا ، خدا کے علاوہ کسی اور کے نام پر قربانی کرنا، عقیدے کے مطابق شادی نہ کرنا وغیرہ وہ اعمال ہیں جن سے انسان ناپاک اور گنہگار ہو جاتا ہے۔
قربانی کی افادیت اور پنجگانہ عبادت:-
پارسی قربانی بھی کرتے ہیں اور انکی قربانی " یسنا" کہلاتی ہے، قربانی کرنے سے خدا کی قربت حاصل ہوتی ہے اور اسکے بہت قریب جا کر کلام کرنا ممکن ہو جاتا ہے، نیز گندگی اور بدی کم سے کم ہوتی جاتی ہے اور پاکیزگی کا حصول ممکن ہوتا جاتا ہے، یہ قربانی کوئ مستند مزہبی نمائندہ ہی کر سکتا ہے جو صرف اور صرف آتشکدے میں ممکن ہے۔ یسنا میں کم و بیش دو گھنٹے لگاتار مزہبی مواد کو باآواز بلند پڑھا جاتا ہے، پہلے یسنا کے موقع پر جانور بھی قربان کئے جاتے تھے تاہم ابھی بھی کچھ معلومات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ یسنا کے بعد مقدس مشروب (دودھ)، مکھن اور ڈبل روٹی وغیرہ کا طعام کیا جاتا ہے۔ پارسیوں مین پانچ وقت کی عبادت رائج ہے اور پانچ وقت عبادت نہ کرنے والے کے لئے عزاب اور سزا مقرر ہے۔
مزہبی منتر اور گیت:-
مزہبی منتر اور گیت پاکیزگی پانے کا بہترین ذریعہ ہیں، جو آوشن زبان میں ہوتے ہیں یا پھر سنسکری زبان میں، یہ منتر  یا گیت خدا کو خوش کرنے اور اسکی قربت کے حصول کے لئے گائے جاتے ہیں جس سے انسان اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے۔ یہ تمام منتر یا گیت بھی اچھا سو چو ، اچھا بولو، اچھا کردار ادا کرو کے فلسفے پر مشتمل ہو تے ہیں۔
زرتشت میں عقیدہ آخرت:-
موت ، جسم سے ذات خدا اور روح کے خروج کا نام ہے، جسم سے جب پاکیزگی اور نور مکمل طور پر ختم ہوجائے تب کوئ بھی انسان مر جاتا ہے، مرنے کے بعد مردے کی روح تین دن تک اسکے جسم کے آس پاس گھومتی رہتی ہے اور پھر روحوں کے رکھوالے " دائنہ " کے ساتھ روحانی دنیا کے سفر پر نکل جاتی ہے، جہاں اچھے خیالات ، اچھے الفاظ اور اچھے کردار کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے اک پل پر لے جایا جاتا ہے جہاں اچھائ کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں عارضی طور جنت اور تعداد کم ہونے کی صورت میں عارضی طور پر سرد جہنم میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ( غالباً پل صرات جیسا کوئ عمل) ، یہ عارضی ٹھکانے ہیں اسکے بعد قیامت آئے گی ، روز محشر بپا ہو گا اور فائنل حساب کتاب کے بعد اچھائ کے حامل افراد کو ہمیشہ کے لئے جنت ملے گی، جو بہت خوبصورت روشن اور خوشی کا ٹھکانہ ہے، ناپاک افراد کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا جو بہت تاریک اور منجمد کر دینے سے بھی زیادہ سرد ہے، جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب اسکا مقدر ہو گا۔
زرتشت ازم میں میت سے سلوک:-
پارسی اپنے مردوں کو جلانے یا دفنانے کی بجائے ایک کھلی عمارت میں رکھ دیتے ہیں تاکہ اسے گدھ وغیرہ جھا جائیں۔ اس خاص عمارت کو دخمہ " مینار خاموشی" کہا جاتا ہے۔ ان کے ہاں عجیب روایت ہے کہ لاش کے ساتھ پروہت کتے کو لاتے ہیں، اس رسم کو " سگ وید" کہتے ہیں، دخمہ ایسے شہروں میں تعمیر کیا جاتا ہے جہاں پارسیوں کی معتدبہ تعداد آباد ہو، مثلاً  بمبئی، کراچی۔ جہاں دخمہ نہیں ہوتا وہاں ان کے قبرستان ہوتے ہیں جن میں مردوں کو بہ امر مجبوری دفن کیا جاتا ہے، لاہور کا پارسی قبرستان وغیرہ۔ 
زرتشت ازم مزہبی ادب:-
پارسیوں کی مقدس کتابوں میں : اوستا ، گاتھا اور دساتیر شامل ہیں۔
1-اوستا:
زرتشتیوں کی بنیادی مزہبی کتاب کا نام اوستا ہے جو ساسانی خاندان کے بادشاہ اردشیر کے عہد میں لکھی گئ تھی، ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے مزہبی رہنما کے پاس اوستا کا وہ قدیم نسخہ موجود ہے جو ان کے پیغمبر زرتشت یا زردشت پر نازل ہوا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں یہ ناپید ہے، اب اس کی دو شرحیں (ژند، پاژند) موجود ہیں جن پت زرتشیت کی بنیاد ہے۔ اوستا میں آہور کی تعریف و منا جات درج ہیں نیز پارسیوں کی لئے نظام زندگی کے اصول بھی موجود ہیں۔
2 گاتھا:
گاتھا در حقیقت خود اپنے آپ میں ایک آذاد مزہبی کتاب نہیں بلکہ یہ اوستا کا حصہ ہے جس کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ زرتشت کی اپنی تحریر ہے، گاتھا نثر کی بجائے نظم میں ہے۔ اس کے مشہور پانچ حصے ہیں ۔
3۔دساتیر:
دستیر کا مطلب ہے دس حصوں پر مشتمل ایک کتاب " دس" کے معنی ہے دس اور تیر کا مطلب ایک حصہ ۔ دساتیر ، دستور کی بھی جمع ہے، جس کا مطلب ہے، قانون یا مزہبی قاعدہ ۔ دساتیر کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خرد ( چھوٹا) دساتیر اور کلان ( برا) دساتیر۔ اس کتاب میں زرتشت مزہب کے بڑے بڑے اشخاص اور بزرگوں کے تزکرے اور سوانح حیات موجود ہیں۔  



Previous Post
Next Post

This is Muhammad Shoaib Irshad Advocate from Tehsil Bhalwal District Sargodha. I have an LL.B Hons from the University of Sargodha in 2022. My main focus is to spread knowledge and awareness by writing articles on different current affairs topics.

Related Posts