-->

‎جنت ‏میں ‏داخل ‏کرنے ‏والی ‏باتیں

جنت میں داخل کرنے والی باتیں


حدیث
"حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئ عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور مجھے آگ سے دور رکھے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے بڑے عمل کے بارے میں پوچھا ہے اور وہ یقیناً آسان ہے اس پر جس پر اللہ نے اسے آسان کر دیا (وہ یہ ہے) کہ تو عبادت کرے اللہ کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور روزے رکھے رمضان کے اور بیت اللہ کا ححج کرے پھر کہا کیا تجھے بھلائ کے دروازوں کے بارے میں مطلع نہ کروں روزہ ڈھال ہے اور صدقہ بجھا دیتا ہے (جہنم کی آگ کو) جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور آدمی کی نماز رات کے درمیان میں پھر آپ نے آیت تتجافی جنوبہم عن المضاجع سے یعملون تک تلاوت کی پھر فرمایا کیا میں تجھے دین کی اصل چیز اور اس کے ستون اور اس کی چوٹی کا عمل نہ بتا دوں۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ارشاد فرمائیں۔ فرمایا دین کی اصل چیز اسلام ہے اور دین کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی(انتہا) جہاد ہے پھر فرمایا کیا میں تجھے ایسا عمل نہ بتاؤں جس کے ذریعے ان سب امور پر قابو پایا جا سکے میں نے کہا ضرور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا اس کو اپنے حق میں مصیبت بننے سے روک رکھو۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہمارے بولنے پر (بھی) ہماری گرفت ہوگی؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! تیری ماں تجھے نہ پائے تو کیا لوگوں کو گرائے گی آگ میں چہروں کے بل یا فرمایا نتھنوں کے بل۔ ان کی زبان ہی کے تو نتیجے ہوں گے۔(روایت کیا اسے امام ترمزی)
تشریح مطالب
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا سوال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اس سوال کے جواب میں کہ مجھے ایسا عمل بتائیے جو دین میں داخل ہونے کا سبب بن جائے اور مجھے آگ سے دور کر دے۔ انھیں چند ایسے اعمال بتائے جو دین میں انتہائ اہم ہیں لیکن ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تنبیہہ کی کہ یہ اعمال انسانی طبیعت پر گراں ضرور ہیں لیکن جو کوئ اللہ کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے اعمال اس کے لیے آسان ہو جاتے ہیں اور اسے کسی قسم کی تکلیف کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
ارکان اسلام
سب سے پہلی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائ کہ ارکان خمسہ کی پابندی کی جائ اور ان میں کسی قسم کی کوتاہی روا نہ رکھی جائے۔ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور ہر قسم کے شرک سے دامن بچاؤ۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دیا کرو، ححج بیت اللہ کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔
نوافل عبادات
فرضوں کا ذکر کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوافل کا ذکر فرمایا اور انھیں ابوالخیر یعنی بھلائ کے دروازوے فرمایا، گویا انھی دروازوں سے گزر کر ہی انسان نیکی کی عمارت میں داخل ہو سکتا ہے۔ دروازے کو گناہ کے تیروں سے بچانے کا ذریعہ یعنی ڈھال فرمایا کیونکہ روزہ شہوت کے غلبے کو ختم کر دیتا ہے اور تقوی اور طہارت کو پیدا کرتا ہے۔ اس طرح صدقہ گناہوں کو مٹانے کا ذریعہ ہے۔ چھوٹے گناہ صدقہ اور خیرات کرنے سے معاف ہو جاتے ہیں۔ رات کے پچھلے پہر نماز جسے تہجد کہا جاتا ہے نیکیوں کے حصول کا بہترین وسیلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تینوں عبادات بہت ہی مشکل ہیں جب کوئ انسان ان کا عادی ہو جاتا ہے تو باقی عبادات اس کے لیے آسان ہو جاتی ہیں۔
جہاد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو دین کی سب سے بلند چوٹی قرار دیا۔ سنام اونٹ کی کوہان کو کہتے ہیں اور پہاڑ کی چوٹی کو بھی۔ ذرہ وہ کے معنی ہیں یعنی بلند ترین جگہ جہاد تمام اسلامی عبادات میں مشکل ترین عبادت ہے۔ اس لیے گویا جہاد کرنے والا دین کی بلندی کو پا لیتا ہے۔ جہاد جہد سے ماخز ہے جس کا معنی ہے کوشش، جدوجہد لیکن اسلامی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جنگ کرنے جو جہاد کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کی بڑی فضیلت وارد ہوئ ہے۔ قرآن مجید میں ہے اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے ان کی جانیں اور مال اس بات کے عوض خرید لیے ہیں کہ انھیں جنت ملے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ " اللہ کی راہ میں ایک دن محاذ جنگ کرنا دنیا مافیہا سے افضل ہے۔" 
"اللہ کی راہ میں جس نے زخم اٹھایا قیامت کے دن وہ اس زخم کے ساتھ اس طرح آئے گا کہ اس زخم سے مشک کی خوشبو مہکتی ہو گی۔" ایک اور حدیث میں ہے۔ " جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے کھلتے ہیں۔" (ریاض الصالحین، باب الجہاد)
غرض کہ اسی قسم کی سینکڑوں احادیث ہیں۔ جن میں جہاد کی فضیلت کا تزکرہ ہے۔
حفاظت زبان
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے آخر میں فرمایا " کیا آپ کو اس چیز کے متعلق نہ بتاؤں جس پر ان سب کا دارومدار ہے۔ " پھر فرمایا کہ " زبان کو قابو میں رکھو۔ " حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے سوال پر کہ آیا زبان سے کی جانے والی باتوں پر بھی ہمارا مواخزہ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ قیامت کے دن لوگوں کو جہنم میں ان کی زبان کے نتائج ہی تو منہ کے بل گرائیں گے۔ جو آدمی زبان کو قابو میں نہیں رکھتا اور اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے وہ اپنے لیے آگ میں گرائے جانے کا سامان مہیا کرتا ہے۔ زبان سے غیبت، بہتان تراشی، جھوٹی گواہی، گالی گلوچ، کلمات کفریہ وغیرہ سرزد ہوتے ہیں اور یہ ہی چیزیں انسان کے لیے نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی عزاب کا موجب بن جاتی ہیں۔
Writer:ShoaibKamboh
Previous Post
Next Post

This is Muhammad Shoaib Irshad Advocate from Tehsil Bhalwal District Sargodha. I have an LL.B Hons from the University of Sargodha in 2022. My main focus is to spread knowledge and awareness by writing articles on different current affairs topics.

Related Posts