امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ
نام و نسب
آپ کا نام احمد بن محمد بن حنبل، کنیت ابو عبداللہ اور لقب امام اہل السنہ ہے۔ ربیع الاول 164 ہجری میں ولادت ہوئ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ولادین خص عربی تھے۔ ان کا نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک چلا جاتا ہے۔ بچپن ہی سے باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور والدہ نے پرورش کی۔
تحصیل علم
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے بغداد میں نشو نما پائ۔ اس وقت بغداد مرکز خلافت اور علوم و معارف کا گڑھ تھا۔ بہت جلد انھوں نے قرآن مجید حفظ کر لیا۔ جب چودہ سال کے ہوئے تو فن کتابت اور حفظ حدیث میں مشغول ہوگئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے صرف روایت حدیث پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تفقہ فی الدین کی طرف توجہ دی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے بغداد کے تمام شیوخ حدیث سے اکتساب علم کیا۔ بعد ازاں بصرہ اور حجاز کا سفر کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے امام شافعی کی شاگردی حجاز میں اختیار کی۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا امام احمد کا حدیثی اور فقہی ذہن بنانے میں خصوصی دخل تھا۔
تعلیم و تدریس
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے چالیس سال سے قبل تدریس حدیث اور افتاء سے اجتناب کیا۔ 204 ہجری میں تعلیم و تدریس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ مسند درس پر بیٹھنے سے قبل آپ رحمتہ اللہ علیہ کے علم و عمل، تقوی و طہارت کی شہرت عالم اسلام میں ہو بکی تھی۔ لہزا طلب علم اور استفتاء کے لیے کثیر لوگ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آنے لگے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے حلقہ درس میں بیک وقت پانچ پانچ ہزار طلبہ کا ہجوم ہوتا تھا جو طلبہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے صرف حدیث لکھتے ان کی تعداد پانچ فیصد تھی۔
کارنامے
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم کارناموں میں سے دو امتیازی شان رکھتے ہیں
اول یہ کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے قرآن و سنت کی خالص اتباع کا مسلک بڑی شدت سے پیش کیا۔ دوسرے یہ کہ آپ نے ثق گوئ کے لیے جابر سلاطین کی مطلق پرواہ نہیں کی۔ عباسی دور میں معتزلہ نے "خلق قرآن" کا فتنہ اٹھایا اور اہل سنت کی جانب سے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سینہ سپر ہوئے اور عباسی خلفاء کے خلاف صبر واستقامت سے حق کی جنگ لڑی۔ خلیفہ معتصم، مامون اور الواثق کے سامنے ڈٹے رہے۔ جیل، کوڑے، فاقہ کشی اور قید تنہائ ہر قسم کا تشدد برداشت کیا اور صبروثبات کا پہاڑ بنے رہے۔ خلق قرآن کے مسئلہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے قرآن و سنت سے تمسک کا معیار پیش کیا جو دین حق کی بنیاد ہے۔
اساتذہ
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے تقریباً ایک سو اساتذہ سے استفادہ کیا جن میں نمایاں ترین امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ہیثم ہیں۔
وفات
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے 240 ہجری میں بغداد میں وفات پائ۔ پانچ لاکھ لوگوں نے جنازہ میں شرکت کی۔ اس کثرت تعداد سے متاثر ہو کر 20 ہزار غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔
خدمات
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ زندگی بھر سنت اور صحابہ کے متبع رہے۔ ان کا علم و عمل، سیرت و کردار، اخلاق و اطوار صحابہ کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ "مسند امام احمد" آپ کی ممتاز تصنیفی خدمت ہے۔ یہ احادیث کا مجموعہ ہے جس کی جمع و ترتیب میں انھوں نے بڑی محنت کی۔ امام شمس الدین الجزری لکھتے ہیں کہ "امام احمد نے مسند کی جمع و تدوین کاکام 180 ہجری میں شروع کیا، اسے الگ الگ اوراق میں لکھا پھر اسے جدا جدا اجزاء میں تقسیم کیا پھر قبل اس کے یہ آرزو پوری ہو، پیام اجل آ پہنچا۔ مسند امام احمد میں کل تیس ہزار احادیث تھیں۔ امام احمد کے بیٹے عبداللہ نے اس میں دس ہزار کا اضافہ کیا، اس طرح اس میں کل 40 ہزار احادیث ہیں"۔
حنبلی فقہ
ابتداء کی ایک صدی تک حنبلی مذہب عراق تک محدود رہا۔ پھر یہ مصر و شام تک پہنچا لیکن فقہی مسلک کے لحاظ سے اس کی اشاعت بہت کم رہی۔ موجودہ دور میں اس کا طوطی نجدوحجاز میں بولتا ہے۔ موجودہ سعودی حکومت کا یہ سرکاری فقہی مسلک ہے۔
اجتہاد اور فتوی کا طریقہ کار
قرآن و سنت کے نصوص کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ اور اقوال ماخز شریعت ہیں البتہ اگر ان میں اختلاف پایا جائے تو یہ دیکھا جائے گا کہ کونسا قرآن وسنت کے نصوص سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اپنی رائے پر عمل کرنے کی بجائے ضعیف حدیث پر عمل کر لینا زیادہ بہتر ہے۔ ان کے نزدیک کوئ شخص قیاس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ البتہ ان پر اجتہاد و قیاس کی بجائے حدیث کا غلبہ ہے۔
فقہی خصوصیات
اثری فقہ
حنبلی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہ کا رنگ غالب ہے۔ اس لئے ان کی فقہ "اثری فقہ" کہلائ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ستر ہزار مسائل کا جواب"اخبرناوحدثنا" کے الفاظ سے دیا ہے۔
درایت سے زیادہ روایت پر انحصار
اس فقہ میں اجتہاد و قیاس کی نوبت شاذ و نادر ہی آتی ہے۔ درایت سے ذیادہ اس کا مدارروایت پر ہے۔
خواص کی فقہ
حنبلی مسلک اگرچہ عوام میں مقبول نہیں ہوسکا لیکن امام احمد بن حنبل کے شاگردوں میں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ، ابو داؤد جیسے اکابر محدث و فقیہ شامل ہیں جو ان کے فقہی مسلک کے شارح اور ترجمان بنے۔
شرعی حیلوں سے احتراز
اس فقہ میں شرعی احکام کے بارے میں شرعی حیلوں کی سرے سے کوئ گنجائش نہیں۔ اگرچہ رسم و رواج میں احمد بن حنبل تحمل اور کشادہ دلی کے قائل ہیں لیکن مزہبی فرائض میں سخت پابندی کی تلقین فرماتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی آراء کا احترام
حنبلی فقہ میں صحابہ رحمتہ اللہ علیہ کے فتاویٰ اور اجماع کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف رائے کی صورت میں ان کے مدارج کی فضیلت کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ امیر معاویہ رحمتہ اللہ علیہ کے حکومتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں لیکن ذاتی آراء کو مسترد کرتے ہیں۔