-->

Buddhism Religion History, Origin in Urdu Written ( بدھ مت مذہب)

بدھ مت

ابتدائیہ:-
آج سے تقریباً اڑھائ ہزار سال پہلے بدھ مزہب کی بنیاد جنوب مشرق ایشیاء میں شمالی بہار اور سرحد نیپال کی ایک ریاست "کپل وستو" کے شہزادے "ساکھیا منی" نے رکھی جنہوں نے تخت و تاج کو ٹھکراتے ہوئے انسانی مصائب اور ان کو حل کرنے کی کوشش کی۔ اس مذہب کی بنیاد "حصول نروان" ہے جسے سکون و طمانیت کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ بدھ مت کے بانی مہاتما بدھ کا اصل نام "سدھارتا" ہے "گوتم" ان کا لقب ہے اور "مہاتما" تعظیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ چھٹی صدی قبل مسیح میں شمالی ہندوستان کے ایک زمیندار کے گھر پیدا ہوئے 30 سال کی عمر میں گھر بار چھوڑ کر سنیاسی ہو گئے اور 80 سال کی عمر میں بمقام پھیر۔ (ضلع گور کھپور یوپی) میں وفات پائ۔ اور جہاں ان کو دفنایا گیا ہےاس کو اسٹوپا کہتے ہیں، آپ پچاس (50) سال بدھ مذہب کو پھیلاتے رہے۔ ہندوستان ،لنکا، برما، ہند چینی، چین، جاپان، تبت، اور بنگلہ دیش ملکوں میں بدھ مذہب کے پیروکار موجود ہیں۔
گوتم بدھ خود ایک ہندو گھرانے کے تربیت یافتہ تھے۔ سب سے پہلے مصلح دین کے طور پر ابھرے اور پھر ایک عظیم مصلح دین بن گئے گوتم بدھ نے خود کو کبھی پرستش کے لئے پیش نہیں کیا مگر مرنے کے بعد وہ خود ایک مقدس معبود کی شکل اختیار کر گئے۔ بلکہ بدھ عبادت کا جزولا ینفک بن گئے۔ بدھ مزہب کی مزہبی کتاب "تری پتاکا" کہلاتی ہے جن کے جاپانی، چینی، انگریزی و دیگر زبانوں میں بھی تراجم موجود ہیں۔ بدھ مذہب اپنی تعلیمات کے اعتبار سے ایک ضابطہ اخلاق کہا جا سکتا ہے۔ اس مذہب کی تعلیمات انتہائ سادہ تھیں ۔ یہ اخلاقی تعلیمات پر مبنی ایک ایسا نظام حیات ہے جس کا مقصد انسان کو ہندو مذہب کے "نظریہ تناسخ" سے نجات دلانا تھا۔
مہاراج اشوک اور راجہ چندر نے اس مذہب کی تبلیغ و اشاعت میں زیادہ حصہ لیا اور اسے بین الاقوامی سطح پر بھی متعارف کروایا۔ آج اس کے پیروکار دنیا کے اکثر ممالک میں پائے جاتے ہیں۔
اس مذہب کی تعلیمات ایک انگریز مصنف ہالراکڑنے نے اپنی تصنیف (Indian Customs) میں یوں بیان کی ہیں "اس مذہب میں ذات کو کوئ دخل نہیں ہے ہر ایک آدمی کا درجہ اس کے عمل پر ہے" مردوں ، عورتوں، جوان اور بچے سب کو رحم دلی اختیار کرنے اور تکلیفیں سہنے کی عادت ڈالنی چاہئے، "ساکیہ منی" (گوتم بدھ) کے نزدیک نجات ایک خاص حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان کو خوشی و رنج ، دوستی و دشمنی بلکہ تمام مصائب اور خواہشوں سے چھوٹ مل جاتی ہے۔ ان میں سے ایک فرقہ کا قول ہے کہ خدا کچھ چیز نہیں سب سے بڑا " بدھ" ہوتا ہے اب تک کئ بدھ ہو چکے ہیں گوتم بدھ پچیسواں بدھ ہے۔ اس مزہب کے بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ خدا موجود ہے لیکن اس نے دنیا کو پیدا نہیں کیا اور نہ ہی اس کو دنیا کے کاموں اور انسانوں کے نیک وبد سے کوئ واسطہ ہے اور بعض کہتے ہیں کہ پھر بھی تمام چیزیں خدا کی مرضی سے پیدا ہوتی ہیں۔
یہاں بدھ مت کے اکثر پیروکار ہندوؤں کے دیوتاؤں کو بھی مانتے ہیں لیکن ان کا درجہ بدھ سے کم مانتے ہیں بدھ مت کے تصور معبود پر ہندو مزہب کی چھاپ پائ جاتی ہے۔ اس مذہب میں خواہشات کو سب مصیبتوں کی جڑ گردانا گیا ہے۔ خواہشات پر قابو پانے کے لیے آٹھ اصول بیان کیے ہیں:
1۔ علم و عقیدہ
2۔ صحیح ارادہ
3۔ صحیح کلام
4۔ صحیح عمل
5۔ صحیح سلوک
6۔ صحیح کوشش
7۔ صحیح یاداشت
8۔ صحیح غور وفکر ہیں۔
بدھ کا مفہوم
سنسکرت میں " بدھ" کے معنی عارف اور نور کے ہیں، یعنی ایسا آدمی جسے معرفت الٰہی حاصل ہوگئ ہو اور دنیا کی تاریکی سے باہر نکل آیا ہو نیز انسانیت کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف بلا رہا ہو۔

گوتم بدھ کا تعارف
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے 567 برس پہلے موجودہ نیپال میں ہمالیہ کے دامن میں بنارس کے ایک گاؤں "کپل وستو" کے مہاراج شدھو دھن شاکیو نے کولی مہاراج کی لڑکی سے شادی کی۔ نام مہامایا تھا جو حاملہ ہوئ تو وہاں اصول کے مطابق زچگی سے پیشتر اسے سسرال رخصت کیا گیا جبکہ وہ دوران سفر شدید بیمار ہونے کی وجہ سے وہیں راستے میں ٹھہر گئ، اور بڑکے درخت کے نیچے اس نے بچے کو جنم دیا جس کا نام سدھارتھ ( جو بعد میں گوتم بدھ کے نام سے مشہور ہوا) رکھا گیا۔ گوتم بدھ کا تعلق کھشتری خاندان سے تھا۔
نیز مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ گوتم کا اصل نام کیا تھا۔ بعض لوگوں نے سدھارتھ پہلا نام اور گوتم قبائلی نام بتسایا ہے۔ مگر جدید تحقیق کے مطابق ان کا اصل نام گوتم تھا اور سدارتھ ، ساکیہ منی، ساکھیہ سہنا ، جن بھاگو ، لوک ناتھ اور دھن راج وغیرہ ان کے القاب تھے ، جو ان کے متعقدین نے انہیں دیے تھے۔ گوتم کے بچپن کے حالات مستند کتابوں میں نہیں ملتے ہیں اور جو ملتے ہیں وہ عقیدت مندوں کی عقیدت سے اس طرح متاثر ہوئے ہیں کہ تاریخی معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ بہرحال اتنا پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے رواج کے مطابق علوم و فنون اور سپہ گری میں مہارت پیدا کی اور ان کی شادی سولہ سال کی عمر میں چچا زاد بہن یشو دھرا سے کر دی گئ۔
گوتم بدھ ایک دن گھر سے باہر نکلا تو اس نے راستے میں تین منظر دیکھے جس کے نتیجہ میں اس کی زندگی میں گیان کی طرف رغبت شروع ہوئ۔ کہ ایک دن بوڑھا دیکھا جو ضعیف العمر تھا، اور دوسرا بوڑھا دیکھا وہ ضعیف العمر ہونے کے ساتھ بیمار بھی تھا اور تیسرے منظر میں لوگوں کو ایک میت کو کاندھوں پر اٹھا کر لیجاتے دیکھا اور اس کے بعد اس نے ایک بزرگ کو دیکھا جو خوشگوار و خوش سیرت و صورت نظر آیا جس کی زندگی میں اطمینان اور کفایت شعاری و قناعت پسندی کا رنگ نمایاں تھا۔
شادی کے دس برس بعد ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا اور پھر اس کے تین سال بعد اور اس منظر نامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے شاہوں کی زندگی ترک کرنے کے ارادے سے گھر سے نکل گیا اور اپنے چند شاگردوں کے ہمراہ جنگل و صحراؤں میں مراقبے، مجاہدے اور ترک طعام و شراب کے ذریعہ راحت و سکون اور اطمینان حاصل کرنے میں مصروف رہا۔ بعض روایات کے مطابق گوتم کی تمام عمر جب تیس سال کی ہوئ تو ان میں ذہنی تبدیلی ہوئ اور کچھ طبعی رجحان اور کچھ زندگی کے تلخ واقعات نے گوتم کو مجبور کیا کہ وہ ابدی سکون و مسرت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے حصول کا طریقہ معلوم کرنے کی کوشش کریں۔اس ذہنی خلفشار کے زمانے میں ان کا ایک بیٹا پیدا ہو گیا تو وہ بول پڑے مجھے یہ نیا رشتہ توڑنا پڑے گا۔ اخر بعض روایات کے مطابق گوتم اسی شب گھر کو چھوڑ کر جنگل نکل گئے۔ جہاں انہوں نے چھ سال تک مختلف ریاضتوں میں گزارے۔ جس میں گھاس بھونس پر گزارہ، بالوں کے کپڑے کا پہنا، گھنٹوں کھڑے تہنا، کانٹوں میں لیٹ جانا، جسم پپر خاک ملنا، سر اور داڑھی کے بال نوچنا۔ اس طرح کے سخت مجاہدات میں مشغول رہے۔ آخر ان پر یہ حقیقت عیاں ہوئ کہ جسم کی آزادی اور اس طرح کے مجاہدات سے تسکین ناممکن ہے اور یہ طریقہ مسائل حل کرنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ انہوں نے باقاعدہ کھانا پینا شروع کر دیا اور اپنے چیلوں سے کہا کہ ریاضت کے یہ تمام طریقہ غلط ہیں ۔ چنانچہ وہ انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔
چیلوں کے چلے جانے کے بعد گوتم سخت ہیجان میں مبتلا ہو گئے۔ آخر وہ بدھ گیا میں جو اس وقت غیر آباد علاقہ تھا، وہاں ایک بڑ کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ اس واقع کے بعد انہوں نے تہیہ کرلیا، کہ جب تک ان پر حقائق ظاہر نہ ہوئیں گے وہ اسی طرح مرقب رہیں گے۔ دفعتاً غروب آفتاب کے وقت ان کے ذہن میں ایک چمک پیدا ہوئ اور ان پر یہ حقائق منکشف ہوئے کہ "صفائے باطن اور محبت خلق" میں ہی فلاح ابدی کا راز مضمر ہے اور تکلیف سے رہائ کے یہ ہی دو طریقے ہیں۔ انہوں نے حیات کے چشمہ موت اور زندگی ک ایک لامتناہی سلسلہ دیکھا۔ ہر حیات کو موت سے اور موت کو حیات وابستہ پایا۔ ہر سکون اور ہر خوشی کو نئ خواہش نئ مایوسی اور نئے غم کے دوش بدوش پایا۔ زندگی کو موت سے ملاقات ہوتے پھر اپنے کرم کے مطابق جنم لیتے دیکھا۔ اس نوری کیفیت اور انکشاف کے بعد وہ بدھ یعنی روشن ضمیر ہو گئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ وہ غلطی اور جہالت کے دھند لکوں سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ان کی زندگی خواہشوں اور الائشوں سے آزاد ہو چکی ہے اور انہیں تناسخ کے چکر سے نجات مل چکی ہے۔ بدھ مت میں گوتم بدھ کے بڑ کے درخت کے نیچے پیدا ہونے اور نروان حاصل ہونے کی وجہ سے اس درخت کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔
انسانی مصاحبوں کے علاج جان لینے کے بعد وہ بنارس آئے اور وہاں ایک مقام مگادیہ میں قیام کیا۔ ان کے چیلے جو انہیں چھوڑ گئے یہاں آن ملے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے چیلوں کو اپنی تعلیمات سے روشناس کرایا اور زندگی و موت کے حقائق انہیں سمجھائے۔ آخر وہ ان کے دین میں داخل ہو گئے، پھر انہوں نے اپنی دعوت کو عام کیا اور تین ماہ یہاں قیام کیا۔ ان کی بزرگی و علم کا شہر دور دور تک پھیل گیا اور بہت سے لوگ ان کی کرامتوں کو دیکھ کر ان کے مزہب میں داخل ہو گئے۔ یہاں سے گوتم راج گڑھ گئے۔ اس وقت مگدھ کا راجا بمبارا تھا۔ اس نے گوتم کا خیر مقدم کیا اور ایک باغ ان کے قیام کے لیے وقف کر دیا۔ یہاں گوتم نے کئ سال گزارے۔ وہ ہر سال گرمی اور جاڑے میں تبلیغ کے لیے نکلتے تھے اور برسات میں واپس آجاتے تھے۔ بعض روایات کے سے معلوم ہوتا ہے کہ راجا بہار ادراجات سترہ نے گوتم سے ملاقاتیں کیں اور انہوں نے بدھ مذہب قبول کر لیا تھا۔
الغرض چند سال کے اندر گوتم کا مزہب تیزی سے پھیل گیا۔ پھر کپل وستو میں باپ کے بلانے پر آئے اور گھر والوں سے ملاقاتیں کیں، مگر راج گڑھ واپس آگئے اور تقریباً چوالیس سال تک گوتم اپنے مزہب کی تبلیغ کرتے رہے اور اس سلسلے میں ہندوستان کے مختلف مقامات پر گئے۔ پہلے کاشی یعنی بنارس پہنچا۔ یہاں مرد اور عورت سب کو دھرم سنایا۔ تین مہینے کے قیام میں 60 چیلے جمع کیے اور ان کو روانہ کیا کہ جاؤ ہر طرف دھرم کا چرچا کرو۔ پھر راج گڑھ گیا۔ یہاں راجا پر جاسب اس کے دھرم کے پیرو بنے۔ پھر کیل وستو میں گیا جہاں اس کا بوڑھا باپ راج کرتا تھا، وطن سے رخصت ہونے کے وقت وہ شہزادہ تھا، اب جو واپس آیا تو زرد لباس، ہاتھ میں کاسئہ گدائ، سر منڈا جوگی تھا، باپ، بیوی، بیٹے اور ساکیہ قوم کے سب مرد عورتوں نے اس کا وعظ سنا اور چیلے ہوگئے۔ ان کی حیات میں ان کا مزہب تیزی سے مقبول ہو گیا اور دور دور تک ان کے مبلغین ہندوستان کے ہر حصہ میں پہنچ گئے اور لوگوں کو اس نئے مذہب سے روشناس کرایا۔ عام روایات کے مطابق گوتم نے 80 سال کی عمر میں وفات پائی۔ہندو رسم کے مطابق ان کی لاش نذر آتش کر دی گئ۔

گوتم بدھ کی اہم تعلیمات:-
بدھ مذہب کی کتابیں دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک بانی مذہب کی طرح نہیں بلکہ ایک مصلح یا فلسفی کی حیثیت سے اپنی تعلیمات کا سارا زور اخلاق و اعمال پر پیش کیا گیا ہے اور ان بنیادی عقائد کو نظر انداز کر دیا ہے، جن پر ایک مذہب کی تعمیر ہوتی ہے۔ گوتم نے نہ تو خدا کے وجود پر کوئ صاف بات کہی ہے اور نہ کائنات کی تخلیق کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور نہ ہی روح کی وضاحت کی ہے، بلکہ اسے مادہ کا جز کہہ کر خاموشی اختیار کی ہے۔ جنت و جہنم، حشر و نشر اور آخرت و قیامت جیسے مسائل کو انہوں نے پس پشت ڈال دیا ہے اور آواگون کے ہندو عقیدے کو اہمیت دے کر راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ عالم کی چیزیں اسباب کے تحت وجود میں آتی ہیں اور ہر لمحہ غیر محسوس طریقہ سے بدلتی رہتی ہیں اور انہی اسباب کے تحت فنا ہوتی ہیں۔ گویا پوری کائنات میکانکی طور پر وجود میں آئ ہے اور اسی طور پر چل رہی ہے۔ اس میں کوئ شعور اور ارادہ کارفرما نہیں ہے۔ گوتم نے ان تمام مسائل کی وضاحت اور تشریح کے بغیر اخلاقی احکام کی تلقین کی ہے، جس کے ذریعے نروان حاصل کیا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں گوتم نے والدین، اولاد، استاد و شاگرد، خادم و آقا اور شوہر و بیوی کے فرائض، حقوق اور ذمہ داریاں بتائیں ہیں۔ انہوں نے والدین کو حکم دیا ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دیں اور انہیں برائ سے بچائیں، نیز ان کے لیے ترکے کی شکل میں معاش مہیا کریں۔ اولاد کو حکم دیا کہ وہ والدین کی اطاعت اور احترام کریں۔ اس طرح دوسرے لوگوں کو شفقت، محبت، ہمدردی، احترام، وفاداری، ہنر مندی، مساوات، حسن سلوک، ادب اور تعظیم کی ہدایت کی ہے۔ گویا ایک فلسفی کی موجودات کے اجزاء ترکیبی سے بحث کی ہے۔ پھر انسان کی خصوصیات اور صفات و روپ پر ایک تفصیلی بحث کی ہے، جس سے ایک مذہب کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی ہے۔ گوتم مذہب کے تمام فطری مسائل کو حل کرنے سے قاصر رہے۔ یہی وجہ ہے بدھ مذہب ان لوگوں کے درمیان میں تو پھیل سکا، جو بت پرست اور اوبام پرست تھے۔ مگر اہل مذہب کے مقابلے میں قطعی ناکام رہا۔
بدھ مت کے مشہور فرقے:-
بدھ مت مذہب میں اختلافات گوتم کی زندگی میں ہی پیدا ہو گئے تھے۔ ایک بھنگی کو سنگھ میں داخل کرنے پر اعلیٰ ذات کے ممبروں نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ ذات کے علاوہ اور بہت سے مسائل نزاع کا باعث بن گئے تھے۔ مگر پھر بھی گوتم کی زندگی میں انہیں ابھرنے کا موقع نہیں ملا اور گوتم کی موت کے بعد انہوں نے شدت اختیار کر لی اور بہت جلد بدھ کے تابع اٹھارہ گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ اشوک اور کنشک کی سر پرستی میں جو مجالس منعقد ہوئیں، ان میں اختلافات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئ مگر دور نہ ہو سکے اور بالا آخر بدھ مذہب دو فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ جو ہنیان اور مہایان کے نام سے موسوم ہیں۔ اول الزکر چھوٹا پہیہ (Lesser Wehicle) اور ثانی الذکر بڑا پہیہ (Great Wehicle) بھی کہتے ہیں۔ ان دونوں فرقوں میں سے ہر ایک متعدد ذیلی فرقوں میں تقسیم ہے۔ ہنیان فرقہ جزویات کو چھوڑ کر کلیات میں قدیم مذہب پر کار بند ہے۔ یہ گوتم کی تعلیمات کے مطابق روح اور خدائ کا قائل نہیں ہے، نیز گوتم کو ہادی مانتا ہے، مہایان اس کے بر عکس گوتم کا مافوق الانسان سمجھتا ہے اور اس کی مورت کو بحیثیت دیوتا پوجا کرتا ہے، یہ گوتم کے علاوہ دوسرے دیوتاؤں کا قائل ہے اور ان کی پرستش بھی کرتا ہے۔ اس فرقے کی اشاعت کنشک کے دور میں زور و شور سے ہوئ، اس لیے منگولیا، چین، جاپان اور تبت میں اسی کا غلبہ حاصل ہوا۔ مگر لنکا، برما، سیام، اور مشرقی جزائر میں ہنیان نے پامردی سے مقابلہ کیا، لیکن بالآخر اسے وہاں مغلوب کر لیا گیا۔

بدھ ازم کا مزہبی ادب:-
گوتم کے زمانے میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا۔ اس لیے ایک عرصہ تک ان کی تعلیمات زبانی منتقل ہوتی رہیں۔ تقریباً تین سو سال کے بعد 252 ق م میں اشوک کے عہد میں پہلی مرتبہ انہیں ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کی گئ۔ یہ کتابیں تری پتا کا یعنی تین ٹوکریوں (وینہ پتاکا، ستا پتاکا، ابھی دھماں) کے نام سے منسوب ہوئیں۔ مگر حقیقت میں یہ تین سے زائد ہیں، یعنی ہر کتاب کئ اجزاء پر مشتمل ہے۔ یہ اشوک کے عہد میں بہار کی زبان پالی میں قلمبند کی گئیں تھیں۔ مگر اصل جلدیں بہت جلد ناپید ہو گئیں۔ ان کی نقل مہند لنکالے گیا تھا۔ وہاں ان کا ترجمہ سنگھالی زبان میں ہوا۔ وہ نقل بھی اصل کی طرح معدوم ہو گئیں۔ مگر سنگھالی زبان کا ترجمہ رہ گیا۔
بدھ ازم کی چار عظیم سچائیاں:-
1- زندگی دکھ ہی دکھ ہے۔
2- دکھ کا سبب خواہشاتِ نفسانی ہیں۔
3- خواہشاتِ نفسانی کو قابو کر لیا جائے تو دکھ کم ہو جاتا ہے۔
4- خواہشاتِ نفسانی کا خاتمہ کرنے کے لیے مقدس ہشت اصولی مسلک پر چلنا چاہیے۔
اس مسلک میں راسخ عقیدہ، راست عزم (ترک خواہشاتِ نفسانی اور اہنسا وغیرہ) راست گفتاری، راست روی، کسب حلال، کوشش صالح، نیک نیتی یا راست بازی اور حقیقی (Right Ecstasy) شامل ہیں۔
بدھ مت کے آٹھ اصول/ ہشت پہلو تعلیمات:-
1:- صحیح علم و عقیدہ
2:- صحیح ارادہ
3:-صحیح کلام
4:- صحیح عمل
5:- صحیح سلوک
6:- صحیح کوشش
7:- صحیح یاداشت
8:- صحیح غور وفکر ہیں۔

سنگ کسے کہتے ہیں؟
بدھ ازم کے بخشو گوتم بدھ کی تعلیمات کو ایک خاص موسم میں 9 ماہ بعد مندروں سے باہر نکل کر اپنے مت کی 3 مہینے تلقین کرتے اور باقی ماہ مندر میں بیٹھ کر چلاتے اور نفس کشی کرتے ہیں، گوتم بدھ نے اپنی ایک جماعت بنائ جس کا نام سنگ رکھا تھا۔
سنگ کے بنیادی اصول:-
کوئ شخص سنگ میں شامل نہیں ہو سکتا تھا، جب تک بدھ کے 4 بنیادی اصولوں پر کار بند نہ ہو جائے۔
1-زرد پوشی
2:-سر منڈانا
3-ہاتھ میں کشکول پکڑے رکھنا
4-ہر روز کچھ وقت گھیان دھیان پر صرف کرنا۔
بدھ ازم کے اہم مراکز اور اشاعت کی وجوہات:-
بدھ مت کی ترقی و مقبولیت کا راز اس کے بانی کی بے داغ زندگی میں تھا۔ اس کے علاوہ بدھ مت کے اصول نہایت سادہ تھے۔ مذہبی و راہبانہ جماعت سنگھ نے اس کی اشاعت میں نہایت اہم کردار ادا کیا ۔ ابتدا میں راجاؤں اور سرداروں نے بھی اس کی سر پرستی کی۔ عام رواداری اور محبت کا پیغام عوام کے لیے جو برہمنی نظام کی قیود میں بندھے ہوئے تھے۔ بدھ مذہب کو ابتداء میں نیچی ذات کے لوگوں اور درویشوں نے اختیار کیا تھا۔ پھر سرحدی ریاستوں کے راجاؤں نے اختیار کیا۔ جب اشوک نے بھی بدھ مت کا پیروہو کر اسے اپنی سلطنت کے سرکاری مذہب کا درجہ دیا، تو اس کی شہرت دور دور تک پھیل گیا۔ یہ مذہب وادی سندھ سے افغانستان اور وسط ایشیاء میں داخل ہوا اور چین کے راستے کوریا تک پہنچ گیا۔ اس طرح لنکا، برما، تبت، سیام، نیپال اور ملایا کے لوگوں نے اسے خوشی خوشی قبول کر لیا۔
Previous Post
Next Post

This is Muhammad Shoaib Irshad Advocate from Tehsil Bhalwal District Sargodha. I have an LL.B Hons from the University of Sargodha in 2022. My main focus is to spread knowledge and awareness by writing articles on different current affairs topics.

Related Posts