-->

Sikhism Religion History, Origin,Tehreek-e-Khalistan All In Urdu ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎(‎سکھ ‏ازم)

سکھ ازم 

سکھ کی تعریف:- "سکھ"  پنجابی زبان کا لفظ ہے اور سنسکرت سے بنا ہے اور اس کا مطلب ہے سیکھنے والا ۔۔ بعض کے بقول "سکھ" کے معنی شاگرد یا مرید کے ہیں۔اصطلاح میں ہر وہ شخص سکھ کہلاتا ہے جو اپنے آپ کو سکھ کہے اور دس گروؤں کا شاگرد مانے اور ان کی تعلیمات اور ملفوظات پر ایمان رکھے اور اس پر عمل کرے۔
سکھ مت کا پس منظر:-سکھ ازم ایک غیر سامی اور آریائ مزہب ہے۔ اگرچہ یہ دنیا کے بڑے مزاہب میں تو شامل نہیں ہوتا مگر یہ مزہب ہندومت سے نکلنے والی شاخ ہے۔ سکھ مت دنیا کے جدید ترین مزاہب میں سے ایک ہے۔ سکھ مت ہندوستان میں ہمیشہ اقلیت کی حیثیت سے رہا ہے۔ موجودہ دور میں اس کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کا مسکن پاکستان اور شمالی بھارت کا وہ علاقہ ہے جس کو پنجاب بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا آغاز سولہویں صدی میں ہوا۔ یہ بنیادی طور پر دو مذہب کا مجموعہ ہے۔ کچھ لوگ اسے الگ ایک مزہب نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک یہ مزہب کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ کیونکہ اس میں نہ عقائد کی تفصیل ہے اور نہ معاملات کی تشریح۔ اس لیے وہ اسے کوئ باقاعدہ مستقل مزہب شمار نہیں کرتے بلکہ وہ اسے ہندومت کی ایک اصلاحی تحریک قرار دیتے ہیں۔ جو ہندومت میں اصلاح چاہتا ہے۔ البتہ یہ مذہب دین اسلام کے چند عناصر کی بھی تبلیغ کرتا نظر آتا ہے اس لیے اپنی بقاء کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
سکھ مت میں داخل کا طریقہ:-
کوئ شخص سکھ خاندان میں پیدا ہو کر سکھ نہیں بنتا بلکہ پختہ عمر میں پاہل لینے کے بعد سکھوں میں شامل ہوتا ہے۔ اس رسم میں میٹھے پانی کے پیالے میں کرپان پھیری جاتی ہے اور نئے سکھ کو عقیدے کی سچائیاں اور ممنوعات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس پر اس پانی کے چھینٹے مارے جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرد مزہب میں شامل ہوتا ہے۔
سکھ ہونے کی شرائط:-
1:- ایک خدا کو ماننا
2:- 10 گرووں کو ماننا جو گرو نانک سے گورو گوبند سنگھ تک ہیں۔
3:- گرگرنتھ صاحب، سکھوں کی مقدس کتاب کو ماننا۔
4:- 10 گروؤں کی تعلیمات کو ماننا
5:- ایک ایماندارانہ زندگی گزارنا، ظلم سے باز رہنا اور نیک لوگوں کی عزت کرنا۔
سکھ مت کے عناصر دین:-
اعتقادات:-
1) ایمان باللہ
 2) ایمان بالرسول
 3) ایمان بالآخرت
عبادات:-
1) بدنی عبادات
2)مالی عبادات
3) مالی و بدنی عبادات
4) صوم و صلوٰۃ
5) زکوٰۃ
6) حج
اعتقادات:-
توحید:-
سکھوں کی مزہبی کتاب گرنتھ صاحب میں "مول منتر" کلام کو ان کے تمام کلام میں سب سے مقدس سمجھا جاتا ہے۔ جوکہ ان کا سب سے پہلا شاعری میں اظہار کا کلام تھا۔ جو انہوں نے سلطان پور کے قیام کے بعد کہا تھا اس میں بابا گرو نانک نے بڑی جامعیت سے ذات خداوندی کا تصور پیش کیا۔ انہوں نے بت پرستی کی سخت مخالفت کی۔ گرونانک کی رب باری تعالیٰ کے بارے میں رائے کچھ یوں تھی: "کہ وہ نہ تو کسی شخصیت کا مالک ہے اور نہ ہی کسی صفت کا مالک ہے۔ وہ اکیلا ہے جو ناقابل تقسیم ہے۔ وہ زمان اور مکان سے ماورا ہے۔ وہ ایسا آزاد ہے جو ہر شے میں سمایا ہوا ہے۔"وہ کہتے کہ
اگرچہ اس کی تعریف کرنا ممکن نہیں لیکن پھر بھی اسے کسی نام سے یاد تو کرنا ضروری ہے۔ اس لیے آپ واضح تور پر خدا کے نام کا زکر کرتے تھے "وہ اتار اور حلول کے عقیدے کے منکر تھے۔
رسالت:-
نعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم:
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے بارے میں گرونانک لکھتے ہیں:
کیتھے نور محمدی ڈیتھے نبی رسول
نانک قدرت دیکھ محر خودی گئ سب بھول
تمام انبیاء کے نور کا، نور محمدی سے ظہور ہوا۔
نانک خدا کی یہ قدرت دیکھ کر اپنی خودی بھول گیا۔
اٹھے پہر بھوندا پھرے کھاون سنڑرے رسول
دوزخ پوندا کیوں رہے جال چت نہ ہوئے رسول
جن لوگوں کے دلوں میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت اور محبت نہ ہوگی وہ اس دنیا میں بھی بھٹکتے پھریں گے اور مرنے کے بعد ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ دنیا کی نجات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے ہی وابستہ ہے۔
ہندو کہن ناپاک ہے دوزخ سولی
کہ دو اللہ اور رسول کو اور نہ بوجھو کوئ
ہندو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ناپاک الفاظ بکتے ہیں۔ وہ یقیناً جہنمی ہیں۔ سچے دل سے تصدیق کرو اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں۔ اس کے سوا کچھ نہ پوجھو۔

آخرت

پل صراط: گرو نانک پل صراط کے بارے میں لکھتے ہیں: پل صراط کا راستہ بڑا کھٹن ہے۔ وہاں کوئی کسی کا ساتھ نہ دے گا۔ ہر ایک کو اکیلا گزرنا ہو گا۔

 اس طرح ایک اور جگہ آتا ہے۔ میں صراط بال سے باریک ہے۔ کیا اس پر چلنے کی مصیبت کے بارے میں نے تو کچھ سنتا نہیں۔ بابا فرید بھی کہتے ہیں کہ

 ظالم خود کو اپنے ہاتھوں برباد نہ کر۔

عبارات

نماز:-

گرونانک نماز کے بارے میں اپنے خیالات ان الفاظ میں پیش کرتا ہے۔

فریدا بے نماز کیتا۔
ایہہ نہ بھلی ریت

کبھی چل نہ آیا۔

پنجے وقت مسیت۔

اٹھ فرید اوضوساج۔

صبح نماز گزار۔

جو سر سائیں نہ ہنوئیں۔ 

سوسر کپ اتار۔

جو سرسائی نہ ہوئیں۔

سوسرکیجیئے کاٹیں۔

کنے ہیٹھ جلائیے۔

بالن سنرڈتے تھائیں

بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اے بے نمازی کتے! تیرا یہ طریق پسندیدہ نہیں ہے کہ کبھی بھی پانچ وقت چل کر نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں نہیں جاتا۔ اے فرید صبح اٹھ کر وضو کرو اور نماز پڑھو۔ جو سر خدا تعالی کے حضور نہیں جاتا اسے جسم سے الگ کر دو۔ جو سر خدا تعالی کے حضور نہیں جھکتا وہ کسی کام کا! وہ تو بے کار ہے۔ ایسے سر کوچولھے میں ہنڈیا کے نیچے ایندھن کی طرح جھونک دو۔

اسی طرح ایک جگہ آتا ہے!

جمع کر نام دی پنج نماز گزار

باجھوں یاد خدائے دلے لہو سیں بہت خوار

پانچوں نمازیں باجماعت پڑھا کر، اگر تو نے اس طرح یاد خداسے غفلت کی تو بہت ذلیل ہو گا۔

زکوة

 بابا گرو نانک زکوۃ کے بارے کہتے ہیں:

لعنت برسے نت نہاں جو زکوٰۃ نہ کڈھدے مال

دھکا  پونداغیب داہوند اسب زوال

ان پر اللہ تعالی کی لعنت جو اپنے مال سے زکوۃ نہیں نکالتے ایسوں پر اچانک غیب سے عذاب آتا ہے اور سارا مال و دولت ختم ہو جاتا ہے۔روزه:-

روزے کے بارے میں گرو نانک کہتے ہیں:

تونے تیسں روزے رکھے اور پانچ نمازیں ساتھ پڑھیں لیکن دیکھنا جس کا دوست شیطان ہے۔ وہ کہیں سارے اعمال کو ہی ضائع نہ کر دے۔ اسی طرح کے کتب میں صاف لکھا ہے کہ گرونانک کی دو سال مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ٹھہرے تھے اور گروجی کا اکثر وقت روزه داری ہی میں گزرتا نیز سکھ کتب سے یہ بھی ثابت ہے کہ گروجی نے اوروں کو بھی روزہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔

حج:-

آخر کار گرونانک اسلام کی طرف مائل ہوئے اور مزارات پر جانا شروع ہو گئے اور پھر یہ تڑپ اتنی بڑھی کہ دل میں آرزوئے حج پید اہوئی۔ جیسا کہ جہنم ساکھوں میں ایک ان کا قول موجود ہے۔ "مردانہ"ان حاجیوں کو جانے دو۔ اگر ہماری قسمت میں حج کعبہ ہے تو ہم بھی پہنچ جائیں گے۔ مردانہ یہ راہ ایسی ہے کہ اگر مہر، محبت خدمت کرتے جائیں تو فیض حاصل ہوتا ہے اور اگر ہنسی مذاق کرتے جائیں تو حاجی نہیں بن سکتے۔

آخر جب یہ عزم بالجزم بن گیا تو ایک دن بابا جی نے مردانہ سے کہا کہ چل ہم بھی دیدار اور حج مکہ کریں" گورونانک جی نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ایک سال تک قیام کیا تھا۔

قرآن مجید

قرآن مجید کلام الہی ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا سر چشمہ ہے۔ حیات اسلامی دستور ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا معجزہ ہے جس کو آج تک کوئ رد نہیں کرسکا۔ چیلنج کے باوجود اس کے مقابلے میں کوئ آج تک کچھ نہیں بنا سکا ہے۔ گرونانک اس کی حقانیت و سچائ سے متاثر ہو کر لکھتے ہیں: کل جنگ کے زمانہ میں صرف قرآن شریفہی منظور شدہ کتاب ہے دوسری تمام کتابیں منسوخ ہو گئیں ہیں ۔ اب اللہ تعالی کی صفت رحمانی جلوہ گر ہے۔

اخلاقیات

جواں مردی:

اس تمام کے باوجود ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اپنی ذات کے فرائض ضروری ہیں۔ جب تک کہ انسان اپنی دنیاوی زندگی میں عشق الٰہی میں کمال نہ حاصل کر لے۔ اس وقت تک وہ بار با اس دنیا میں مختلف شکلوں میں جنم لیتا رہے گا۔ جن کی تعداد چوراسی  لاکھ تک بتائ جاتی ہے۔

اس دوران ایک بار ضرور ایسانادر موقع ملتا ہے جس میں وہ عشق الہی میں کمال حاصل کر لیتا ہے۔ اور یہ صرف انسان کی صورت میں پیدا ہو کر ہی ممکن ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے چھ طریقے سے عشق حقیقی کو پایا تو انہیں 84 لاکھ مختلف زندگیوں سے گزر کر ایک طویل مدت کے بعد یہ موقع ملے گا۔ 

انا کی نفی:

 گرونانک کے نزدیک خدانک پینے میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی امین " میں " ہے۔ ان کے نزدیک انسان اس میں " کی حقیقت کو سمجھ جائے تو اس کی نفی کر کے اپنے مالک حقیقی سے جڑ سکتا ہے۔ جیسا کہ آپ لکھتے ہیں:۔ اگر انسان اس "میں" کی حقیقت کو سمجھ لے تو اس کو خدا کا دروازہ مل جائے۔ انسان معرفت کے بغیر فضول کی بحث میں پڑا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گرو نانک نے بعض دوسری نفسانی بیماریوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کے خیال میں جب تک انسان ان بیماریوں سے پاک نہ ہو اس وقت تک وہ اپنے رب کو نہیں پاسکتا۔ جیسے کہ وہ اپنی تبلیغ میں کہتے تھے خواہشات ، لا ، دنیا سے تعلق اور غصہ و غیرہ سے انسان فلاح نہیں حاصل کر سکتا۔

گرونانککےتبلیغی نکات:-

گرونانک صاحب کی تعلیمات سے ایک چیز جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ آپ کوئی مذہبی مفکر یا فلسفی نہیں تھے۔ بلکہ آپکا سارا زور عشق الہی اور عرفان الہی کی تلقین پر ہی رہا ہے۔ گرونانک کی تبلیغ کے اہم نکات درج ذیل ہوتے تھے

1۔ گرو نانک نیکی کی دعوت دیتے رہے۔

2- برائی سے روکتے تھے۔

3- ریاکاری سے روکتے تھے۔

4۔ خودغرضی سے روکتے تھے۔

5۔ دنیاداری سے روکتے رہے۔

6- جھوٹ کے خلاف تبلیغ کرتے رہے۔

7- تمام کو اللہ کے ہاں حساب دینا ہے۔

8- نجات نیک عمل سے ہوگی۔

9- حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت پڑھتے تھے۔

گور نانک کی کرامات:-

اگرچہ بابا گرو نانک نے اپنی پوری زندگی میں بھی کبھی کرامت دیکھانے کی بات نہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو عام انسان اور گنہگار ہونے کا اعتراف کرتے تھے۔ مگر اس کے باوجود پھر بھی ان سے کچھ کرامات کو منسوب کیا جاتا ہے۔

1- کالے ناگ کا چہرے پر سایہ کرنا

نوجوانی کے ایام میں اپنے مویشیوں کو کھیتوں میں چرارہے تھے۔ بڑی سخت دھوپ اور گرمی کے دن تھے۔ بابا نانک دھوپ سے بچنے کے لیے ایک درخت کے سائے کے نیچے تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئے اور نیند آگئی ۔ تاہم سورج کی کچھ کرنیں آپ کے چہرے پر پڑرہی تھیں، پاس ہی ایک کالا ناگجس نے آپ کے چہرے پر سایہ کر رکھا تھا اپنے منہ کی کھال سے۔ یہ سارا منظر تلونڈی کے سردار راۓ صاحب نے دیکھا تو فورا گھر واپس آ کر نانک کے والدین کو یہ خوشخبری سنائی کہ آپ کا بیٹا عظیم انسان بنے گا۔ لیکن ان کے والدین نے کہا خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

2- آب حیات:- 

ایک دن نانک صاحب کو سخت پیاس لگی تو انہوں نے گاؤں کے قریب تالاب سے پانی لانے کے لیے ایک چرواہے سے کہا کہ جاو تالاب سے پانی لاؤ۔ تو اس    نے جواب دیا حضور میں نے وہاں گیا تھا تالاب خشک تھا اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا۔ تو بابا گرونانک نے نہیں کہا جا کر دیکھو پانی اس میں ہے؟ جب وہ چرواہا تالاب پر آیا تو دیکھ کر حیران ہو گیا کہ واقعی تالاب پانی سے بھرا ہوا ہے ۔ حالانکہ صبح سویرے وہ یہاں سے گزرا تھا تو تالاب میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔ آج بھی یہ تالاب امرت سر میں موجود ہے۔ جس کو آب حیات کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔

3-پنجہ صاحب

کا بل قندھار جاتے ہوئے راستے میں انہوں نے ایک بڑی چٹان جو کہ گررہی تھی اسے گرنے سے روک دیا تھا۔ اس پر آپ کے پنجہ کا نشان آج بھی موجود ہے۔ اس مقام کو “ پنجہ صاحب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

4 انتقال کے بعد جسم کا غیب ہو جاتا

آپ کی وفات کے بعد ہندو اور مسلمانوں میں سخت تنازع ہوا۔ ہندوؤں کا کہنا تھا کہ نانک ہندوؤں کے گھر پیدا ہوا ہے لہذا ہندو ہے اور ہم اس کے جسد خاکی کو جلائیں گے، جبکہ مسلمان اسے خدا پرست اور خداشناس سمجھتے تھے وہ اسے دفن کرنا چاہتے تھے۔ کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تو دونوں طرف سے تلواریں نکل آئیں ، آخر کچھ لوگوں نے فیصلہ دیا کہ نانک کے جسد خاکی کو نہ جلایا جائے اور نہ ہی دفن کیا جائے بلکہ اسے بعد کفنانے اور خوشبو لگاکے راوی میں بہا دیا جائے۔ مسلمان اس پر راضی نہ ہوئے اور ہلہ بول کر اندر جاگھسے ، جہاں پر نانک کا جسد خاکی پڑ اہوا تھا۔ اندر جا کر چادر ہٹائی تو اس میں بابا نانک کی لاش غائب تھی اور چند پھول چادر کے نیچے سے بر آمد ہوئے، خیال ظاہر کیا گیا کہ شاید کوئی نانک کی لاش کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ مسلمانوں نےچاہا کہ اس چادر اور پھولوں کو لے جا کر دفن کر دیا جائے مگر ہندو بھی تیزی سے آگے بڑھے اور انہوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے آدھی چادر کھینچ لی۔ سو مسلمانوں نے آدھی چادر دفن کر دی اور ہندوؤں نے اسے جلاڈالا۔ بعد ازاں سکھوں نے کر تار پور میں ان کی یاد میں ایک مقبرہ تعمیر کیا جہاں ہر سال سکھ بڑی تعداد میں اپنی مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں۔

"پانچ" ک:-

سکھ مذہب میں ہر سکھ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی شناخت کے لیے پانچ چیزوں کو اپنائے یا اپنے پاس رکھے:


 

1-کیش: بال نہ کاٹے جائیں کیونکہ تمام گرو بھی بال نہیں کاٹتے تھے۔

2- کنگھا: سر کے بالوں کو ہموار اور صاف رکھنے کے لیے۔

3-کڑا: اسٹیل یا دھات کی موٹی چوڑی جو قوت کے لیے پہنی جاتی ہے۔

4- کرپان: خنجر جو اپنے دفاع کے لیے رکھاجاتا ہے۔

5-کچھا: پھرتی اور چستی کے لیے پہناجانے والا زیر جامہ جس کی لمبائی گھٹنوں تک ہوتی ہے۔

جدید سکھ مت

اگرچہ دنیا کے مختلف ممالک میں سکھ حضرات موجود ہیں ۔ البتہ جدید سکھ مت کے پیرو کار مرکزی طور پر ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں اہم فرقے یہ ہیں۔ ہر فرقہ گرو نانک کی تعلیمات کو قبول کرتا ہے۔ گرنتھ صاحب کو مقدس مذہبی کتاب مانتا ہے۔ اور دس گروؤں کو الہام یافتہ تصور کرتا ہے۔ سکھ مت مختلف فرقوں میں منقسم ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

ا۔ اداسی فرقہ:

ان کو "نانک پترا" کہتے ہیں ۔ یہ بنیادی طور پر مقدس افراد کا فرقہ ہے۔ انکا جد امجد گرو نانک کا بڑا بیٹا تھا۔ یہ گرو گوبند کی گرنتھ کو مسترد کرتے ہیں۔ جبکہ گرو نانک کے آدھے حصے کی گرنتھ کو مانتے ہیں۔ یہ حضرات ہندو مت، بدھ مت، جین مت، کے کئی قوائد و اصول پر عمل پیرا ہیں۔ یہ کھردرے پیلے کپڑے پہنتے ہیں۔ ان کے پاس صرف ایک برتن کشکول ہو تا ہے۔ یہ سرگرم مبلغ ہوتے ہیں۔ گھوم پھر کر اپنے نظریات و عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اور اپنے مذہب سے دوسروں کو متعارف کراتے ہیں۔ یہ لوگ رہبانیت پسند ہوتے ہیں۔ اداسی کا مطلب ہی تارک دنیا ہے۔

2۔ سہج دھاری سکھ:-

یہ دوسرا فرقہ ہے ۔ یہ جارحیت پسندی کو مسترد کرتے ہیں ۔ جو اب سکھ مذہب کی پہچان بن چکی ہے۔ یہ داڑھی منڈواتے ہیں۔ انکا دوسرا نام " نانک پنتھی"بھی ہے۔

3- نامداری سنگھ سکھ:-

یہ تیسرا فرقہ ہے۔ جو عمومآ سکھ مت کے پیرو کاروں پر بولا جاتا ہے۔ اس فرقہ کی ابتداء بھائی رام سنگھ نے کی۔ جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں سپاہی کی حیثیت سے ملازم ہوا۔ یہ مذہبی مزاج کا آدمی تھا۔ اس کے پیرو کار  بابا بالک رام کو گیارہویں اور اس کو بارہویں گرو سمجھتے ہیں۔ یہ غیر نامداری سکھوں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھاتے۔

4-اکالی فرقہ

" اکالی" کا معنی "اللہ" کے ہیں۔ یعنی خدا کی پوجا کرنے والا فرقہ یہ لوگ انتہائی جنگجو ہوتے ہیں۔ اور دوسرے فرقوں کی بانسبت زیادہ کڑے عقائد کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بندہ پنتھی فرقہ، مذہبی فرقہ اور امداس فرقہ بھی ہیں۔

سکھ مت کی مذہبی کتاب اور عبادت گاہ 

سکھ مت ایک توحیدی مذہب ہے۔ اس مذہب کے پیروکاروں کو سکھ کہا جاتا ہے۔ سکھوں کی مذہبی کتاب شری آوی گرنتھ یا گیان گرو گرنتھ صاحب ہے۔ سکھوں کے مذہبی مقام کو گردوارہ کہتے ہیں۔

گرو گرنتھ صاحب

یہ سکھ مذہب کی مذہبی کتاب ہے۔ گرو نانک نے اپنے فرقہ کے لئے مذہبی نظمیں اور مناجات میں چھوٹی تھیں جن کو سکھوں نے بڑی احتیاط سے محفوظ رکھا۔ دوسرے گرونے گورمکھی پنجابی رسم الخط ایجاد کیا۔ پانچویں گرو نے ان سب کو جمع کر کے ایک کتاب بنادی۔ جس میں کبیر اور پندرہ دیگر رہنماؤں کے اقوال اور گیت شامل ہیں۔ یہ آدی گرنت یا صلی گرنتھ کہلاتی ہے۔ دسویں گرو نے اس میں بہت سانیا اضافہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہو کہ یہ سکھ مذہب کی مقدس کتاب بن گئی۔ مرنے سے پہلے دسویں گرو نے سکھوں سے کہا کہ اب وہ نیا گرونہ مقرر کریں بلکہ گرنتھ کو اپنا گرو قراد دیں۔ اس وقت سے یہ مقدس کتاب گرنتھ صاحب) سکھ فرقہ کا مرکزی اور روحانی سرچشمہ ہے۔ یہ کتاب ساری کی ساری منظوم ہے جس میں گرو نانک اور بابا فرید شکر نج کے علاوہ گرو امر داس، گروار جین، گرو تیغ بہادر اور 25 دوسرے کجھگتوں اور صوفی شاعروں کا کلام شامل ہے۔ گرو ارجن نے ادی گرنتھ کی ترتیب و تدوین کا کام 2004 میں مکمل کیا اور تمام سکھوں کو اس کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی۔

سکھوں کی آبادی:-

 دنیا بھر میں سکھوں کی تعداد 2 کروڑ 30 لاکھ ہے اور اس کا 60 بھارتی صوبہ پنجاب میں رہتے ہیں۔ بھارت کے سابقہ وزیر اعظم منموہن سنگھ بھی ایک سکھ ہیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق، بھارت میں سکھ آبادی 2 08 کروڑ (20.8 ملین) ہے، یہ کل آبادی کا صرف  1.72% ہے بھارت میں کل سکھ آبادی میں سے، 77٪ پنجاب میں رہتے ہیں۔جہاں آبادی کا 58 فی صد سکھ ہیں، بھارتی ریاست پنجاب بھارت کی واحد ریاست ہے جہاں سکھ مت اکثریتی مذہب ہے۔ دوسری ریاستیں جہاں سکھوں کی قابل ذکر آبادی ہے ان میں چندی گڑھ کا لو نی ( 13. 11 %)، نئی دہلی (5. 4%)، ہریانہ ( 4.91%)، اتار کھنڈ ( %2.34)، راجستھان (1.27%)، جموں اور کشمیر (1.87%) اور ہماچل پردیش ( 1. 16%) شامل ہیں۔

گروہر گوبند گرو ارجن دیو کے بعد اس کا بیٹا گرو ہر گوبند (644[ تا606[) اس کا جانشین ہوا۔ یہ سکھ مت کے چھٹے گرو تھے۔ گرو گوبند نے اپنی مسند نشینی کے موقع پر عام اعلان کیا کہ سکھ مذہب میں دین اور سیاست دونوں یک جان ہیں۔ ان کے اس علان کے بعد سکھ مذہب میں سیاست کی بنیاد پڑی۔ اب گرو کا پرانا تصور جو کہ ایک مذہبی راہنما کا تھا تبدیل ہو گیا اور اس پر سیاکی را ہنم کا پہلو غالب آچکا تھا۔ انہوں نے پنجاب کے مخل گورنر کے ساتھ تین اہم جنگیں لڑنی پڑیں جن میں انکا پلہ بھاری تھا۔ انہیں جہانگیر نے گوالیار" کے قلعہ میں کچھ دنوں کے لیے نظر بند کر دیا تھا۔ جہاں سے وہ لاہور کے مشہور صوفی بزرگ میاں میر رحمتہ اللہ تعالی علیہ کی سفارش سے رہائی پا سکے ۔ انہوں نے امرت سر سے اپنی رہائش ختم کر کے شمال مشرق کے پہاڑی علاقے میں ایک باغی راجہ کے پاس اپنے لیے محفوظ ٹھکانہ تلاش کر لیا۔ اور وہیں اپنے آخری ایام گزارے۔

7- گروہری راۓ:-

ساتویں گرو ہری راۓ ( 1661 تا 4664) تھے۔ یہ نرم مزاج اور صلح پسند انسان تھے۔ انہوں نے صرف ایک موقع پر جب شہزادہ داراشکوہ اور نگزیب کی فوجوں سے نیچ کر فرار ہورہا تھا تو انہوں نے اس کی مدد کی تھی اس کے علاوہ انکا کوئی سیاسی اقدام نہیں ہے۔

10- گروہرکشن

آٹھویں گروہ گروہرکشن (1644 تا 4664) تھے۔ یہ گروہری رائے کے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے رام رائے اور نگزیب کے دربار میں مقیم تھے۔ اور اپنے والد سے ناراض تھے اس لیے گروہر کشن کو پانچ سال کی عمر میں اس عہدے پر فائز کیا گیا۔ رام رائے کے کہنے پر اور نگزیب نے انہیں دبلی بلایا۔ جہاں پر چیک کے مرض میں انکا انتقال ہو گیا۔

گروتیغ بہادر:-

 نویں گرو گرو یخ بار (1664 تا2675) تھے۔ جو کہ ایک صلح پسند اور صوفی پند انسان تھے۔ یہ قتل و غارت کی بجائے سخاوت و مهمان نوازی کے نام سے منسوب ہونازیادہ پسند کرتا تھا۔ اور نگزیب نے انہیں دہلی بلوایا اور مسلمان ہونے سے انکار کرنے پر قتل کروایا۔

10۔ گرو گوبند سنگھ

دسویں گروه گرو گوبند سنگھ (1675 تا 708) تھے۔ یہ گرو نانک کے بعد سکھوں کے اہم ترین گور ثابت ہوئے۔ اگر چہ سکھ مت میں تمام گرووں میں باہم کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ گرو تیغ بہادر کے بیٹے تھے۔ انہوں نے سکھوں کو منظم کرنے کے لیے باضابطہ ارادت کا سلسلہ شروع کیا۔ وفاداری کے سخت ترین امتحان کے بعد مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے پانچ سکھوں کو ایک مخصوص رسم "امرت چکھنا" کے ذریعے حلقہ مریدین میں داخل کیا اور انہیں "خالصہ " کا لقب دیا، اس کے بعد اس حلقہ میں عمومی داخلہ ہوا اور ہزاروں سکھ "خالصہ" میں داخل ہوئے۔ اس گرونے شرعی قوانین بھی بنائے۔ ان احکامات میں تمباکو سے اجتناب ، حلال گوشت کی ممانعت، مردوں کے لیے "سنگھ " (شیر) کے نام کا استعمال اور عورتوں کے لیے انگور" (شہزادی کا استعمال لازمی قرار دیا اور پانچ چیزوں کو ہمیشہ اپنے پاس رکھنے کا کہا۔ جن کی ابتدا "ک" سے ہوتی ہے۔

سکھ مت پر اسلام کے اثرات 

1-توحید میں اسلام اور سکھ مت مساوی مذہب:-

 اسلام کی طرح سکھ مت بھی خدائے واحد پر یقین رکھتا ہے اور ذات باری کو ان تمام صفات سے متصف قرار دیتا ہے جن سے اسلام اسے متصف مانتا ہے۔ ڈاکٹر گوپال چندر سنگھ گرو گرنتھ صاحب کے ترجمہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: “ وہ ازلی خالق اور محیط ہے، حسد و نفرت سے دور اور علت العلل ہے، جملہ مخلوقات کا معبود، عادل، رحیم اور کریم ہے، اس نے انسانوں کو ان کے گناہوں پر سزادینے کیلئے نہیں بلکہ اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا ہے ۔ اسلام نے بھی خدا کو ان جملہ صفات سے متصف قرار دیا ہے۔

2-اسلام اور سکھ مت میں نجات کا انحصار: 

سکھ مت میں نجات کا دار و مدار بندگی رب اور اس کے طریقہ کی پیروی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: “اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم لوگ اس کے علاوہ کسی اور کی بندگی نہ کرو" (بنی اسرائیل :32)۔ سورة الذاریات میں ہے : میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی بندگی کیلئے پیدا فرمایا ہے ۔ سورة الاعراف میں شریعت خداوندی کی پیروی کا حکم کیوں دیا گیا ہے: اپنے رب کی جانب سے نازل کی گئی شریعت کی پیروی کرو”. سورة الزمر میں ہے: اس بہتر شریعت کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے” (الزمر:55)۔

3- اسلام اور سکھ مت میں رہبانیت کی مذمت

 سکھ مت رہبانیت کو حرام قرار دیتا ہے اور لوگوں کو حلال رزق کی تلاش پر آمادہ کرتا ہے، مشہور حدیث ہے:" لا ريبانية في الاسلام اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ہے:" اے لوگو جو ایمان لائے ہو ان پاکیزه اموال میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائے ہیں اور ان غلات میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لئے پیدا فرمایا ہے" (البقرہ:267)۔ " پس جب نماز ختم ہو جائے تو تم لوگ زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا رزق تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرو، شاید کہ تم فلاح پاؤ" (الجمعہ :9)۔

4تحریک خالصتان

بھارتی سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو، بھارت سے الگ کر کے ایک آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک ہے۔ سکھ زیادہ تر بھارتی پنجاب میں آباد ہیں اور امرتسر میں ان کا صدر مقام ہے۔ 1980 کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ بھارتی حکومت نے آپریشن بلیو سٹار کرکے اس تحریک کو کچل ڈالا۔ کینیڈا میں مقیم سکھوں پر یہ الزام بھی لگا کہ انہوں نے بھارتی مسافر طیارہ اغوا کر کے تباہ کر دیا۔ د ہشت پر جنگ کے آغاز کے بعد یہ طیارہ واقعہ کینیڈا اور مغربی ابلاغ میں خوب اچھالا گیا جس کی وجہ سے بھارت سے باہر مقیم سکھ اب اس تحریک سے کنی کتراتے ہیں۔

سکھ مت کے مشہور دس گرووں کا مختصر تعارف

1۔ گرونانک

سکھ مت کے بانی گرو نانک نے اپنی مذ ہی زندگی کو باقاعدہ جماعت کی تشکیل کے نظریہ سے نہیں گزارا بلکہ اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں گزارہ اور اس

سے حاصل ہونے والے مشاہدات و طریقے کار کی روشنی میں تبلیغ کے فرائض انجام دے۔ جس کی وجہ سے سکھ مت ابتداء میں ایک تحریک اور پھر بعد میں آنے والے گروہوں نے اس کو ایک مذہب کی شکل دی۔ بعد میں آنے والے گرووں کی سکھ مذہب میں خدمات کا مختصر خلاصہ کچھ یوں ہے:

2- گردان گد

یہ بابا گرونک کے بعد پہلے گرو ہیں۔ ان کو یہ رتبہ حاصل ہے کہ نہیں بابا گرو نانک نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں گرو کے رتبے پر فیض کیا۔ انہوںنے مقامی رسم الخط میں کچھ تبدیلیاں کر کے ایک نیارسم الخط ایجاد کیا۔ اور اس کا نام اگر کھی"رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے گرو نانک کے جملہ کلام کو جو انہوں نے اپنی سیاحت کے دوران جمع کیا تھا اور سنتوں کے کلام کو "گرمی" میں لکھوایا۔ دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ گرونانک کے ایک قریبی ساتھی " بالا" کے ذریعے سے گرو نانک کی سوانح حیات مرتب کرائی۔ جس میں انہوں نے گرونانک کی تعلیمات کو بھی تلخیص کے ساتھ تحریر کیا۔

3- گرامر داس

سکھوں کے تیسرے گرو گرو امر داس" (1574تا1552)تھے۔ گرو انگد نے گرو نانک کے طریقے پر چلتے ہوئے اپنے بیٹوں کی بجائے انہیں منتخب کیا تھا۔ انہوں نے سکھوں کو جو کہ پورے پنجاب میں منتشر تھے۔ پہلی مرتبہ منظم کرنے کے لیے اصلاحات کیں۔ ایسی گرو کے شہنشاہ اکبر کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔

4- گرورام داس

سکھ مت کے چوتھے گرو رام داس (1518 تا574) تھے۔ انہوں نے سکھوں کی شادی اور مرنے کی رسومات ہندومذہب سے الگ متعین کیں۔" ستی" کی رسم کی مخالفت کی اور بیواؤں کی شادی پر زور دیا۔ انہوں نے گرو نانک سے منسوب ایک قدرتی چشمہ پر قائم حوض کو مزید وسعت دے کر ایک تالاب کی شکل دی۔ جس کا نام امرت سر چشمہ آب حیات ) تھا۔ جو بعد میں ایک مقدس مقام بن گیا اور اس کے گرد ایک شہر آباد کیا۔ اور اس شہر کا بھی یہی نام "امرت سر" پڑ گیا۔

5- گرو ارجن دیو

سکھ مت کے پانچویں گرو گرو ارجن دیو (1606 تا 1581) تھے۔ ان کا سکھ مت کو ایک باقاعدہ الگ مستقل مذہب بنانے میں سب سے اہم کردارہے۔ گرو ارجن دیو کا سب سے بڑا کارنامہ "گرنتھ صاحب کا مرتب کروانا ہے۔ جو اس سے پہلے سینه با سینہ چلی آرہی تھی۔ انکا دوسرا کار نامہ" ہری مندر کی تعمیر بھی ہے۔ یہ مندر انہوں نے امرت سر تالاب پر بنوایا۔ جسے اب " در بار صاحب" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ گرو ارجن سنگھ نے سکھوں سے "وس ونتر " یعنی عشره وصول کرنے کا انتظام کیا اور تین شہر "ترن تارن " ، " کر تار پور "، اور " ہر گوبند پور " آباد کئے۔ پھر اس کی بادشاہ وقت جہانگیر سے مخالفت ہوگئی، جہانگیر نے گرو ارجن سنگھ کو قتل کروا دیا اس کا مال و اسباب سب ضبط کر لیا۔

6-گروگوبند:-

 

۔ اسلام اور سکھ مت میں بھیک مانگنے کی مذمت متعدد احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو رزق کے حصول پر اکسایا ہے اور انھیں بھیک مانگے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے منع فرمایا ہے:"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: خدا کی قسمتم میں سے کسی کارتی لے کر نکلنا اور پھر اس کے ذریعہ ایند هنوں کو اپنی پشت پر لاد کر لے آناتا کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے کھانے کا انتظام کرے اور راہ خدا میں صدقہ خیرات کرے زیادہ بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی مال دار شخص کے پاس آکر سوال کرے پس وہ اسے دے یا انکار کر دے، کیونکہ اوپر والاہاتھ نے والے ہاتھ سے بہتر ہے" (متفق علیہ)۔

5- اسلام اور سکھ مت میں مردوزن میں مساوات:

اسلام کی طرح سکھ مت بھی مرد و عورت میں تفریق کا قائل نہیں ہے۔ اس کے نزدیک دونوں نجات پاسکتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا فرمایا ہے اور پھر تمہیں مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹ دیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، یقینا خدا کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والا ہو” (الحجرات:13)۔

6- اسلام اور سکھ مت میں زبان کا تقدس:

 سکھ مت کے نزدیک کوئی زبان مقدس نہیں ہے، الہی سے لیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: "ہم نے کسی بھی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں اپنا نام دے تا کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کی وضاحت کر سکے" (ابراہیم:4)۔

7- عقیدہ رسالت:

 سکھ مت رسالت و نبوت کا قائل اور عقید و او تار کا مخالف ہے۔ آغاز میں سکھ مت کا یہی عقیدہ تھا لیکن رفتہ رفتہ وہ اپنے گردوں کو پوجنے لگے اور ان میں ہی خدا تجھ بیٹھے اور ان کی گفتگو کو مقدس نیز مراقبہ میں ان کی یاد کو افضل عبادت سمجھنے لگے۔

8- دینی کامیابی کی ضمانت ہے:-

 اسلام کی طرح سکھ مت بھی یہ تصور رکھتا ہے کہ خدا کا دین جملہ اقوام کیلئے ہے، کسی گروہ کو خدا کے یہاں مخصوص مقام حاصل نہیں اور نہ ہی مذہبی رسوم کی ادائیگی کی طبقہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ قرآن مجید میں ہے: اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے گزری ہوئی قوموں کو پیدا فرمایا ہے شاید کہ تمہارے اندر خداترسی پیدا ہو” (البقرہ:21)۔

وذہبی کتابوں کا احترام، دونوں مذاہب میں مذہبی کتابوں کی تقدیس و احترام کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ سکھوں کی مقدس کتاب گروگرنتھ صاحب کو وہی شخص اس کے مخصوص مقام سے نکال کر پڑھنے کیلئے لا سکتا ہے جس نے کچھ ہی دیر پہلے عمل کیا ہو نیز اس کی قرأت کے دوران مکمل خاموشی اور سنجیدگی بنائے رکھنا ضروری ہے۔ قرآن مجید کے تعلق سے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:" قرآن مجید کی آیات معزز اوراق میں درج ہیں۔ یہ اوراق انتہائی پاکیزہ اور بلندیوں پر رکھے ہوئے ہیں ، ایسے معززکاتبوں کے ہاتھوں میں ہیں جو انتہائی نیک ہیں" (عبس: 15-13)۔

10- عشر و زکوٰۃ:- دونوں مذاہب میں عشر کا نظام پایا جاتا ہے۔

Writer:-ShoaibKamboh

Previous Post
Next Post

This is Muhammad Shoaib Irshad Advocate from Tehsil Bhalwal District Sargodha. I have an LL.B Hons from the University of Sargodha in 2022. My main focus is to spread knowledge and awareness by writing articles on different current affairs topics.

Related Posts