-->

نفع ‏و ‏نقصان ‏اللہ ‏کے ‏ہاتھ ‏میں ‏ہے

نفع و نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے

حدیث
حضرت ابو العباس عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک دن میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھا آپ نے فرمایا بتاتا ہوں اللہ کو یاد رکھ وہ تیری حفاظت کرے گا اللہ کو یاد رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال اور جب تو مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ اور جان لے کہ اگر امت ایکا کرے اس بات پر کہ تجھے کسی چیز کا فائدہ دیں تو وہ تجھے فائدہ نہ دے سکے گی۔ سوائے اس کے جسے اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر ایکا کر لیں کہ تجھے کس بات کا ضرر دیں تو تجھے ضرر نہ دے سکیں گے سوائے اس شے کے جو اللہ نے تیرے خلاف لکھ دی ہے قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے اسے ترمزی نے روایت کیا اور کہا حدیث حسن صحیح ہے اور غیر ترمزی کی روایت میں ہے اللہ کو یاد رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ اللہ کی طرف میلان رکھ خوشحالی میں وہ سختی میں تیری طرف دھیان رکھے گا اور جان لے کہ جو بات تجھ سے چوک گئ وہ تجھ تک پہنچنے والی نہ تھی اور جو بات تجھے پہنچی تجھ سے چوکنے والی نہ تھی اور جان لے کہ یقیناً اللہ کی مدد صبر کے ساتھ ہے اور فراخی تنگی کے ساتھ ہے اور آسانی سختی کے ساتھ ہے۔
تشریح مطالب
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو تعلیم سے نوازنے کا کوئ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان جو چند باتوں کی نصیحت فرمائی۔
یاد الٰہی
ان میں اولین بات یہ تھی کہ اللہ کو یاد رکھو، اس کے احکام کی تعمیل کرو اور جن چیزوں سے اس نے روکا ہے اس سے رک جاؤ تو وہ تمہاری ہر ظرح سے حفاظت کرے گا۔ تمہارے دنیاوی کام سنوارے گا اور آخرت کی سزا سے تمہیں بچائے گا کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد ہے
پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ میرے شکر گزار بن جاؤ اور میری ناشکری نہ کرو۔
اس آیت اور مندرجہ بالا حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ خوشحالی اور آسودگی کے اوقات میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ مشکل وقت میں اور مصیبت کی گھڑیوں میں بطور خاص ان کی مدد فرماتا ہے اور ان پر زندگی کی تکالیف کو آسان کر دیتا ہے اور جو خدا کو فراموش کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی انھیں فراموش کر دیتا ہے اور انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
حاجت روا صرف اللہ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت فرمائی کہ جو کچھ بھی مانگنا ہو اللہ سے مانگا جائے اور دست سوال صرف اللہ کے سامنے پھیلایا جائے اور ضرورت کی چیز کا ذمہ دار صرف اسی کو ٹھہرایا جائے۔ کسی اور سے مدد طلب نہ کی جائے۔ ترمزی نے روایت کیا ہے جو اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا وہ اس پر ناراض ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے اس بت پر بیعت لی تھی کہ وہ کسی سے سوال نہیں کریں گے۔ یہ حضرات اگر سواری پر سوار ہوتے اور ہاتھ سے چابک گر جاتا تو خود اتر کر اسے اٹھاتے تھے اور کسی سے یہ درخواست نہ کرتے کہ اٹھا کر دے دے مبادا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا وعدہ جھوٹا نہ ہو جائے۔
اللہ پر مکمل بھروسہ
تیسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تعلیم فرمائ کہ اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرو، اس کے سسا کوئ بھی بھروسے کے قابل نہیں، نفع اور نقصان کی قوت ورف اسی کو حاصل ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ التوبہ آیت نمبر 51 میں اس بات کی مزید وضاحت کی گئ ہے
ترجمہ
"اے نبی فرما دیجیۓ کہ ہمیں ورف وہی تکلیف پہنچے گی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔ اللہ ہمارا کارساز ہے اور توکل کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے"
قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے۔ ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے۔ جو مصیبت یا آسانی قسمت ہے وہ آکررہے گی پھر مومن کو کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں نہ ہی کسی کے سامنے گردن نیچی کرنے کی ضرورت ہے جو کچھ بھی ہو گا اللہ رب العزت نے اس کا پہلے ہی فیصلہ کردیا ہے اس لیے اس پر کامل بھروسہ کرنا چاہیے۔
اللہ پر توکل کرنے اور اپنے تمام کام اسی کے سپرد کردینے کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ مومن اسباب اور وسائل کی طلب بھی ترک کر دے۔ حلال رزق کی تلاش کے لیے جو کوشش اور جدوجہد کی جائے وہ خلاف شریعت نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے حلال رزق کمانا فرض ہے۔
اسی طرح دوسری دنیاوی امور میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مناسب اسباب اور ذرائع تلاش کرنا بھی مستحسن ہے کیونکہ قرآن پاک سورت النجم آیت 39 میں فرماتا ہے۔
"کہ انسان کو صرف وہ کچھ ملتا ہے جس کے لیے اس نے کوشش کی"۔
لیکن کوشش کے بعد نتائج صرف خدا کے سپرد کر دینے چاہیں۔ توکل علی اللہ کا مطلب اہل شرعیت کے نزدیک صرف یہی ہے۔
کامیابی کا اصول
حدیث کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا گر سکھایا اور وہ یہ ہے کہ صبر اور استقلال سے تمام مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ فراخی اور تنگی، تنگدستی اور خوشحالی اس دنیا میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ تکالیف کو دیکھ کر مومن کو گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ صبر سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے کیونکہ ان اللہ مع الصابرین (اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) کا وعدہ کامیابی کا ضامن ہے۔
Previous Post
Next Post

This is Muhammad Shoaib Irshad Advocate from Tehsil Bhalwal District Sargodha. I have an LL.B Hons from the University of Sargodha in 2022. My main focus is to spread knowledge and awareness by writing articles on different current affairs topics.

Related Posts