Knowledge Base : Hadiths in Urdu

-->

نفع ‏و ‏نقصان ‏اللہ ‏کے ‏ہاتھ ‏میں ‏ہے

نفع و نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے

حدیث
حضرت ابو العباس عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک دن میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھا آپ نے فرمایا بتاتا ہوں اللہ کو یاد رکھ وہ تیری حفاظت کرے گا اللہ کو یاد رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال اور جب تو مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ اور جان لے کہ اگر امت ایکا کرے اس بات پر کہ تجھے کسی چیز کا فائدہ دیں تو وہ تجھے فائدہ نہ دے سکے گی۔ سوائے اس کے جسے اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر ایکا کر لیں کہ تجھے کس بات کا ضرر دیں تو تجھے ضرر نہ دے سکیں گے سوائے اس شے کے جو اللہ نے تیرے خلاف لکھ دی ہے قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے اسے ترمزی نے روایت کیا اور کہا حدیث حسن صحیح ہے اور غیر ترمزی کی روایت میں ہے اللہ کو یاد رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ اللہ کی طرف میلان رکھ خوشحالی میں وہ سختی میں تیری طرف دھیان رکھے گا اور جان لے کہ جو بات تجھ سے چوک گئ وہ تجھ تک پہنچنے والی نہ تھی اور جو بات تجھے پہنچی تجھ سے چوکنے والی نہ تھی اور جان لے کہ یقیناً اللہ کی مدد صبر کے ساتھ ہے اور فراخی تنگی کے ساتھ ہے اور آسانی سختی کے ساتھ ہے۔
تشریح مطالب
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو تعلیم سے نوازنے کا کوئ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان جو چند باتوں کی نصیحت فرمائی۔
یاد الٰہی
ان میں اولین بات یہ تھی کہ اللہ کو یاد رکھو، اس کے احکام کی تعمیل کرو اور جن چیزوں سے اس نے روکا ہے اس سے رک جاؤ تو وہ تمہاری ہر ظرح سے حفاظت کرے گا۔ تمہارے دنیاوی کام سنوارے گا اور آخرت کی سزا سے تمہیں بچائے گا کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد ہے
پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ میرے شکر گزار بن جاؤ اور میری ناشکری نہ کرو۔
اس آیت اور مندرجہ بالا حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ خوشحالی اور آسودگی کے اوقات میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ مشکل وقت میں اور مصیبت کی گھڑیوں میں بطور خاص ان کی مدد فرماتا ہے اور ان پر زندگی کی تکالیف کو آسان کر دیتا ہے اور جو خدا کو فراموش کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی انھیں فراموش کر دیتا ہے اور انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
حاجت روا صرف اللہ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت فرمائی کہ جو کچھ بھی مانگنا ہو اللہ سے مانگا جائے اور دست سوال صرف اللہ کے سامنے پھیلایا جائے اور ضرورت کی چیز کا ذمہ دار صرف اسی کو ٹھہرایا جائے۔ کسی اور سے مدد طلب نہ کی جائے۔ ترمزی نے روایت کیا ہے جو اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا وہ اس پر ناراض ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے اس بت پر بیعت لی تھی کہ وہ کسی سے سوال نہیں کریں گے۔ یہ حضرات اگر سواری پر سوار ہوتے اور ہاتھ سے چابک گر جاتا تو خود اتر کر اسے اٹھاتے تھے اور کسی سے یہ درخواست نہ کرتے کہ اٹھا کر دے دے مبادا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا وعدہ جھوٹا نہ ہو جائے۔
اللہ پر مکمل بھروسہ
تیسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تعلیم فرمائ کہ اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرو، اس کے سسا کوئ بھی بھروسے کے قابل نہیں، نفع اور نقصان کی قوت ورف اسی کو حاصل ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ التوبہ آیت نمبر 51 میں اس بات کی مزید وضاحت کی گئ ہے
ترجمہ
"اے نبی فرما دیجیۓ کہ ہمیں ورف وہی تکلیف پہنچے گی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔ اللہ ہمارا کارساز ہے اور توکل کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے"
قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے۔ ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے۔ جو مصیبت یا آسانی قسمت ہے وہ آکررہے گی پھر مومن کو کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں نہ ہی کسی کے سامنے گردن نیچی کرنے کی ضرورت ہے جو کچھ بھی ہو گا اللہ رب العزت نے اس کا پہلے ہی فیصلہ کردیا ہے اس لیے اس پر کامل بھروسہ کرنا چاہیے۔
اللہ پر توکل کرنے اور اپنے تمام کام اسی کے سپرد کردینے کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ مومن اسباب اور وسائل کی طلب بھی ترک کر دے۔ حلال رزق کی تلاش کے لیے جو کوشش اور جدوجہد کی جائے وہ خلاف شریعت نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے حلال رزق کمانا فرض ہے۔
اسی طرح دوسری دنیاوی امور میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مناسب اسباب اور ذرائع تلاش کرنا بھی مستحسن ہے کیونکہ قرآن پاک سورت النجم آیت 39 میں فرماتا ہے۔
"کہ انسان کو صرف وہ کچھ ملتا ہے جس کے لیے اس نے کوشش کی"۔
لیکن کوشش کے بعد نتائج صرف خدا کے سپرد کر دینے چاہیں۔ توکل علی اللہ کا مطلب اہل شرعیت کے نزدیک صرف یہی ہے۔
کامیابی کا اصول
حدیث کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا گر سکھایا اور وہ یہ ہے کہ صبر اور استقلال سے تمام مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ فراخی اور تنگی، تنگدستی اور خوشحالی اس دنیا میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ تکالیف کو دیکھ کر مومن کو گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ صبر سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے کیونکہ ان اللہ مع الصابرین (اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) کا وعدہ کامیابی کا ضامن ہے۔

‎جنت ‏میں ‏داخل ‏کرنے ‏والی ‏باتیں

جنت میں داخل کرنے والی باتیں


حدیث
"حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئ عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور مجھے آگ سے دور رکھے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے بڑے عمل کے بارے میں پوچھا ہے اور وہ یقیناً آسان ہے اس پر جس پر اللہ نے اسے آسان کر دیا (وہ یہ ہے) کہ تو عبادت کرے اللہ کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور روزے رکھے رمضان کے اور بیت اللہ کا ححج کرے پھر کہا کیا تجھے بھلائ کے دروازوں کے بارے میں مطلع نہ کروں روزہ ڈھال ہے اور صدقہ بجھا دیتا ہے (جہنم کی آگ کو) جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور آدمی کی نماز رات کے درمیان میں پھر آپ نے آیت تتجافی جنوبہم عن المضاجع سے یعملون تک تلاوت کی پھر فرمایا کیا میں تجھے دین کی اصل چیز اور اس کے ستون اور اس کی چوٹی کا عمل نہ بتا دوں۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ارشاد فرمائیں۔ فرمایا دین کی اصل چیز اسلام ہے اور دین کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی(انتہا) جہاد ہے پھر فرمایا کیا میں تجھے ایسا عمل نہ بتاؤں جس کے ذریعے ان سب امور پر قابو پایا جا سکے میں نے کہا ضرور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا اس کو اپنے حق میں مصیبت بننے سے روک رکھو۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہمارے بولنے پر (بھی) ہماری گرفت ہوگی؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! تیری ماں تجھے نہ پائے تو کیا لوگوں کو گرائے گی آگ میں چہروں کے بل یا فرمایا نتھنوں کے بل۔ ان کی زبان ہی کے تو نتیجے ہوں گے۔(روایت کیا اسے امام ترمزی)
تشریح مطالب
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا سوال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اس سوال کے جواب میں کہ مجھے ایسا عمل بتائیے جو دین میں داخل ہونے کا سبب بن جائے اور مجھے آگ سے دور کر دے۔ انھیں چند ایسے اعمال بتائے جو دین میں انتہائ اہم ہیں لیکن ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تنبیہہ کی کہ یہ اعمال انسانی طبیعت پر گراں ضرور ہیں لیکن جو کوئ اللہ کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے اعمال اس کے لیے آسان ہو جاتے ہیں اور اسے کسی قسم کی تکلیف کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
ارکان اسلام
سب سے پہلی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائ کہ ارکان خمسہ کی پابندی کی جائ اور ان میں کسی قسم کی کوتاہی روا نہ رکھی جائے۔ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور ہر قسم کے شرک سے دامن بچاؤ۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دیا کرو، ححج بیت اللہ کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔
نوافل عبادات
فرضوں کا ذکر کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوافل کا ذکر فرمایا اور انھیں ابوالخیر یعنی بھلائ کے دروازوے فرمایا، گویا انھی دروازوں سے گزر کر ہی انسان نیکی کی عمارت میں داخل ہو سکتا ہے۔ دروازے کو گناہ کے تیروں سے بچانے کا ذریعہ یعنی ڈھال فرمایا کیونکہ روزہ شہوت کے غلبے کو ختم کر دیتا ہے اور تقوی اور طہارت کو پیدا کرتا ہے۔ اس طرح صدقہ گناہوں کو مٹانے کا ذریعہ ہے۔ چھوٹے گناہ صدقہ اور خیرات کرنے سے معاف ہو جاتے ہیں۔ رات کے پچھلے پہر نماز جسے تہجد کہا جاتا ہے نیکیوں کے حصول کا بہترین وسیلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تینوں عبادات بہت ہی مشکل ہیں جب کوئ انسان ان کا عادی ہو جاتا ہے تو باقی عبادات اس کے لیے آسان ہو جاتی ہیں۔
جہاد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو دین کی سب سے بلند چوٹی قرار دیا۔ سنام اونٹ کی کوہان کو کہتے ہیں اور پہاڑ کی چوٹی کو بھی۔ ذرہ وہ کے معنی ہیں یعنی بلند ترین جگہ جہاد تمام اسلامی عبادات میں مشکل ترین عبادت ہے۔ اس لیے گویا جہاد کرنے والا دین کی بلندی کو پا لیتا ہے۔ جہاد جہد سے ماخز ہے جس کا معنی ہے کوشش، جدوجہد لیکن اسلامی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جنگ کرنے جو جہاد کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کی بڑی فضیلت وارد ہوئ ہے۔ قرآن مجید میں ہے اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے ان کی جانیں اور مال اس بات کے عوض خرید لیے ہیں کہ انھیں جنت ملے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ " اللہ کی راہ میں ایک دن محاذ جنگ کرنا دنیا مافیہا سے افضل ہے۔" 
"اللہ کی راہ میں جس نے زخم اٹھایا قیامت کے دن وہ اس زخم کے ساتھ اس طرح آئے گا کہ اس زخم سے مشک کی خوشبو مہکتی ہو گی۔" ایک اور حدیث میں ہے۔ " جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے کھلتے ہیں۔" (ریاض الصالحین، باب الجہاد)
غرض کہ اسی قسم کی سینکڑوں احادیث ہیں۔ جن میں جہاد کی فضیلت کا تزکرہ ہے۔
حفاظت زبان
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے آخر میں فرمایا " کیا آپ کو اس چیز کے متعلق نہ بتاؤں جس پر ان سب کا دارومدار ہے۔ " پھر فرمایا کہ " زبان کو قابو میں رکھو۔ " حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے سوال پر کہ آیا زبان سے کی جانے والی باتوں پر بھی ہمارا مواخزہ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ قیامت کے دن لوگوں کو جہنم میں ان کی زبان کے نتائج ہی تو منہ کے بل گرائیں گے۔ جو آدمی زبان کو قابو میں نہیں رکھتا اور اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے وہ اپنے لیے آگ میں گرائے جانے کا سامان مہیا کرتا ہے۔ زبان سے غیبت، بہتان تراشی، جھوٹی گواہی، گالی گلوچ، کلمات کفریہ وغیرہ سرزد ہوتے ہیں اور یہ ہی چیزیں انسان کے لیے نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی عزاب کا موجب بن جاتی ہیں۔
Writer:ShoaibKamboh

حلال،حرام اور مشتبھات ‏کے ‏بارے ‏میں ‏اسلام ‏کیا ‏کہتا ‏ہے؟

حلال، حرام اور مشتبہات



عن ابی عبداللہ النعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما قالا سمعت رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان الحلال بین وان الحرام بین و ینھما امور مشتبہات لا یعلمھن کثیر من الناس فمن اتقے الشبھات فقد اسبرا لدینہ وعرضہ ومن وقع فی الشبھات وقعہ فی الحرام کالراعی یرعی ثول الحمی یو شک ان یرتع فیہ الا وان لکل ملک حمی وان حمی اللہ محارمہ الا وان فی الجسد مضغتا اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی امقلب۔(بخاری-مسلم)
-:ترجمہ
ابو عبداللہ بن بشیر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے، انھوں نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا یقیناً حلال واضح ہے اور یقیناً حرام بھی واضح ہے اور دونوں کے درمیان کچھ باتیں مشتبہ ہیں کہ نہیں جانتے انھیں بہت سے لوگ تو جو شخص شبہات سے بچا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو سلامت رکھا اور جو شخص شبہات میں جا پڑا وہ بالآخر حرام میں پڑ گیا جیسے ایک چرواہا جو ممنوعہ چراگاہ کے آس پاس مویشی چراتا ہے قریب ہے کہ اس میں چرانے لگے آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور خبر دار اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور آگاہ رہو یقیناً جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے خبر دار! اور وہ دل ہی ہے (اسے امام بخاری-مسلم نے روایت کیا ہے)۔
حلال و حرام
حرام اور حلال شریعت اسلامیہ کی مشہور اصطلاحیں ہیں۔ اور حرام اشیاء وہ ہیں جن کے ممنوع ہونے پر قرآن و سنت میں ذکر موجود ہے جیسے شراب و جوابازی، چور ڈاکہ وغیرہ اور حلال چیزیں وہ ہیں جن کے جائز ہونے کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہو یا اس کے جائز ہونے پر کوئ دلیل قائم ہو جائے جیسے نکاح، طلاق اور دین کے دوسرے احکام وغیرہ۔
حدیث کے پہلے حصے میں اس بات کی وضاحت کی گئ ہے کہ حلال و حرام اکثر لوگوں کے علم میں ہوتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ ایسے امور ہوتے ہیں جن کے حرام اور حلال ہونے میں شبہ ہوتا ہے اور اکثر لوگ اسی شک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں کر گزرتے ہیں۔ آگے چل کر ایک وقت وہ بھی آجاتا ہے جبکہ انسان کا نفس امارہ اسے حرام کی سرحد میں لے جاتا ہے اور اس سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ جوا کھیلنا حرام ہے لیکن جواریوں کے ساتھ بیٹھنا، ان کے ساتھ دوستی یا جوئے کی محفلوں میں جانا وغیرہ  ایسی چیزیں ہیں کہ اکثر لوگ ان کے بارے میں نہیں جانتے کہ حرام ہیں یا حلال۔ پس وہ حرام کی طرف انھی مشتبہ باتوں میں پڑنے کی وجہ سے چلے جاتے ہیں۔ 
شک و شبہ والی چیزوں سے بچنے کی تاکید
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں جو شک و شبہ والی باتوں سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس بارے میں کئ ارشادات میں وضاحت فرمائی
الاثم ماحات فی صدرک
ترجمہ:
گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے۔
دوسری حدیث میں فرمایا " جو چیز تجھے شک ڈالتی ہے اسے چھوڑ دے اور اس بیز کی طرف مائل ہو جو تجھے شک میں نہ ڈالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خوبصورت مثال سے یہ بات واضح کی کہ کس طرح مشتبہ باتیں حرام کے لیے راستے ہموار کرتی ہیں فرمایا ایک چرواہا اپنا ریوڑ ممنوعہ چراگاہ کے قریب لے جاتا ہے اور چراتا ہے سس بھروسے سے پر کہ وہ جانوروں کو نگاہ رکھے ہوئے ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے تھوڑی سی کوتاہی ہو اور ریوڑ ممنوعہ علاقے میں جا پہنچے ۔ لہزا اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے قریب لے جانے والے اسباب سے بھی دور رہنا چاہیے تاکہ اس بات کا خدشہ ہی نہ رہے کہ ہمارا نفس تھوری سی بے احتیاطی کی وجہ سے ہمیں حرام میں مبتلا کر دے۔
دل کا بگاڑ پورے جسم کا بگاڑ
حدیث کے آخر میں دل کو درست کرنے کی طرف خاص توجہ مبزول کرائ گئ ہے۔ کیونکہ دل تمام خیالات کا مرکز ہے۔ اگر وہ درست ہے تو جسم کے تمام اعمال درست ہیں اور اگر اس میں خرابی ہے تو سارا بدن خراب ہے۔ اس کو حدیث میں یوں بیان کیا ہے
ترجمہ 
"کسی کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل درست نہ ہو۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے 
"اے اللہ میں آپ سے تندرست دل کا طالب ہوں"۔
قرآن مجید میں ہے کہ قیامت کے دن مال و اولاد کسی کام نہیں آئیں گے۔ ہاں وہی فائدے میں رہے گا جو قلب سلیم لے کر حاضر بارگاہ خداوندی ہوگا۔
Written By:Shoaib Kamboh

‎کیا ‏اسلام ‏میں ‏کسی ‏کو ‏نقصان ‏ ‏پہنچانے ‏کی ‏اجازت ‏ہے؟

حدیث ترجمہ
ابو سعید بن مالک بن سنان خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ (پہل کر کے) ضرر دینا اور نہ جواب میں ضرر دینا جائز ہے۔ (یہ حدیث حسن ہے اسے ابن ماجہ اور دار قطنی وغیرہ نے مسند روایت کیا ہے).
تشریح مطالب
معاشرتی زندگی کااہم اصول
اس حدیث میں اسلام کی معاشرتی زندگی کے ایک اہم اصول کی طرف توجہ دلائی گئ ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ ذاتی مفاد کے لیے اور دنیاوی اغراض کے لیے کسی کو نقصان دینے سے اجتناب کیا جائے۔ اگر کسی نے پہل کر کے تمہیں تکلیف پہنچائ ہو تو بھی عفو درگذر سے کام لے کر اسے معاف کر دو۔ اگر لاضرر کا معنی نقصان اٹھانا لیا جائے تو پھر حدیث کا مفہوم یہ ہو گا کہ اگر کوئ خواہ مخواہ تمہیں نقصان دینے کے درپے ہو اور وبال جان بنا ہو تو اس کا فوری طور پر ازالہ کرو کیونکہ یہ بھی اسلامی زندگی کا اصول ہے کہ شر پسندوں کی حوصلہ افزائی نہ کرو۔ قرآن مجید کی سورت البقرہ آیت 194 میں ہے
ترجمہ
"اگر کسی نے تم پر زیاتی کی تو تم بھی اس پر اسی قدر زیادتی کرو جس قدر اس نے کی۔"
بیشک دوسروں کو معاف کرنا ایک پسندیدہ فعل ہے لیکن اسلام کسی سے مرعوب ہو کر زندگی گزارنے کو بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ اس لیے قصاص یا بدلہ لینے کی اجازت دی گئ ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ البقرہ 179 میں ہے کہ " اے عقلمندو! قصاص میں تمہارے لیے زندگی کا سامان ہے۔"
اس حدیث سے یہ مفہوم بھی اخز ہوتا ہے کہ اگر کوئ دشمن اسلامی ملک سے چھیڑ چھاڑ کرے تو اس کا جواب سختی سے دینا چاہیے اور اسے شرارتوں سے باز رکھنے کے لیے قوت استعمال کرنی چاہیے کیونکہ لا ضرفی السلام اسلام میں کسی کو نقصان برداشت کرتے رہنا جائز نہیں۔
لاضرر یعنی انتقام کے طور پر کسی کو نقصان نہیں دینا چاہیے۔ اس سے یہ مفہوم اخز ہوتا ہے کہ اگر کوئ کسی کو اس کے جرم کی جائز سزا قانون کے ذریعے مل چکی ہو تو مزید انتقام لینے اور انفرادی طور پر ضرر پہنچانے کی اجازت نہیں۔ خلاصہ یہ کہ نہ خود تکلیف اٹھاؤ اور نہ ہی دوسروں کے لیے وبال جان بنو م، اسلام ہمیں اس اصول کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
Writer: Shoaib Kamboh

مشکوک چیزوں سے پرہیز ‎اسلام ‏میں

مشکوک چیزوں سے پرہیز


عن ابی محمد الحسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھما سبط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وریحانتہ قالا حفظت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دع ما یریبک الی مالا یریبک وقال حدیث حسن صحیح۔
ترجمہ
ابو محمد حسن بن علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور خوشبودار سے روایت ہے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث یاد کی کہ جو بات تجھے شک میں ڈال دے اسے چھوڑ دے اور شک میں نہ ڈالے اسے اختیار کرو ترمزی اسے نسائ اور ترمزی نے روایت کیا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔