Knowledge Base

-->

Sikhism Religion History, Origin,Tehreek-e-Khalistan All In Urdu ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎(‎سکھ ‏ازم)

سکھ ازم 

سکھ کی تعریف:- "سکھ"  پنجابی زبان کا لفظ ہے اور سنسکرت سے بنا ہے اور اس کا مطلب ہے سیکھنے والا ۔۔ بعض کے بقول "سکھ" کے معنی شاگرد یا مرید کے ہیں۔اصطلاح میں ہر وہ شخص سکھ کہلاتا ہے جو اپنے آپ کو سکھ کہے اور دس گروؤں کا شاگرد مانے اور ان کی تعلیمات اور ملفوظات پر ایمان رکھے اور اس پر عمل کرے۔
سکھ مت کا پس منظر:-سکھ ازم ایک غیر سامی اور آریائ مزہب ہے۔ اگرچہ یہ دنیا کے بڑے مزاہب میں تو شامل نہیں ہوتا مگر یہ مزہب ہندومت سے نکلنے والی شاخ ہے۔ سکھ مت دنیا کے جدید ترین مزاہب میں سے ایک ہے۔ سکھ مت ہندوستان میں ہمیشہ اقلیت کی حیثیت سے رہا ہے۔ موجودہ دور میں اس کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کا مسکن پاکستان اور شمالی بھارت کا وہ علاقہ ہے جس کو پنجاب بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا آغاز سولہویں صدی میں ہوا۔ یہ بنیادی طور پر دو مذہب کا مجموعہ ہے۔ کچھ لوگ اسے الگ ایک مزہب نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک یہ مزہب کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ کیونکہ اس میں نہ عقائد کی تفصیل ہے اور نہ معاملات کی تشریح۔ اس لیے وہ اسے کوئ باقاعدہ مستقل مزہب شمار نہیں کرتے بلکہ وہ اسے ہندومت کی ایک اصلاحی تحریک قرار دیتے ہیں۔ جو ہندومت میں اصلاح چاہتا ہے۔ البتہ یہ مذہب دین اسلام کے چند عناصر کی بھی تبلیغ کرتا نظر آتا ہے اس لیے اپنی بقاء کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
سکھ مت میں داخل کا طریقہ:-
کوئ شخص سکھ خاندان میں پیدا ہو کر سکھ نہیں بنتا بلکہ پختہ عمر میں پاہل لینے کے بعد سکھوں میں شامل ہوتا ہے۔ اس رسم میں میٹھے پانی کے پیالے میں کرپان پھیری جاتی ہے اور نئے سکھ کو عقیدے کی سچائیاں اور ممنوعات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس پر اس پانی کے چھینٹے مارے جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرد مزہب میں شامل ہوتا ہے۔
سکھ ہونے کی شرائط:-
1:- ایک خدا کو ماننا
2:- 10 گرووں کو ماننا جو گرو نانک سے گورو گوبند سنگھ تک ہیں۔
3:- گرگرنتھ صاحب، سکھوں کی مقدس کتاب کو ماننا۔
4:- 10 گروؤں کی تعلیمات کو ماننا
5:- ایک ایماندارانہ زندگی گزارنا، ظلم سے باز رہنا اور نیک لوگوں کی عزت کرنا۔
سکھ مت کے عناصر دین:-
اعتقادات:-
1) ایمان باللہ
 2) ایمان بالرسول
 3) ایمان بالآخرت
عبادات:-
1) بدنی عبادات
2)مالی عبادات
3) مالی و بدنی عبادات
4) صوم و صلوٰۃ
5) زکوٰۃ
6) حج
اعتقادات:-
توحید:-
سکھوں کی مزہبی کتاب گرنتھ صاحب میں "مول منتر" کلام کو ان کے تمام کلام میں سب سے مقدس سمجھا جاتا ہے۔ جوکہ ان کا سب سے پہلا شاعری میں اظہار کا کلام تھا۔ جو انہوں نے سلطان پور کے قیام کے بعد کہا تھا اس میں بابا گرو نانک نے بڑی جامعیت سے ذات خداوندی کا تصور پیش کیا۔ انہوں نے بت پرستی کی سخت مخالفت کی۔ گرونانک کی رب باری تعالیٰ کے بارے میں رائے کچھ یوں تھی: "کہ وہ نہ تو کسی شخصیت کا مالک ہے اور نہ ہی کسی صفت کا مالک ہے۔ وہ اکیلا ہے جو ناقابل تقسیم ہے۔ وہ زمان اور مکان سے ماورا ہے۔ وہ ایسا آزاد ہے جو ہر شے میں سمایا ہوا ہے۔"وہ کہتے کہ
اگرچہ اس کی تعریف کرنا ممکن نہیں لیکن پھر بھی اسے کسی نام سے یاد تو کرنا ضروری ہے۔ اس لیے آپ واضح تور پر خدا کے نام کا زکر کرتے تھے "وہ اتار اور حلول کے عقیدے کے منکر تھے۔
رسالت:-
نعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم:
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے بارے میں گرونانک لکھتے ہیں:
کیتھے نور محمدی ڈیتھے نبی رسول
نانک قدرت دیکھ محر خودی گئ سب بھول
تمام انبیاء کے نور کا، نور محمدی سے ظہور ہوا۔
نانک خدا کی یہ قدرت دیکھ کر اپنی خودی بھول گیا۔
اٹھے پہر بھوندا پھرے کھاون سنڑرے رسول
دوزخ پوندا کیوں رہے جال چت نہ ہوئے رسول
جن لوگوں کے دلوں میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت اور محبت نہ ہوگی وہ اس دنیا میں بھی بھٹکتے پھریں گے اور مرنے کے بعد ان کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ دنیا کی نجات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے ہی وابستہ ہے۔
ہندو کہن ناپاک ہے دوزخ سولی
کہ دو اللہ اور رسول کو اور نہ بوجھو کوئ
ہندو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ناپاک الفاظ بکتے ہیں۔ وہ یقیناً جہنمی ہیں۔ سچے دل سے تصدیق کرو اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں۔ اس کے سوا کچھ نہ پوجھو۔

آخرت

پل صراط: گرو نانک پل صراط کے بارے میں لکھتے ہیں: پل صراط کا راستہ بڑا کھٹن ہے۔ وہاں کوئی کسی کا ساتھ نہ دے گا۔ ہر ایک کو اکیلا گزرنا ہو گا۔

 اس طرح ایک اور جگہ آتا ہے۔ میں صراط بال سے باریک ہے۔ کیا اس پر چلنے کی مصیبت کے بارے میں نے تو کچھ سنتا نہیں۔ بابا فرید بھی کہتے ہیں کہ

 ظالم خود کو اپنے ہاتھوں برباد نہ کر۔

عبارات

نماز:-

گرونانک نماز کے بارے میں اپنے خیالات ان الفاظ میں پیش کرتا ہے۔

فریدا بے نماز کیتا۔
ایہہ نہ بھلی ریت

کبھی چل نہ آیا۔

پنجے وقت مسیت۔

اٹھ فرید اوضوساج۔

صبح نماز گزار۔

جو سر سائیں نہ ہنوئیں۔ 

سوسر کپ اتار۔

جو سرسائی نہ ہوئیں۔

سوسرکیجیئے کاٹیں۔

کنے ہیٹھ جلائیے۔

بالن سنرڈتے تھائیں

بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اے بے نمازی کتے! تیرا یہ طریق پسندیدہ نہیں ہے کہ کبھی بھی پانچ وقت چل کر نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں نہیں جاتا۔ اے فرید صبح اٹھ کر وضو کرو اور نماز پڑھو۔ جو سر خدا تعالی کے حضور نہیں جاتا اسے جسم سے الگ کر دو۔ جو سر خدا تعالی کے حضور نہیں جھکتا وہ کسی کام کا! وہ تو بے کار ہے۔ ایسے سر کوچولھے میں ہنڈیا کے نیچے ایندھن کی طرح جھونک دو۔

اسی طرح ایک جگہ آتا ہے!

جمع کر نام دی پنج نماز گزار

باجھوں یاد خدائے دلے لہو سیں بہت خوار

پانچوں نمازیں باجماعت پڑھا کر، اگر تو نے اس طرح یاد خداسے غفلت کی تو بہت ذلیل ہو گا۔

زکوة

 بابا گرو نانک زکوۃ کے بارے کہتے ہیں:

لعنت برسے نت نہاں جو زکوٰۃ نہ کڈھدے مال

دھکا  پونداغیب داہوند اسب زوال

ان پر اللہ تعالی کی لعنت جو اپنے مال سے زکوۃ نہیں نکالتے ایسوں پر اچانک غیب سے عذاب آتا ہے اور سارا مال و دولت ختم ہو جاتا ہے۔روزه:-

روزے کے بارے میں گرو نانک کہتے ہیں:

تونے تیسں روزے رکھے اور پانچ نمازیں ساتھ پڑھیں لیکن دیکھنا جس کا دوست شیطان ہے۔ وہ کہیں سارے اعمال کو ہی ضائع نہ کر دے۔ اسی طرح کے کتب میں صاف لکھا ہے کہ گرونانک کی دو سال مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ٹھہرے تھے اور گروجی کا اکثر وقت روزه داری ہی میں گزرتا نیز سکھ کتب سے یہ بھی ثابت ہے کہ گروجی نے اوروں کو بھی روزہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔

حج:-

آخر کار گرونانک اسلام کی طرف مائل ہوئے اور مزارات پر جانا شروع ہو گئے اور پھر یہ تڑپ اتنی بڑھی کہ دل میں آرزوئے حج پید اہوئی۔ جیسا کہ جہنم ساکھوں میں ایک ان کا قول موجود ہے۔ "مردانہ"ان حاجیوں کو جانے دو۔ اگر ہماری قسمت میں حج کعبہ ہے تو ہم بھی پہنچ جائیں گے۔ مردانہ یہ راہ ایسی ہے کہ اگر مہر، محبت خدمت کرتے جائیں تو فیض حاصل ہوتا ہے اور اگر ہنسی مذاق کرتے جائیں تو حاجی نہیں بن سکتے۔

آخر جب یہ عزم بالجزم بن گیا تو ایک دن بابا جی نے مردانہ سے کہا کہ چل ہم بھی دیدار اور حج مکہ کریں" گورونانک جی نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ایک سال تک قیام کیا تھا۔

قرآن مجید

قرآن مجید کلام الہی ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا سر چشمہ ہے۔ حیات اسلامی دستور ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا معجزہ ہے جس کو آج تک کوئ رد نہیں کرسکا۔ چیلنج کے باوجود اس کے مقابلے میں کوئ آج تک کچھ نہیں بنا سکا ہے۔ گرونانک اس کی حقانیت و سچائ سے متاثر ہو کر لکھتے ہیں: کل جنگ کے زمانہ میں صرف قرآن شریفہی منظور شدہ کتاب ہے دوسری تمام کتابیں منسوخ ہو گئیں ہیں ۔ اب اللہ تعالی کی صفت رحمانی جلوہ گر ہے۔

اخلاقیات

جواں مردی:

اس تمام کے باوجود ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اپنی ذات کے فرائض ضروری ہیں۔ جب تک کہ انسان اپنی دنیاوی زندگی میں عشق الٰہی میں کمال نہ حاصل کر لے۔ اس وقت تک وہ بار با اس دنیا میں مختلف شکلوں میں جنم لیتا رہے گا۔ جن کی تعداد چوراسی  لاکھ تک بتائ جاتی ہے۔

اس دوران ایک بار ضرور ایسانادر موقع ملتا ہے جس میں وہ عشق الہی میں کمال حاصل کر لیتا ہے۔ اور یہ صرف انسان کی صورت میں پیدا ہو کر ہی ممکن ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے چھ طریقے سے عشق حقیقی کو پایا تو انہیں 84 لاکھ مختلف زندگیوں سے گزر کر ایک طویل مدت کے بعد یہ موقع ملے گا۔ 

انا کی نفی:

 گرونانک کے نزدیک خدانک پینے میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی امین " میں " ہے۔ ان کے نزدیک انسان اس میں " کی حقیقت کو سمجھ جائے تو اس کی نفی کر کے اپنے مالک حقیقی سے جڑ سکتا ہے۔ جیسا کہ آپ لکھتے ہیں:۔ اگر انسان اس "میں" کی حقیقت کو سمجھ لے تو اس کو خدا کا دروازہ مل جائے۔ انسان معرفت کے بغیر فضول کی بحث میں پڑا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گرو نانک نے بعض دوسری نفسانی بیماریوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کے خیال میں جب تک انسان ان بیماریوں سے پاک نہ ہو اس وقت تک وہ اپنے رب کو نہیں پاسکتا۔ جیسے کہ وہ اپنی تبلیغ میں کہتے تھے خواہشات ، لا ، دنیا سے تعلق اور غصہ و غیرہ سے انسان فلاح نہیں حاصل کر سکتا۔

گرونانککےتبلیغی نکات:-

گرونانک صاحب کی تعلیمات سے ایک چیز جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ آپ کوئی مذہبی مفکر یا فلسفی نہیں تھے۔ بلکہ آپکا سارا زور عشق الہی اور عرفان الہی کی تلقین پر ہی رہا ہے۔ گرونانک کی تبلیغ کے اہم نکات درج ذیل ہوتے تھے

1۔ گرو نانک نیکی کی دعوت دیتے رہے۔

2- برائی سے روکتے تھے۔

3- ریاکاری سے روکتے تھے۔

4۔ خودغرضی سے روکتے تھے۔

5۔ دنیاداری سے روکتے رہے۔

6- جھوٹ کے خلاف تبلیغ کرتے رہے۔

7- تمام کو اللہ کے ہاں حساب دینا ہے۔

8- نجات نیک عمل سے ہوگی۔

9- حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت پڑھتے تھے۔

گور نانک کی کرامات:-

اگرچہ بابا گرو نانک نے اپنی پوری زندگی میں بھی کبھی کرامت دیکھانے کی بات نہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو عام انسان اور گنہگار ہونے کا اعتراف کرتے تھے۔ مگر اس کے باوجود پھر بھی ان سے کچھ کرامات کو منسوب کیا جاتا ہے۔

1- کالے ناگ کا چہرے پر سایہ کرنا

نوجوانی کے ایام میں اپنے مویشیوں کو کھیتوں میں چرارہے تھے۔ بڑی سخت دھوپ اور گرمی کے دن تھے۔ بابا نانک دھوپ سے بچنے کے لیے ایک درخت کے سائے کے نیچے تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئے اور نیند آگئی ۔ تاہم سورج کی کچھ کرنیں آپ کے چہرے پر پڑرہی تھیں، پاس ہی ایک کالا ناگجس نے آپ کے چہرے پر سایہ کر رکھا تھا اپنے منہ کی کھال سے۔ یہ سارا منظر تلونڈی کے سردار راۓ صاحب نے دیکھا تو فورا گھر واپس آ کر نانک کے والدین کو یہ خوشخبری سنائی کہ آپ کا بیٹا عظیم انسان بنے گا۔ لیکن ان کے والدین نے کہا خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

2- آب حیات:- 

ایک دن نانک صاحب کو سخت پیاس لگی تو انہوں نے گاؤں کے قریب تالاب سے پانی لانے کے لیے ایک چرواہے سے کہا کہ جاو تالاب سے پانی لاؤ۔ تو اس    نے جواب دیا حضور میں نے وہاں گیا تھا تالاب خشک تھا اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا۔ تو بابا گرونانک نے نہیں کہا جا کر دیکھو پانی اس میں ہے؟ جب وہ چرواہا تالاب پر آیا تو دیکھ کر حیران ہو گیا کہ واقعی تالاب پانی سے بھرا ہوا ہے ۔ حالانکہ صبح سویرے وہ یہاں سے گزرا تھا تو تالاب میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔ آج بھی یہ تالاب امرت سر میں موجود ہے۔ جس کو آب حیات کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔

3-پنجہ صاحب

کا بل قندھار جاتے ہوئے راستے میں انہوں نے ایک بڑی چٹان جو کہ گررہی تھی اسے گرنے سے روک دیا تھا۔ اس پر آپ کے پنجہ کا نشان آج بھی موجود ہے۔ اس مقام کو “ پنجہ صاحب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

4 انتقال کے بعد جسم کا غیب ہو جاتا

آپ کی وفات کے بعد ہندو اور مسلمانوں میں سخت تنازع ہوا۔ ہندوؤں کا کہنا تھا کہ نانک ہندوؤں کے گھر پیدا ہوا ہے لہذا ہندو ہے اور ہم اس کے جسد خاکی کو جلائیں گے، جبکہ مسلمان اسے خدا پرست اور خداشناس سمجھتے تھے وہ اسے دفن کرنا چاہتے تھے۔ کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تو دونوں طرف سے تلواریں نکل آئیں ، آخر کچھ لوگوں نے فیصلہ دیا کہ نانک کے جسد خاکی کو نہ جلایا جائے اور نہ ہی دفن کیا جائے بلکہ اسے بعد کفنانے اور خوشبو لگاکے راوی میں بہا دیا جائے۔ مسلمان اس پر راضی نہ ہوئے اور ہلہ بول کر اندر جاگھسے ، جہاں پر نانک کا جسد خاکی پڑ اہوا تھا۔ اندر جا کر چادر ہٹائی تو اس میں بابا نانک کی لاش غائب تھی اور چند پھول چادر کے نیچے سے بر آمد ہوئے، خیال ظاہر کیا گیا کہ شاید کوئی نانک کی لاش کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ مسلمانوں نےچاہا کہ اس چادر اور پھولوں کو لے جا کر دفن کر دیا جائے مگر ہندو بھی تیزی سے آگے بڑھے اور انہوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے آدھی چادر کھینچ لی۔ سو مسلمانوں نے آدھی چادر دفن کر دی اور ہندوؤں نے اسے جلاڈالا۔ بعد ازاں سکھوں نے کر تار پور میں ان کی یاد میں ایک مقبرہ تعمیر کیا جہاں ہر سال سکھ بڑی تعداد میں اپنی مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں۔

"پانچ" ک:-

سکھ مذہب میں ہر سکھ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی شناخت کے لیے پانچ چیزوں کو اپنائے یا اپنے پاس رکھے:


 

1-کیش: بال نہ کاٹے جائیں کیونکہ تمام گرو بھی بال نہیں کاٹتے تھے۔

2- کنگھا: سر کے بالوں کو ہموار اور صاف رکھنے کے لیے۔

3-کڑا: اسٹیل یا دھات کی موٹی چوڑی جو قوت کے لیے پہنی جاتی ہے۔

4- کرپان: خنجر جو اپنے دفاع کے لیے رکھاجاتا ہے۔

5-کچھا: پھرتی اور چستی کے لیے پہناجانے والا زیر جامہ جس کی لمبائی گھٹنوں تک ہوتی ہے۔

جدید سکھ مت

اگرچہ دنیا کے مختلف ممالک میں سکھ حضرات موجود ہیں ۔ البتہ جدید سکھ مت کے پیرو کار مرکزی طور پر ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں اہم فرقے یہ ہیں۔ ہر فرقہ گرو نانک کی تعلیمات کو قبول کرتا ہے۔ گرنتھ صاحب کو مقدس مذہبی کتاب مانتا ہے۔ اور دس گروؤں کو الہام یافتہ تصور کرتا ہے۔ سکھ مت مختلف فرقوں میں منقسم ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

ا۔ اداسی فرقہ:

ان کو "نانک پترا" کہتے ہیں ۔ یہ بنیادی طور پر مقدس افراد کا فرقہ ہے۔ انکا جد امجد گرو نانک کا بڑا بیٹا تھا۔ یہ گرو گوبند کی گرنتھ کو مسترد کرتے ہیں۔ جبکہ گرو نانک کے آدھے حصے کی گرنتھ کو مانتے ہیں۔ یہ حضرات ہندو مت، بدھ مت، جین مت، کے کئی قوائد و اصول پر عمل پیرا ہیں۔ یہ کھردرے پیلے کپڑے پہنتے ہیں۔ ان کے پاس صرف ایک برتن کشکول ہو تا ہے۔ یہ سرگرم مبلغ ہوتے ہیں۔ گھوم پھر کر اپنے نظریات و عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اور اپنے مذہب سے دوسروں کو متعارف کراتے ہیں۔ یہ لوگ رہبانیت پسند ہوتے ہیں۔ اداسی کا مطلب ہی تارک دنیا ہے۔

2۔ سہج دھاری سکھ:-

یہ دوسرا فرقہ ہے ۔ یہ جارحیت پسندی کو مسترد کرتے ہیں ۔ جو اب سکھ مذہب کی پہچان بن چکی ہے۔ یہ داڑھی منڈواتے ہیں۔ انکا دوسرا نام " نانک پنتھی"بھی ہے۔

3- نامداری سنگھ سکھ:-

یہ تیسرا فرقہ ہے۔ جو عمومآ سکھ مت کے پیرو کاروں پر بولا جاتا ہے۔ اس فرقہ کی ابتداء بھائی رام سنگھ نے کی۔ جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں سپاہی کی حیثیت سے ملازم ہوا۔ یہ مذہبی مزاج کا آدمی تھا۔ اس کے پیرو کار  بابا بالک رام کو گیارہویں اور اس کو بارہویں گرو سمجھتے ہیں۔ یہ غیر نامداری سکھوں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھاتے۔

4-اکالی فرقہ

" اکالی" کا معنی "اللہ" کے ہیں۔ یعنی خدا کی پوجا کرنے والا فرقہ یہ لوگ انتہائی جنگجو ہوتے ہیں۔ اور دوسرے فرقوں کی بانسبت زیادہ کڑے عقائد کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بندہ پنتھی فرقہ، مذہبی فرقہ اور امداس فرقہ بھی ہیں۔

سکھ مت کی مذہبی کتاب اور عبادت گاہ 

سکھ مت ایک توحیدی مذہب ہے۔ اس مذہب کے پیروکاروں کو سکھ کہا جاتا ہے۔ سکھوں کی مذہبی کتاب شری آوی گرنتھ یا گیان گرو گرنتھ صاحب ہے۔ سکھوں کے مذہبی مقام کو گردوارہ کہتے ہیں۔

گرو گرنتھ صاحب

یہ سکھ مذہب کی مذہبی کتاب ہے۔ گرو نانک نے اپنے فرقہ کے لئے مذہبی نظمیں اور مناجات میں چھوٹی تھیں جن کو سکھوں نے بڑی احتیاط سے محفوظ رکھا۔ دوسرے گرونے گورمکھی پنجابی رسم الخط ایجاد کیا۔ پانچویں گرو نے ان سب کو جمع کر کے ایک کتاب بنادی۔ جس میں کبیر اور پندرہ دیگر رہنماؤں کے اقوال اور گیت شامل ہیں۔ یہ آدی گرنت یا صلی گرنتھ کہلاتی ہے۔ دسویں گرو نے اس میں بہت سانیا اضافہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہو کہ یہ سکھ مذہب کی مقدس کتاب بن گئی۔ مرنے سے پہلے دسویں گرو نے سکھوں سے کہا کہ اب وہ نیا گرونہ مقرر کریں بلکہ گرنتھ کو اپنا گرو قراد دیں۔ اس وقت سے یہ مقدس کتاب گرنتھ صاحب) سکھ فرقہ کا مرکزی اور روحانی سرچشمہ ہے۔ یہ کتاب ساری کی ساری منظوم ہے جس میں گرو نانک اور بابا فرید شکر نج کے علاوہ گرو امر داس، گروار جین، گرو تیغ بہادر اور 25 دوسرے کجھگتوں اور صوفی شاعروں کا کلام شامل ہے۔ گرو ارجن نے ادی گرنتھ کی ترتیب و تدوین کا کام 2004 میں مکمل کیا اور تمام سکھوں کو اس کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی۔

سکھوں کی آبادی:-

 دنیا بھر میں سکھوں کی تعداد 2 کروڑ 30 لاکھ ہے اور اس کا 60 بھارتی صوبہ پنجاب میں رہتے ہیں۔ بھارت کے سابقہ وزیر اعظم منموہن سنگھ بھی ایک سکھ ہیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق، بھارت میں سکھ آبادی 2 08 کروڑ (20.8 ملین) ہے، یہ کل آبادی کا صرف  1.72% ہے بھارت میں کل سکھ آبادی میں سے، 77٪ پنجاب میں رہتے ہیں۔جہاں آبادی کا 58 فی صد سکھ ہیں، بھارتی ریاست پنجاب بھارت کی واحد ریاست ہے جہاں سکھ مت اکثریتی مذہب ہے۔ دوسری ریاستیں جہاں سکھوں کی قابل ذکر آبادی ہے ان میں چندی گڑھ کا لو نی ( 13. 11 %)، نئی دہلی (5. 4%)، ہریانہ ( 4.91%)، اتار کھنڈ ( %2.34)، راجستھان (1.27%)، جموں اور کشمیر (1.87%) اور ہماچل پردیش ( 1. 16%) شامل ہیں۔

گروہر گوبند گرو ارجن دیو کے بعد اس کا بیٹا گرو ہر گوبند (644[ تا606[) اس کا جانشین ہوا۔ یہ سکھ مت کے چھٹے گرو تھے۔ گرو گوبند نے اپنی مسند نشینی کے موقع پر عام اعلان کیا کہ سکھ مذہب میں دین اور سیاست دونوں یک جان ہیں۔ ان کے اس علان کے بعد سکھ مذہب میں سیاست کی بنیاد پڑی۔ اب گرو کا پرانا تصور جو کہ ایک مذہبی راہنما کا تھا تبدیل ہو گیا اور اس پر سیاکی را ہنم کا پہلو غالب آچکا تھا۔ انہوں نے پنجاب کے مخل گورنر کے ساتھ تین اہم جنگیں لڑنی پڑیں جن میں انکا پلہ بھاری تھا۔ انہیں جہانگیر نے گوالیار" کے قلعہ میں کچھ دنوں کے لیے نظر بند کر دیا تھا۔ جہاں سے وہ لاہور کے مشہور صوفی بزرگ میاں میر رحمتہ اللہ تعالی علیہ کی سفارش سے رہائی پا سکے ۔ انہوں نے امرت سر سے اپنی رہائش ختم کر کے شمال مشرق کے پہاڑی علاقے میں ایک باغی راجہ کے پاس اپنے لیے محفوظ ٹھکانہ تلاش کر لیا۔ اور وہیں اپنے آخری ایام گزارے۔

7- گروہری راۓ:-

ساتویں گرو ہری راۓ ( 1661 تا 4664) تھے۔ یہ نرم مزاج اور صلح پسند انسان تھے۔ انہوں نے صرف ایک موقع پر جب شہزادہ داراشکوہ اور نگزیب کی فوجوں سے نیچ کر فرار ہورہا تھا تو انہوں نے اس کی مدد کی تھی اس کے علاوہ انکا کوئی سیاسی اقدام نہیں ہے۔

10- گروہرکشن

آٹھویں گروہ گروہرکشن (1644 تا 4664) تھے۔ یہ گروہری رائے کے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے رام رائے اور نگزیب کے دربار میں مقیم تھے۔ اور اپنے والد سے ناراض تھے اس لیے گروہر کشن کو پانچ سال کی عمر میں اس عہدے پر فائز کیا گیا۔ رام رائے کے کہنے پر اور نگزیب نے انہیں دبلی بلایا۔ جہاں پر چیک کے مرض میں انکا انتقال ہو گیا۔

گروتیغ بہادر:-

 نویں گرو گرو یخ بار (1664 تا2675) تھے۔ جو کہ ایک صلح پسند اور صوفی پند انسان تھے۔ یہ قتل و غارت کی بجائے سخاوت و مهمان نوازی کے نام سے منسوب ہونازیادہ پسند کرتا تھا۔ اور نگزیب نے انہیں دہلی بلوایا اور مسلمان ہونے سے انکار کرنے پر قتل کروایا۔

10۔ گرو گوبند سنگھ

دسویں گروه گرو گوبند سنگھ (1675 تا 708) تھے۔ یہ گرو نانک کے بعد سکھوں کے اہم ترین گور ثابت ہوئے۔ اگر چہ سکھ مت میں تمام گرووں میں باہم کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ گرو تیغ بہادر کے بیٹے تھے۔ انہوں نے سکھوں کو منظم کرنے کے لیے باضابطہ ارادت کا سلسلہ شروع کیا۔ وفاداری کے سخت ترین امتحان کے بعد مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے پانچ سکھوں کو ایک مخصوص رسم "امرت چکھنا" کے ذریعے حلقہ مریدین میں داخل کیا اور انہیں "خالصہ " کا لقب دیا، اس کے بعد اس حلقہ میں عمومی داخلہ ہوا اور ہزاروں سکھ "خالصہ" میں داخل ہوئے۔ اس گرونے شرعی قوانین بھی بنائے۔ ان احکامات میں تمباکو سے اجتناب ، حلال گوشت کی ممانعت، مردوں کے لیے "سنگھ " (شیر) کے نام کا استعمال اور عورتوں کے لیے انگور" (شہزادی کا استعمال لازمی قرار دیا اور پانچ چیزوں کو ہمیشہ اپنے پاس رکھنے کا کہا۔ جن کی ابتدا "ک" سے ہوتی ہے۔

سکھ مت پر اسلام کے اثرات 

1-توحید میں اسلام اور سکھ مت مساوی مذہب:-

 اسلام کی طرح سکھ مت بھی خدائے واحد پر یقین رکھتا ہے اور ذات باری کو ان تمام صفات سے متصف قرار دیتا ہے جن سے اسلام اسے متصف مانتا ہے۔ ڈاکٹر گوپال چندر سنگھ گرو گرنتھ صاحب کے ترجمہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: “ وہ ازلی خالق اور محیط ہے، حسد و نفرت سے دور اور علت العلل ہے، جملہ مخلوقات کا معبود، عادل، رحیم اور کریم ہے، اس نے انسانوں کو ان کے گناہوں پر سزادینے کیلئے نہیں بلکہ اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا ہے ۔ اسلام نے بھی خدا کو ان جملہ صفات سے متصف قرار دیا ہے۔

2-اسلام اور سکھ مت میں نجات کا انحصار: 

سکھ مت میں نجات کا دار و مدار بندگی رب اور اس کے طریقہ کی پیروی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: “اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم لوگ اس کے علاوہ کسی اور کی بندگی نہ کرو" (بنی اسرائیل :32)۔ سورة الذاریات میں ہے : میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی بندگی کیلئے پیدا فرمایا ہے ۔ سورة الاعراف میں شریعت خداوندی کی پیروی کا حکم کیوں دیا گیا ہے: اپنے رب کی جانب سے نازل کی گئی شریعت کی پیروی کرو”. سورة الزمر میں ہے: اس بہتر شریعت کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے” (الزمر:55)۔

3- اسلام اور سکھ مت میں رہبانیت کی مذمت

 سکھ مت رہبانیت کو حرام قرار دیتا ہے اور لوگوں کو حلال رزق کی تلاش پر آمادہ کرتا ہے، مشہور حدیث ہے:" لا ريبانية في الاسلام اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ہے:" اے لوگو جو ایمان لائے ہو ان پاکیزه اموال میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائے ہیں اور ان غلات میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لئے پیدا فرمایا ہے" (البقرہ:267)۔ " پس جب نماز ختم ہو جائے تو تم لوگ زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا رزق تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرو، شاید کہ تم فلاح پاؤ" (الجمعہ :9)۔

4تحریک خالصتان

بھارتی سکھ قوم کی بھارتی پنجاب کو، بھارت سے الگ کر کے ایک آزاد سکھ ملک بنانے کی تحریک ہے۔ سکھ زیادہ تر بھارتی پنجاب میں آباد ہیں اور امرتسر میں ان کا صدر مقام ہے۔ 1980 کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ بھارتی حکومت نے آپریشن بلیو سٹار کرکے اس تحریک کو کچل ڈالا۔ کینیڈا میں مقیم سکھوں پر یہ الزام بھی لگا کہ انہوں نے بھارتی مسافر طیارہ اغوا کر کے تباہ کر دیا۔ د ہشت پر جنگ کے آغاز کے بعد یہ طیارہ واقعہ کینیڈا اور مغربی ابلاغ میں خوب اچھالا گیا جس کی وجہ سے بھارت سے باہر مقیم سکھ اب اس تحریک سے کنی کتراتے ہیں۔

سکھ مت کے مشہور دس گرووں کا مختصر تعارف

1۔ گرونانک

سکھ مت کے بانی گرو نانک نے اپنی مذ ہی زندگی کو باقاعدہ جماعت کی تشکیل کے نظریہ سے نہیں گزارا بلکہ اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں گزارہ اور اس

سے حاصل ہونے والے مشاہدات و طریقے کار کی روشنی میں تبلیغ کے فرائض انجام دے۔ جس کی وجہ سے سکھ مت ابتداء میں ایک تحریک اور پھر بعد میں آنے والے گروہوں نے اس کو ایک مذہب کی شکل دی۔ بعد میں آنے والے گرووں کی سکھ مذہب میں خدمات کا مختصر خلاصہ کچھ یوں ہے:

2- گردان گد

یہ بابا گرونک کے بعد پہلے گرو ہیں۔ ان کو یہ رتبہ حاصل ہے کہ نہیں بابا گرو نانک نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں گرو کے رتبے پر فیض کیا۔ انہوںنے مقامی رسم الخط میں کچھ تبدیلیاں کر کے ایک نیارسم الخط ایجاد کیا۔ اور اس کا نام اگر کھی"رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے گرو نانک کے جملہ کلام کو جو انہوں نے اپنی سیاحت کے دوران جمع کیا تھا اور سنتوں کے کلام کو "گرمی" میں لکھوایا۔ دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ گرونانک کے ایک قریبی ساتھی " بالا" کے ذریعے سے گرو نانک کی سوانح حیات مرتب کرائی۔ جس میں انہوں نے گرونانک کی تعلیمات کو بھی تلخیص کے ساتھ تحریر کیا۔

3- گرامر داس

سکھوں کے تیسرے گرو گرو امر داس" (1574تا1552)تھے۔ گرو انگد نے گرو نانک کے طریقے پر چلتے ہوئے اپنے بیٹوں کی بجائے انہیں منتخب کیا تھا۔ انہوں نے سکھوں کو جو کہ پورے پنجاب میں منتشر تھے۔ پہلی مرتبہ منظم کرنے کے لیے اصلاحات کیں۔ ایسی گرو کے شہنشاہ اکبر کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔

4- گرورام داس

سکھ مت کے چوتھے گرو رام داس (1518 تا574) تھے۔ انہوں نے سکھوں کی شادی اور مرنے کی رسومات ہندومذہب سے الگ متعین کیں۔" ستی" کی رسم کی مخالفت کی اور بیواؤں کی شادی پر زور دیا۔ انہوں نے گرو نانک سے منسوب ایک قدرتی چشمہ پر قائم حوض کو مزید وسعت دے کر ایک تالاب کی شکل دی۔ جس کا نام امرت سر چشمہ آب حیات ) تھا۔ جو بعد میں ایک مقدس مقام بن گیا اور اس کے گرد ایک شہر آباد کیا۔ اور اس شہر کا بھی یہی نام "امرت سر" پڑ گیا۔

5- گرو ارجن دیو

سکھ مت کے پانچویں گرو گرو ارجن دیو (1606 تا 1581) تھے۔ ان کا سکھ مت کو ایک باقاعدہ الگ مستقل مذہب بنانے میں سب سے اہم کردارہے۔ گرو ارجن دیو کا سب سے بڑا کارنامہ "گرنتھ صاحب کا مرتب کروانا ہے۔ جو اس سے پہلے سینه با سینہ چلی آرہی تھی۔ انکا دوسرا کار نامہ" ہری مندر کی تعمیر بھی ہے۔ یہ مندر انہوں نے امرت سر تالاب پر بنوایا۔ جسے اب " در بار صاحب" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ گرو ارجن سنگھ نے سکھوں سے "وس ونتر " یعنی عشره وصول کرنے کا انتظام کیا اور تین شہر "ترن تارن " ، " کر تار پور "، اور " ہر گوبند پور " آباد کئے۔ پھر اس کی بادشاہ وقت جہانگیر سے مخالفت ہوگئی، جہانگیر نے گرو ارجن سنگھ کو قتل کروا دیا اس کا مال و اسباب سب ضبط کر لیا۔

6-گروگوبند:-

 

۔ اسلام اور سکھ مت میں بھیک مانگنے کی مذمت متعدد احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو رزق کے حصول پر اکسایا ہے اور انھیں بھیک مانگے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے منع فرمایا ہے:"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: خدا کی قسمتم میں سے کسی کارتی لے کر نکلنا اور پھر اس کے ذریعہ ایند هنوں کو اپنی پشت پر لاد کر لے آناتا کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے کھانے کا انتظام کرے اور راہ خدا میں صدقہ خیرات کرے زیادہ بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی مال دار شخص کے پاس آکر سوال کرے پس وہ اسے دے یا انکار کر دے، کیونکہ اوپر والاہاتھ نے والے ہاتھ سے بہتر ہے" (متفق علیہ)۔

5- اسلام اور سکھ مت میں مردوزن میں مساوات:

اسلام کی طرح سکھ مت بھی مرد و عورت میں تفریق کا قائل نہیں ہے۔ اس کے نزدیک دونوں نجات پاسکتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا فرمایا ہے اور پھر تمہیں مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹ دیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، یقینا خدا کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والا ہو” (الحجرات:13)۔

6- اسلام اور سکھ مت میں زبان کا تقدس:

 سکھ مت کے نزدیک کوئی زبان مقدس نہیں ہے، الہی سے لیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: "ہم نے کسی بھی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں اپنا نام دے تا کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کی وضاحت کر سکے" (ابراہیم:4)۔

7- عقیدہ رسالت:

 سکھ مت رسالت و نبوت کا قائل اور عقید و او تار کا مخالف ہے۔ آغاز میں سکھ مت کا یہی عقیدہ تھا لیکن رفتہ رفتہ وہ اپنے گردوں کو پوجنے لگے اور ان میں ہی خدا تجھ بیٹھے اور ان کی گفتگو کو مقدس نیز مراقبہ میں ان کی یاد کو افضل عبادت سمجھنے لگے۔

8- دینی کامیابی کی ضمانت ہے:-

 اسلام کی طرح سکھ مت بھی یہ تصور رکھتا ہے کہ خدا کا دین جملہ اقوام کیلئے ہے، کسی گروہ کو خدا کے یہاں مخصوص مقام حاصل نہیں اور نہ ہی مذہبی رسوم کی ادائیگی کی طبقہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ قرآن مجید میں ہے: اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے گزری ہوئی قوموں کو پیدا فرمایا ہے شاید کہ تمہارے اندر خداترسی پیدا ہو” (البقرہ:21)۔

وذہبی کتابوں کا احترام، دونوں مذاہب میں مذہبی کتابوں کی تقدیس و احترام کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ سکھوں کی مقدس کتاب گروگرنتھ صاحب کو وہی شخص اس کے مخصوص مقام سے نکال کر پڑھنے کیلئے لا سکتا ہے جس نے کچھ ہی دیر پہلے عمل کیا ہو نیز اس کی قرأت کے دوران مکمل خاموشی اور سنجیدگی بنائے رکھنا ضروری ہے۔ قرآن مجید کے تعلق سے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:" قرآن مجید کی آیات معزز اوراق میں درج ہیں۔ یہ اوراق انتہائی پاکیزہ اور بلندیوں پر رکھے ہوئے ہیں ، ایسے معززکاتبوں کے ہاتھوں میں ہیں جو انتہائی نیک ہیں" (عبس: 15-13)۔

10- عشر و زکوٰۃ:- دونوں مذاہب میں عشر کا نظام پایا جاتا ہے۔

Writer:-ShoaibKamboh

Imam Ahmad Bin Hanbal R.A Complete Biography ‎امام ‏احمد ‏بن ‏حنبل ‏رحمتہ ‏اللہ ‏علیہ ‏

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ

نام و نسب
آپ کا نام احمد بن محمد بن حنبل، کنیت ابو عبداللہ اور لقب امام اہل السنہ ہے۔ ربیع الاول 164 ہجری میں ولادت ہوئ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ولادین خص عربی تھے۔ ان کا نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک چلا جاتا ہے۔ بچپن ہی سے باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور والدہ نے پرورش کی۔
تحصیل علم
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے بغداد میں نشو نما پائ۔ اس وقت بغداد مرکز خلافت اور علوم و معارف کا گڑھ تھا۔ بہت جلد انھوں نے قرآن مجید حفظ کر لیا۔ جب چودہ سال کے ہوئے تو فن کتابت اور حفظ حدیث میں مشغول ہوگئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے صرف روایت حدیث پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تفقہ فی الدین کی طرف توجہ دی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے بغداد کے تمام شیوخ حدیث سے اکتساب علم کیا۔ بعد ازاں بصرہ اور حجاز کا سفر کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے امام شافعی کی شاگردی حجاز میں اختیار کی۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا امام احمد کا حدیثی اور فقہی ذہن بنانے میں خصوصی دخل تھا۔
تعلیم و تدریس
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے چالیس سال سے قبل تدریس حدیث اور افتاء سے اجتناب کیا۔ 204 ہجری میں تعلیم و تدریس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ مسند درس پر بیٹھنے سے قبل آپ رحمتہ اللہ علیہ کے علم و عمل، تقوی و طہارت کی شہرت عالم اسلام میں ہو بکی تھی۔ لہزا طلب علم اور استفتاء کے لیے کثیر لوگ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آنے لگے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے حلقہ درس میں بیک وقت پانچ پانچ ہزار طلبہ کا ہجوم ہوتا تھا جو طلبہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے صرف حدیث لکھتے ان کی تعداد پانچ فیصد تھی۔
کارنامے
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم کارناموں میں سے دو امتیازی شان رکھتے ہیں
اول یہ کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے قرآن و سنت کی خالص اتباع کا مسلک بڑی شدت سے پیش کیا۔ دوسرے یہ کہ آپ نے ثق گوئ کے لیے جابر سلاطین کی مطلق پرواہ نہیں کی۔ عباسی دور میں معتزلہ نے "خلق قرآن" کا فتنہ اٹھایا اور اہل سنت کی جانب سے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سینہ سپر ہوئے اور عباسی خلفاء کے خلاف صبر واستقامت سے حق کی جنگ لڑی۔ خلیفہ معتصم، مامون اور الواثق کے سامنے ڈٹے رہے۔ جیل، کوڑے، فاقہ کشی اور قید تنہائ ہر قسم کا تشدد برداشت کیا اور صبروثبات کا پہاڑ بنے رہے۔ خلق قرآن کے مسئلہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے قرآن و سنت سے تمسک کا معیار پیش کیا جو دین حق کی بنیاد ہے۔
اساتذہ
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے تقریباً ایک سو اساتذہ سے استفادہ کیا جن میں نمایاں ترین امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ہیثم ہیں۔
وفات
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے 240 ہجری میں بغداد میں وفات پائ۔ پانچ لاکھ لوگوں نے جنازہ میں شرکت کی۔ اس کثرت تعداد سے متاثر ہو کر 20 ہزار غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔
خدمات
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ زندگی بھر سنت اور صحابہ کے متبع رہے۔ ان کا علم و عمل، سیرت و کردار، اخلاق و اطوار صحابہ کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ "مسند امام احمد" آپ کی ممتاز تصنیفی خدمت ہے۔ یہ احادیث کا مجموعہ ہے جس کی جمع و ترتیب میں انھوں نے بڑی محنت کی۔ امام شمس الدین الجزری لکھتے ہیں کہ "امام احمد نے مسند کی جمع و تدوین کاکام 180 ہجری میں شروع کیا، اسے الگ الگ اوراق میں لکھا پھر اسے جدا جدا اجزاء میں تقسیم کیا پھر قبل اس کے یہ آرزو پوری ہو، پیام اجل آ پہنچا۔ مسند امام احمد میں کل تیس ہزار احادیث تھیں۔ امام احمد کے بیٹے عبداللہ نے اس میں دس ہزار کا اضافہ کیا، اس طرح اس میں کل 40 ہزار احادیث ہیں"۔
حنبلی فقہ
ابتداء کی ایک صدی تک حنبلی مذہب عراق تک محدود رہا۔ پھر یہ مصر و شام تک پہنچا لیکن فقہی مسلک کے لحاظ سے اس کی اشاعت بہت کم رہی۔ موجودہ دور میں اس کا طوطی نجدوحجاز میں بولتا ہے۔ موجودہ سعودی حکومت کا یہ سرکاری فقہی مسلک ہے۔
اجتہاد اور فتوی کا طریقہ کار
قرآن و سنت کے نصوص کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ اور اقوال ماخز شریعت ہیں البتہ اگر ان میں اختلاف پایا جائے تو یہ دیکھا جائے گا کہ کونسا قرآن وسنت کے نصوص سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اپنی رائے پر عمل کرنے کی بجائے ضعیف حدیث پر عمل کر لینا زیادہ بہتر ہے۔ ان کے نزدیک کوئ شخص قیاس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ البتہ ان پر اجتہاد و قیاس کی بجائے حدیث کا غلبہ ہے۔
فقہی خصوصیات
اثری فقہ
حنبلی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہ کا رنگ غالب ہے۔ اس لئے ان کی فقہ "اثری فقہ" کہلائ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ستر ہزار مسائل کا جواب"اخبرناوحدثنا" کے الفاظ سے دیا ہے۔
درایت سے زیادہ روایت پر انحصار
اس فقہ میں اجتہاد و قیاس کی نوبت شاذ و نادر ہی آتی ہے۔ درایت سے ذیادہ اس کا مدارروایت پر ہے۔
خواص کی فقہ
حنبلی مسلک اگرچہ عوام میں مقبول نہیں ہوسکا لیکن امام احمد بن حنبل کے شاگردوں میں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ، ابو داؤد جیسے اکابر محدث و فقیہ شامل ہیں جو ان کے فقہی مسلک کے شارح اور ترجمان بنے۔
شرعی حیلوں سے احتراز
اس فقہ میں شرعی احکام کے بارے میں شرعی حیلوں کی سرے سے کوئ گنجائش نہیں۔ اگرچہ رسم و رواج میں احمد بن حنبل تحمل اور کشادہ دلی کے قائل ہیں لیکن مزہبی فرائض میں سخت پابندی کی تلقین فرماتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی آراء کا احترام
حنبلی فقہ میں صحابہ رحمتہ اللہ علیہ کے فتاویٰ اور اجماع کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف رائے کی صورت میں ان کے مدارج کی فضیلت کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ امیر معاویہ رحمتہ اللہ علیہ کے حکومتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں لیکن ذاتی آراء کو مسترد کرتے ہیں۔

Imam Shafi R.A Complete Biography in Urdu ‎امام ‏شافعی ‏رحمتہ ‏اللہ ‏علیہ ‏

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ

ولادت و خاندان
آپ کا نام محمد بن ادریس شافعی، کنیت ابو عبداللہ تھی اور کقب ناصرالسنتہ تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا سن ولادت 150 ہجری ہے۔ اسی سال امام ابو حنیفہ کا انتقال ہوا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مقام ولادت صوبہ عسقلان کا گاؤں غزہ ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نسبی لحاظ سے قریشی، ہاشمی اور مطلبی تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد ماجد ادریس مدینہ منورہ کے قریب ایک قصبہ تبالہ کے ساکن تھے پھر مدینہ منورہ اور وہاں سے عسقلان میں جا کر رہائش پذیر ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد آپ رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش سے قبل وفات پا چکے تھے۔ اس طرح آپ رحمتہ اللہ علیہ نے یتیمی میں آنکھ کھولی۔
حصول علم
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ نے ان کی ایسی عمدہ تربیت کی کہ بچپن میں ہی انھیں علم کا شوق پیدا ہوگیا۔ ذکاوت و ذہانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت تھی۔ سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ والدہ نے دس برس کی عمر میں، حصول علم کے لیے مکہ مکرمہ بھیجا وہاں تین سال میں فقہ اور حدیث کی تکمیل کی پھر مدینہ منورہ امام مالک کی خدمت میں تشریف لے گئے اور ان کی وفات تک برابر ان کے آستانہ علم سے وابستہ رہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے انھیں نصیحت فرمائ تھی کہ
"اے محمد بن ادریس! خدا سے ڈرتے رہنا، عنقریب تمہاری شان بڑی بلند ہو گی۔" 
امام شافعی نے تحصیل علم کے لئے یمن اور عراق کا بھی سفر کیا۔ عراق میں امام بن حسن شیبانی سے عراقی فقہ سیکھی۔ بالآخر مور میں اقامت گزیں ہوگئے اور یہیں 204 ہجری میں وفات پائ۔
دینی و فقہی خدمات
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ لغت، فقہ اور حدیث کے امام تھے۔ زبان دانی اور فصاحت و بلاغت سے غیر معمولی لگاؤ تھا۔ اخبار اور اشعار میں اس قدر کمال حاصل تھا کہ اصمعی جیسا ادیب، امام شافعی کے متعلق کہتا ہے کہ
"اشعار کی تصحیح میں ایک قریشی نوجوان سے کر لیا کرتا ہوں جس کا نام محمد بن ادریس ہے۔"
تصنیفی خدمات
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اصول فقہ پر متعدد کتب لکھ کر اس کے قواعد مرتب کیے۔ فقہ کے دائرہ کو محدود و مضبوط کیا اور فقہ کو قابل بنایا۔ انھوں نے فقہ کے چاروں مصادر سے مسائل کا استنباط کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے چھوٹی بڑی 113 کتب تصنیف کیں جن میں "الرسالہ" اور کتاب الام زیادہ مشہور ہیں۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "الرسالہ" میں اصول فقہ پر کھل کر بحث کی ہے۔ قرآن، حدیث، خبرواحد ، اجماع اور اجتہاد کے موضوع پر مفصل کلام کیا ہے۔ اس طرح انھوں نے کتاب الام پر فقہی مسائل اور احکام جمع کر دیئے ہیں۔ یہ مناظرانہ انداز میں لکھی گئ ہے جو سات جلدوں پر مشتمل ہے۔
ابتلاء و آزمائش
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو بھی امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی طرح حق گوئ پر ابتلا و آزمائش سے گزرنا پڑا۔ آپ یمن میں مقیم تھے کہ عامل یمن نے خلیفہ ہارون الرشید کو امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی شکایت کی کہ وہ آل علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خواب دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ اس نے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کا حکم دیا۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ دور ابتلاء ہمت و صبر سے برداشت کیا اور سلطان جابر کے سامنے بھی کلمہ حق کہنے سے باز نہ آئے۔
اساتذہ
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ کے بہترین اور معروف اور فاضل اساتزہ سے استفادہ کیا۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق، آپ کے اساتذہ میں جو اصحاب فقہ و فتوی تھے صرف ان کی تعداد 19 ہے۔ آپ کے معروف اساتذہ میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ سفیان بن عینہ رحمتہ اللہ علیہ اور مسلم بن خالد زنجی ہیں۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اپنے فقہ کے استاد محمد بن حسن شیبانی کے بڑے مداح ہیں فرماتے ہیں۔
"جس شخص کا فقہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان ہے وہ امام بن حسن ہیں"
تلامزہ
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے تلامزہ کا حلقہ بڑا وسیع ہے ان میں کئ مجتہد اور اصحاب مزاہب ہیں جن میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ داؤد ظاہری رحمتہ اللہ علیہ اور ابن جریر طبری رحمتہ اللہ علیہ زیادہ مشہور ہیں۔
ربیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے ایک وقت میں حدیث و فقہ کی تحصیل کرنے والوں کی سات سو سواریاں کھڑی دیکھی ہیں۔
علمی مقام
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا دینی علوم میں بڑا بلند مقام ہے۔ پندرہ سال کی عمر میں انھیں فتویٰ دینے کی اجازت مل گئ تھی۔ انھوں نے اپنے زمانے کی مروجہ حنفی اور مالکی فقہ پر عبور حاصل کیا۔ ان پر ناقدانہ نظر سے محاکمہ کیا اور اپنا جداگانہ فقہی مسلک اپنایا جسے مصر میں عروج حاصل ہوا۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں 
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ خداوند کریم ہر صدی کے آغاز سے اس امت کے لیے ایسا شخص مبعوث کردے گا جو دین اسلام کو قائم کرنے والا ہو گا۔ اس طرح پہلے شخص حضرت عمر بن عبد العزیز اور دوسرے شخص شافعی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔"
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک "امام شافعی" کا شمار ان فقہائے عظام میں ہے جو لائق اتباع ہیں۔"
امام محمد فرماتے ہیں کہ کوئ ایسا محدث نہیں جس کی گردن پر امام شافعی کا احسان نہ ہو۔"
اجتہاد اور فتوی کا طریقہ
وہ مسائل اخز کرنے کے لیے پہلے قرآن مجید پر نظر ڈالتے ہیں پھر حدیث، پھر اجماع صحابہ پر، ازاں بعد خبر واثد پر۔ جب دو احادیث باہم ٹکراتی ہوں تو اس صحابی کی رائے لیتے جو پہلے ایمان لایا ہو یعنی سابق الایمان ہو۔
خدمات اور فقہ کی خصوصیات
حنفی اور مالکی کے بین بین
یہ مسلک حنفی و مالکی کے بین بین ہے کیونکہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو خاص طور پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور محمد بن الحسن دونوں کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔
ادبی محاسن
قرآن مجید و حدیث کے بعد امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اپنی فقہ میں لغت و ادب کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ان کی فقہی تصانیف،۔ایجاز و اختصار اور فصاحت و بلاغت کا لافانی شاہکار ہیں۔ ان کی تحریر اس زمانے کے تبلیغ ترین انشاء پردازوں سے کم درجہ نہیں رکھتی۔
اختلافی مسائل میں دو اقوال
تقریباً ہر اختلافی مسئلہ میں امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے دو قول ہیں یعنی قدیم اور جدید۔ مصر آنے سے پہلے کے شافعی مزہب کو مزہب قدیم اور مصر آنے کے بعد والے مسلک کو مزہب جدید کہا جاتا ہے۔ مصر میں امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے بہت سے اقوال سے رجوع کر کے جدید رائے قائم کی تھی۔
اہل مکہ کا اجتماعی عمل
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی فقہ میں اہل مکہ کے تعامل کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جس طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ میں اہل مدینہ کے عمل کو لائق توجہ سمجھا گیا ہے۔
استحسان اور مسئلہ
اس مسلک میں استحسان اور مصالح مرسلہ کی نفی کی گئ ہے۔
احادیث پر خصوصی توجہ
احادیث سے استنباط کرتے وقت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ قوانین روایت کا خاص احترام کرتے ہیں اور وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو منشائے ربانی کا نام دیتے ہیں۔ کسی روایت کے راوی ثقہ ہوں تو اسے بہر صورت قیاس پر ترجیح دیتے ہیں۔
اجماع صحابہ
اگر قرآن و حدیث کی نص موجود نہ ہو تو صحابہ رضی اللہ عنہ کے اجماع پر عمل فرماتے ہیں۔
قیاس ماخزفقہ
وہ قیاس کو بھی مخز علم جانتے ہیں۔ اگرچہ ان کی زیادہ توجہ کتاب و سنت کے نصوص پر رہی۔
اکثر شافعی حضرات اشعری ہیں۔
بعض بڑے بڑے ائمہ تصوف بھی شافعی گزرے ہیں۔
مصر میں سلطنت ایوبی میں یہ مسلک حکومت کا۔سرکاری مزہب رہا ہے۔
باطل فرقوں بالخصوص معتزلہ کا رد سب سے زیادہ شوافع نے کیا ہے۔


Imam Malik-bin-Ans R.A Complete Biography in Urdu ‎امام ‏مالک ‏بن ‏انس ‏رحمتہ ‏اللہ ‏علیہ ‏

امام مالک بن انس رحمتہ اللہ علیہ


نام نسب
آپ کا اسم گرامی مالک بن انس اور کنیت ابو عبداللہ تھی۔ آپ کے القاب امام دارالہجرت اور شیخ الکل ہیں۔ آپ مدینہ منورہ میں 93 ہجری میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین یمنی عرب تھے۔ آپ کی تربیت ایسے گھرانے میں ہوئ جو علم حدیث کا مرکز تھا۔ ان کے خاندان میں حدیث و سنت کا تزکرہ رہتا تھا۔ آپ کے دادا امام مالک بن ابی عامر تابعین میں سے بہت بڑے عالم تھے۔ 
حصول علم
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں مدینہ کا شہر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا گہوارہ اور فتاوی کا وطن تھا۔ صف اول کے اہل علم وحابہ رضی اللہ عنہ یہاں موجود تھے۔ وحابہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے شاگرد یہاں رہے یہاں تک کہ امام مالک کا زمانہ آیا۔ امام مالک نے سات سو اساتزہ سے تحصیل علم کیا جن میں 300 تابعین اور 400 تبع تابعین میں سے تھے اس طرح احادیث و فتاویٰ کا علمی ورثہ انھیں ملا۔ علم فقہ میں آپ کے استاد ربیع بن فرخ اور نافع رحمتہ اللہ علیہ مولوی عبداللہ بن عمر تھے۔ اس طرح آپ ایک عظیم محدث، نا مورفقیہ اور جلیل القدر مفتی کے طور پر مشہور ہو گئے حتی کہ ان کا فتوی ضرب المثل بن گیا۔
لا بفتی ومالک فی المدینہ
یعنی امام مالک کے ہوتے ہوئے کوئ دوسرا فتوی دینے کا مجاز نہیں۔
درس حدیث
آپ نے سترہ سال کی عمر میں ہی درس حدیث دینا شروع کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ حدیث کا ںے حد احترام کرتے جب تدریس حدیث کے لئے بیٹھتے تو وضو کرتے، خوشبو لگاتے اور صاف ستھرا لباس پہنتے اور مسند درس پر باوقار رونق افروز ہوتے ۔ جب آپ رحمتہ اللہ علیہ سے اس کی وجہ پوچھی گئ تو فرمایا "میں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم بجا لانا چاہتا ہوں۔"
آپ رحمتہ اللہ علیہ بڑے شوق، انہماک اور عجزوانکساری سے درس دیتے یہاں تک کہ پہلو بھی نہ بدلتے۔ ایک مرتبہ حدیث پڑھا رہے تھے۔ اس دوران بچھو نے سولہ مرتبہ ڈسا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا رنگ زرد پڑ گیا مگر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے درس کا سلسلہ جاری رکھا۔ استفسار پر فرمایا "میں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی بنا پر صبر سے کام لیا۔"
آخر 86 سال کی عمر میں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے 179 ہجری کو مدینہ منورہ میں وفات پائ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی قبر مدینہ کے مشہور قبرستان جنت البقیع میں مرجع خلائق ہے۔ ایک شاعر نے اس موقع پر اپنی عقیدت کا اظہار اس طرح کیا ہے۔"
فخر الائمتہ مالک نعم الامام مالک
مولدہ نجم ھدی وفاتہ فاز مالک
یعنی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اماموں کے لئے سرمایہ افتخار اور بہترین پیشوا ہیں ان کی پیدائش ہدایت کا ستارہ ہے۔
خدمات حدیث
امام مالک بیک وقت محدث بھی تھے اور فقیہ بھی۔ محدثین میں آپ امام المحدثین مشہور تھے آپ کی مشہور سند حدیث مالک عن نافع عن ابن عمر  محدثین کے ہاں سونے کی کڑی سلسلتہ الزہب کہلاتی ہے۔ آپ کی جمع کردہ مجموعہ احادیث "موطا امام مالک" کے نام سے مشہور ہے۔ جو فن حدیث پر سب سے پہلی کتاب ہے۔ یہ کتاب ابواب فقہ کی ترتیب پا تالیف کی گئ ہے۔ امام شافعی رحمتہ اللہ کے قول کے مطابق "کتاب اللہ کے بعد روئے زمین پر اس سے زیادہ صحیح کتاب کوئ اور نہیں۔" مؤطا کی تدوین حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کی ہدایت پر ہوئ۔ اس کتاب میں 1720 احادیث ہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے چالیس سال کی محنت شاقہ سے اسے مرتب کیا۔ امام مالک کی پروقار مجلس درس میں تین عباسی خلفاء ہارون الرشید اور اس کے بیٹے امین اور مامون بحیثیت شاگرد حاضر ہوئے اور ان سے مؤطا پڑھی۔ ہارون کا خیال تھا کہ تمام ممالک اسلامیہ مؤطا کو بطور قانون مملکت نافز کر دیا جائے لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی بے نفسی اور دور اندیشی سے ایسا نہ ہوسکا۔
حق گوئ اور ابتلاء
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے آل علی رضی اللہ عنہ کے ایک بزرگ محمد بن عبداللہ کی بیعت کا فتویٰ دیا جو بڑی جرأت اور بہادری کی بات تھی۔ اس کی پاداش میں عباسی خلیفہ منصور نے گورنر مدینہ کے ذریعے ستر کوڑے لگوائے۔ مشکیں اس شدت سے کیں کہ ہاتھ بازو سے علیحدہ ہوگیا اونٹ پر اہانت و تشہیر کے لئے سوار کروایا لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بلند آواز سے اہنا تعارف کرواتے۔
"لوگو! جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے جو نہیں جانتا وہ جان لے میں ابوعامر مالک بن انس ہوں ۔ میرا مسلک یہ ہے کہ طلاق مکروہ یا جبری طلاق کوئ چیز نہیں" جب گورنر مدینہ تک بات پہنچی تو اس نے آپ کو اونٹ سے اتارنے کا حکم دیا۔ ایک مجلس شوریٰ بن چکی تھی۔ جس میں تابعین کے جید علماء فقہاء کے فیصلے موجود تھے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی فقہ کی بنیاد اسی "فقہ مدینہ" پر رکھی۔
علمی مقام
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی علمی فضلیت اور مقام کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جن اساتزہ سے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے استفادہ کیا وہ بعد میں آپ کے تلامزہ میں شمار ہونے لگے۔ امام زہری رحمتہ اللہ علیہ آپ کے استاد تھے اس کے باوجود انھوں نے امام مالک رحمتہ اللہ علیہ سے احادیث روایت کیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی عظمت شان کے لئے یہی بات کافی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ و شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ بقول امام شافعی رحمہ اللہ نے تابعین کے بعد امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بندوں کے لیے سب سے بڑی حجت ہیں"  نیز امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ "امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فقہ و حدیث کے امام اور عقل و ادب میں کامل ہیں۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
"امام مالک متعدد کمالات میں منفرد تھے اول طویل عمر رحمتہ اللہ علیہ اعلیٰ سند، دوم روشن، ذہن اور وسعت علم سوم ان کی روایات پر آئمہ کا اتفاق چہارم تقوی، تدوین اور اتباع سںت اور آخری فقہ وافتاء میں تقدیم۔"
اجتہاد اور فتوی کا طریقہ
امام مالک اپنے اجتہاد میں قرآن مجید کے بعد احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتماد کرتے ہیں جس حدیث کی سند کو صحیح سمجھتے ہیں اسی سے مسائل کا استنباط کرتے ہیں خواہ وہ خبر واحد ہی کیوں نہ ہو۔ اگر قرآن و حدیث سے مسئلہ حل نہ ہو تو ان اقوال صحابہ رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرتے ہیں جنہیں وہ مستند یا ثقہ سمجھتے ہیں۔ نص کی عدم موجودگی میں قیاس کے ذریعے اجتہاد کرتے ہیں اور کبھی کبھار مصالح مرسلہ کے اصول کے ذریعے اجتہاد کرتے ہیں۔"
خدمات اور فقہ ملکی کی خصوصیات
اجتہاد پر انحصار کم کرنا
اس فقہ میں اجتہاد کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ اس کا زیادہ تر مدار کتاب و سنت اور آثار صحابہ و تابعین پر ہے۔
تقدیری مسائل کے بارے میں سکونت
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ایسے واقعات و معاملات کے بارے میں فتویٰ دینے سے احتراز فرماتے تھے جو پیش نہ آئے ہوں۔ آپ فرمایا کرتے تھے " جو واقعہ پیش آئے اس کے بارے میں سوال کرو اور جو معاملہ پیش نہ آئے اس کے بارے میں کچھ نہ دریافت کرو 
فقہ مدینہ کی اہمیت
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور حکومت مدینہ میں ایک مجلس شوریٰ بن بکی تھی۔ جس میں تابعین کے جید علماء و فقہاء کے فیصلے موجود تھے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی فقہ کی بنیادہی اسی "فقہ مدینہ" پر رکھی۔
فقہ مالکی کے پیروکار اہل الحدیث کہلائے
اس فقہ کے پیروکار اہل الحدیث کہلائے جب کہ حنفی فقہ کے اہل الرائے کہلائے۔
کتاب و سنت اور اجماع و قیاس بھی اس فقہ میں موجود ہے۔
فقہ مالکی میں ترمیم و اضافہ میں کمی
مالکی فقہ میں آگے چل کر بہت کم ترمیم و اضافہ اور اصلاح و تنقیح ہوئ۔ اس فقہ میں تصنیف و تالیف کا وہ چرچا نہیں رہا جو حنفی و شافعی میں رہا۔
خواص میں مقبولیت
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں اور مستفید ہونے والوں میں جس رتبے کے لوگ ہیں اس پائے کے محدث و فقیہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوتے مثلاً امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ۔ شاید اسی لیے ملکی فقہ کو "خواص کی فقہ" کا نام دیا جاتا ہے۔

نفع ‏و ‏نقصان ‏اللہ ‏کے ‏ہاتھ ‏میں ‏ہے

نفع و نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے

حدیث
حضرت ابو العباس عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ایک دن میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھا آپ نے فرمایا بتاتا ہوں اللہ کو یاد رکھ وہ تیری حفاظت کرے گا اللہ کو یاد رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال اور جب تو مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ اور جان لے کہ اگر امت ایکا کرے اس بات پر کہ تجھے کسی چیز کا فائدہ دیں تو وہ تجھے فائدہ نہ دے سکے گی۔ سوائے اس کے جسے اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر ایکا کر لیں کہ تجھے کس بات کا ضرر دیں تو تجھے ضرر نہ دے سکیں گے سوائے اس شے کے جو اللہ نے تیرے خلاف لکھ دی ہے قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے اسے ترمزی نے روایت کیا اور کہا حدیث حسن صحیح ہے اور غیر ترمزی کی روایت میں ہے اللہ کو یاد رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ اللہ کی طرف میلان رکھ خوشحالی میں وہ سختی میں تیری طرف دھیان رکھے گا اور جان لے کہ جو بات تجھ سے چوک گئ وہ تجھ تک پہنچنے والی نہ تھی اور جو بات تجھے پہنچی تجھ سے چوکنے والی نہ تھی اور جان لے کہ یقیناً اللہ کی مدد صبر کے ساتھ ہے اور فراخی تنگی کے ساتھ ہے اور آسانی سختی کے ساتھ ہے۔
تشریح مطالب
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو تعلیم سے نوازنے کا کوئ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ان جو چند باتوں کی نصیحت فرمائی۔
یاد الٰہی
ان میں اولین بات یہ تھی کہ اللہ کو یاد رکھو، اس کے احکام کی تعمیل کرو اور جن چیزوں سے اس نے روکا ہے اس سے رک جاؤ تو وہ تمہاری ہر ظرح سے حفاظت کرے گا۔ تمہارے دنیاوی کام سنوارے گا اور آخرت کی سزا سے تمہیں بچائے گا کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد ہے
پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ میرے شکر گزار بن جاؤ اور میری ناشکری نہ کرو۔
اس آیت اور مندرجہ بالا حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ خوشحالی اور آسودگی کے اوقات میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ مشکل وقت میں اور مصیبت کی گھڑیوں میں بطور خاص ان کی مدد فرماتا ہے اور ان پر زندگی کی تکالیف کو آسان کر دیتا ہے اور جو خدا کو فراموش کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی انھیں فراموش کر دیتا ہے اور انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
حاجت روا صرف اللہ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت فرمائی کہ جو کچھ بھی مانگنا ہو اللہ سے مانگا جائے اور دست سوال صرف اللہ کے سامنے پھیلایا جائے اور ضرورت کی چیز کا ذمہ دار صرف اسی کو ٹھہرایا جائے۔ کسی اور سے مدد طلب نہ کی جائے۔ ترمزی نے روایت کیا ہے جو اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا وہ اس پر ناراض ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے اس بت پر بیعت لی تھی کہ وہ کسی سے سوال نہیں کریں گے۔ یہ حضرات اگر سواری پر سوار ہوتے اور ہاتھ سے چابک گر جاتا تو خود اتر کر اسے اٹھاتے تھے اور کسی سے یہ درخواست نہ کرتے کہ اٹھا کر دے دے مبادا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا وعدہ جھوٹا نہ ہو جائے۔
اللہ پر مکمل بھروسہ
تیسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تعلیم فرمائ کہ اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرو، اس کے سسا کوئ بھی بھروسے کے قابل نہیں، نفع اور نقصان کی قوت ورف اسی کو حاصل ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ التوبہ آیت نمبر 51 میں اس بات کی مزید وضاحت کی گئ ہے
ترجمہ
"اے نبی فرما دیجیۓ کہ ہمیں ورف وہی تکلیف پہنچے گی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔ اللہ ہمارا کارساز ہے اور توکل کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے"
قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے۔ ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے۔ جو مصیبت یا آسانی قسمت ہے وہ آکررہے گی پھر مومن کو کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں نہ ہی کسی کے سامنے گردن نیچی کرنے کی ضرورت ہے جو کچھ بھی ہو گا اللہ رب العزت نے اس کا پہلے ہی فیصلہ کردیا ہے اس لیے اس پر کامل بھروسہ کرنا چاہیے۔
اللہ پر توکل کرنے اور اپنے تمام کام اسی کے سپرد کردینے کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ مومن اسباب اور وسائل کی طلب بھی ترک کر دے۔ حلال رزق کی تلاش کے لیے جو کوشش اور جدوجہد کی جائے وہ خلاف شریعت نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے حلال رزق کمانا فرض ہے۔
اسی طرح دوسری دنیاوی امور میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مناسب اسباب اور ذرائع تلاش کرنا بھی مستحسن ہے کیونکہ قرآن پاک سورت النجم آیت 39 میں فرماتا ہے۔
"کہ انسان کو صرف وہ کچھ ملتا ہے جس کے لیے اس نے کوشش کی"۔
لیکن کوشش کے بعد نتائج صرف خدا کے سپرد کر دینے چاہیں۔ توکل علی اللہ کا مطلب اہل شرعیت کے نزدیک صرف یہی ہے۔
کامیابی کا اصول
حدیث کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا گر سکھایا اور وہ یہ ہے کہ صبر اور استقلال سے تمام مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ فراخی اور تنگی، تنگدستی اور خوشحالی اس دنیا میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ تکالیف کو دیکھ کر مومن کو گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ صبر سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے کیونکہ ان اللہ مع الصابرین (اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے) کا وعدہ کامیابی کا ضامن ہے۔

‎جنت ‏میں ‏داخل ‏کرنے ‏والی ‏باتیں

جنت میں داخل کرنے والی باتیں


حدیث
"حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئ عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور مجھے آگ سے دور رکھے آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے بڑے عمل کے بارے میں پوچھا ہے اور وہ یقیناً آسان ہے اس پر جس پر اللہ نے اسے آسان کر دیا (وہ یہ ہے) کہ تو عبادت کرے اللہ کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور روزے رکھے رمضان کے اور بیت اللہ کا ححج کرے پھر کہا کیا تجھے بھلائ کے دروازوں کے بارے میں مطلع نہ کروں روزہ ڈھال ہے اور صدقہ بجھا دیتا ہے (جہنم کی آگ کو) جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور آدمی کی نماز رات کے درمیان میں پھر آپ نے آیت تتجافی جنوبہم عن المضاجع سے یعملون تک تلاوت کی پھر فرمایا کیا میں تجھے دین کی اصل چیز اور اس کے ستون اور اس کی چوٹی کا عمل نہ بتا دوں۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ارشاد فرمائیں۔ فرمایا دین کی اصل چیز اسلام ہے اور دین کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی(انتہا) جہاد ہے پھر فرمایا کیا میں تجھے ایسا عمل نہ بتاؤں جس کے ذریعے ان سب امور پر قابو پایا جا سکے میں نے کہا ضرور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا اس کو اپنے حق میں مصیبت بننے سے روک رکھو۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہمارے بولنے پر (بھی) ہماری گرفت ہوگی؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! تیری ماں تجھے نہ پائے تو کیا لوگوں کو گرائے گی آگ میں چہروں کے بل یا فرمایا نتھنوں کے بل۔ ان کی زبان ہی کے تو نتیجے ہوں گے۔(روایت کیا اسے امام ترمزی)
تشریح مطالب
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا سوال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اس سوال کے جواب میں کہ مجھے ایسا عمل بتائیے جو دین میں داخل ہونے کا سبب بن جائے اور مجھے آگ سے دور کر دے۔ انھیں چند ایسے اعمال بتائے جو دین میں انتہائ اہم ہیں لیکن ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تنبیہہ کی کہ یہ اعمال انسانی طبیعت پر گراں ضرور ہیں لیکن جو کوئ اللہ کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے اعمال اس کے لیے آسان ہو جاتے ہیں اور اسے کسی قسم کی تکلیف کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
ارکان اسلام
سب سے پہلی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائ کہ ارکان خمسہ کی پابندی کی جائ اور ان میں کسی قسم کی کوتاہی روا نہ رکھی جائے۔ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور ہر قسم کے شرک سے دامن بچاؤ۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دیا کرو، ححج بیت اللہ کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔
نوافل عبادات
فرضوں کا ذکر کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوافل کا ذکر فرمایا اور انھیں ابوالخیر یعنی بھلائ کے دروازوے فرمایا، گویا انھی دروازوں سے گزر کر ہی انسان نیکی کی عمارت میں داخل ہو سکتا ہے۔ دروازے کو گناہ کے تیروں سے بچانے کا ذریعہ یعنی ڈھال فرمایا کیونکہ روزہ شہوت کے غلبے کو ختم کر دیتا ہے اور تقوی اور طہارت کو پیدا کرتا ہے۔ اس طرح صدقہ گناہوں کو مٹانے کا ذریعہ ہے۔ چھوٹے گناہ صدقہ اور خیرات کرنے سے معاف ہو جاتے ہیں۔ رات کے پچھلے پہر نماز جسے تہجد کہا جاتا ہے نیکیوں کے حصول کا بہترین وسیلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تینوں عبادات بہت ہی مشکل ہیں جب کوئ انسان ان کا عادی ہو جاتا ہے تو باقی عبادات اس کے لیے آسان ہو جاتی ہیں۔
جہاد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کو دین کی سب سے بلند چوٹی قرار دیا۔ سنام اونٹ کی کوہان کو کہتے ہیں اور پہاڑ کی چوٹی کو بھی۔ ذرہ وہ کے معنی ہیں یعنی بلند ترین جگہ جہاد تمام اسلامی عبادات میں مشکل ترین عبادت ہے۔ اس لیے گویا جہاد کرنے والا دین کی بلندی کو پا لیتا ہے۔ جہاد جہد سے ماخز ہے جس کا معنی ہے کوشش، جدوجہد لیکن اسلامی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جنگ کرنے جو جہاد کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کی بڑی فضیلت وارد ہوئ ہے۔ قرآن مجید میں ہے اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے ان کی جانیں اور مال اس بات کے عوض خرید لیے ہیں کہ انھیں جنت ملے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ " اللہ کی راہ میں ایک دن محاذ جنگ کرنا دنیا مافیہا سے افضل ہے۔" 
"اللہ کی راہ میں جس نے زخم اٹھایا قیامت کے دن وہ اس زخم کے ساتھ اس طرح آئے گا کہ اس زخم سے مشک کی خوشبو مہکتی ہو گی۔" ایک اور حدیث میں ہے۔ " جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے کھلتے ہیں۔" (ریاض الصالحین، باب الجہاد)
غرض کہ اسی قسم کی سینکڑوں احادیث ہیں۔ جن میں جہاد کی فضیلت کا تزکرہ ہے۔
حفاظت زبان
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے آخر میں فرمایا " کیا آپ کو اس چیز کے متعلق نہ بتاؤں جس پر ان سب کا دارومدار ہے۔ " پھر فرمایا کہ " زبان کو قابو میں رکھو۔ " حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے سوال پر کہ آیا زبان سے کی جانے والی باتوں پر بھی ہمارا مواخزہ ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ قیامت کے دن لوگوں کو جہنم میں ان کی زبان کے نتائج ہی تو منہ کے بل گرائیں گے۔ جو آدمی زبان کو قابو میں نہیں رکھتا اور اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے وہ اپنے لیے آگ میں گرائے جانے کا سامان مہیا کرتا ہے۔ زبان سے غیبت، بہتان تراشی، جھوٹی گواہی، گالی گلوچ، کلمات کفریہ وغیرہ سرزد ہوتے ہیں اور یہ ہی چیزیں انسان کے لیے نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی عزاب کا موجب بن جاتی ہیں۔
Writer:ShoaibKamboh

حلال،حرام اور مشتبھات ‏کے ‏بارے ‏میں ‏اسلام ‏کیا ‏کہتا ‏ہے؟

حلال، حرام اور مشتبہات



عن ابی عبداللہ النعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما قالا سمعت رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان الحلال بین وان الحرام بین و ینھما امور مشتبہات لا یعلمھن کثیر من الناس فمن اتقے الشبھات فقد اسبرا لدینہ وعرضہ ومن وقع فی الشبھات وقعہ فی الحرام کالراعی یرعی ثول الحمی یو شک ان یرتع فیہ الا وان لکل ملک حمی وان حمی اللہ محارمہ الا وان فی الجسد مضغتا اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی امقلب۔(بخاری-مسلم)
-:ترجمہ
ابو عبداللہ بن بشیر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے، انھوں نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا یقیناً حلال واضح ہے اور یقیناً حرام بھی واضح ہے اور دونوں کے درمیان کچھ باتیں مشتبہ ہیں کہ نہیں جانتے انھیں بہت سے لوگ تو جو شخص شبہات سے بچا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو سلامت رکھا اور جو شخص شبہات میں جا پڑا وہ بالآخر حرام میں پڑ گیا جیسے ایک چرواہا جو ممنوعہ چراگاہ کے آس پاس مویشی چراتا ہے قریب ہے کہ اس میں چرانے لگے آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور خبر دار اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور آگاہ رہو یقیناً جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے خبر دار! اور وہ دل ہی ہے (اسے امام بخاری-مسلم نے روایت کیا ہے)۔
حلال و حرام
حرام اور حلال شریعت اسلامیہ کی مشہور اصطلاحیں ہیں۔ اور حرام اشیاء وہ ہیں جن کے ممنوع ہونے پر قرآن و سنت میں ذکر موجود ہے جیسے شراب و جوابازی، چور ڈاکہ وغیرہ اور حلال چیزیں وہ ہیں جن کے جائز ہونے کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہو یا اس کے جائز ہونے پر کوئ دلیل قائم ہو جائے جیسے نکاح، طلاق اور دین کے دوسرے احکام وغیرہ۔
حدیث کے پہلے حصے میں اس بات کی وضاحت کی گئ ہے کہ حلال و حرام اکثر لوگوں کے علم میں ہوتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ ایسے امور ہوتے ہیں جن کے حرام اور حلال ہونے میں شبہ ہوتا ہے اور اکثر لوگ اسی شک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں کر گزرتے ہیں۔ آگے چل کر ایک وقت وہ بھی آجاتا ہے جبکہ انسان کا نفس امارہ اسے حرام کی سرحد میں لے جاتا ہے اور اس سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ جوا کھیلنا حرام ہے لیکن جواریوں کے ساتھ بیٹھنا، ان کے ساتھ دوستی یا جوئے کی محفلوں میں جانا وغیرہ  ایسی چیزیں ہیں کہ اکثر لوگ ان کے بارے میں نہیں جانتے کہ حرام ہیں یا حلال۔ پس وہ حرام کی طرف انھی مشتبہ باتوں میں پڑنے کی وجہ سے چلے جاتے ہیں۔ 
شک و شبہ والی چیزوں سے بچنے کی تاکید
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں جو شک و شبہ والی باتوں سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس بارے میں کئ ارشادات میں وضاحت فرمائی
الاثم ماحات فی صدرک
ترجمہ:
گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے۔
دوسری حدیث میں فرمایا " جو چیز تجھے شک ڈالتی ہے اسے چھوڑ دے اور اس بیز کی طرف مائل ہو جو تجھے شک میں نہ ڈالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خوبصورت مثال سے یہ بات واضح کی کہ کس طرح مشتبہ باتیں حرام کے لیے راستے ہموار کرتی ہیں فرمایا ایک چرواہا اپنا ریوڑ ممنوعہ چراگاہ کے قریب لے جاتا ہے اور چراتا ہے سس بھروسے سے پر کہ وہ جانوروں کو نگاہ رکھے ہوئے ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے تھوڑی سی کوتاہی ہو اور ریوڑ ممنوعہ علاقے میں جا پہنچے ۔ لہزا اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے قریب لے جانے والے اسباب سے بھی دور رہنا چاہیے تاکہ اس بات کا خدشہ ہی نہ رہے کہ ہمارا نفس تھوری سی بے احتیاطی کی وجہ سے ہمیں حرام میں مبتلا کر دے۔
دل کا بگاڑ پورے جسم کا بگاڑ
حدیث کے آخر میں دل کو درست کرنے کی طرف خاص توجہ مبزول کرائ گئ ہے۔ کیونکہ دل تمام خیالات کا مرکز ہے۔ اگر وہ درست ہے تو جسم کے تمام اعمال درست ہیں اور اگر اس میں خرابی ہے تو سارا بدن خراب ہے۔ اس کو حدیث میں یوں بیان کیا ہے
ترجمہ 
"کسی کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل درست نہ ہو۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے 
"اے اللہ میں آپ سے تندرست دل کا طالب ہوں"۔
قرآن مجید میں ہے کہ قیامت کے دن مال و اولاد کسی کام نہیں آئیں گے۔ ہاں وہی فائدے میں رہے گا جو قلب سلیم لے کر حاضر بارگاہ خداوندی ہوگا۔
Written By:Shoaib Kamboh

‎کیا ‏اسلام ‏میں ‏کسی ‏کو ‏نقصان ‏ ‏پہنچانے ‏کی ‏اجازت ‏ہے؟

حدیث ترجمہ
ابو سعید بن مالک بن سنان خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ (پہل کر کے) ضرر دینا اور نہ جواب میں ضرر دینا جائز ہے۔ (یہ حدیث حسن ہے اسے ابن ماجہ اور دار قطنی وغیرہ نے مسند روایت کیا ہے).
تشریح مطالب
معاشرتی زندگی کااہم اصول
اس حدیث میں اسلام کی معاشرتی زندگی کے ایک اہم اصول کی طرف توجہ دلائی گئ ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ ذاتی مفاد کے لیے اور دنیاوی اغراض کے لیے کسی کو نقصان دینے سے اجتناب کیا جائے۔ اگر کسی نے پہل کر کے تمہیں تکلیف پہنچائ ہو تو بھی عفو درگذر سے کام لے کر اسے معاف کر دو۔ اگر لاضرر کا معنی نقصان اٹھانا لیا جائے تو پھر حدیث کا مفہوم یہ ہو گا کہ اگر کوئ خواہ مخواہ تمہیں نقصان دینے کے درپے ہو اور وبال جان بنا ہو تو اس کا فوری طور پر ازالہ کرو کیونکہ یہ بھی اسلامی زندگی کا اصول ہے کہ شر پسندوں کی حوصلہ افزائی نہ کرو۔ قرآن مجید کی سورت البقرہ آیت 194 میں ہے
ترجمہ
"اگر کسی نے تم پر زیاتی کی تو تم بھی اس پر اسی قدر زیادتی کرو جس قدر اس نے کی۔"
بیشک دوسروں کو معاف کرنا ایک پسندیدہ فعل ہے لیکن اسلام کسی سے مرعوب ہو کر زندگی گزارنے کو بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ اس لیے قصاص یا بدلہ لینے کی اجازت دی گئ ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ البقرہ 179 میں ہے کہ " اے عقلمندو! قصاص میں تمہارے لیے زندگی کا سامان ہے۔"
اس حدیث سے یہ مفہوم بھی اخز ہوتا ہے کہ اگر کوئ دشمن اسلامی ملک سے چھیڑ چھاڑ کرے تو اس کا جواب سختی سے دینا چاہیے اور اسے شرارتوں سے باز رکھنے کے لیے قوت استعمال کرنی چاہیے کیونکہ لا ضرفی السلام اسلام میں کسی کو نقصان برداشت کرتے رہنا جائز نہیں۔
لاضرر یعنی انتقام کے طور پر کسی کو نقصان نہیں دینا چاہیے۔ اس سے یہ مفہوم اخز ہوتا ہے کہ اگر کوئ کسی کو اس کے جرم کی جائز سزا قانون کے ذریعے مل چکی ہو تو مزید انتقام لینے اور انفرادی طور پر ضرر پہنچانے کی اجازت نہیں۔ خلاصہ یہ کہ نہ خود تکلیف اٹھاؤ اور نہ ہی دوسروں کے لیے وبال جان بنو م، اسلام ہمیں اس اصول کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
Writer: Shoaib Kamboh

Imam Abu Hanifa Biography & Stories in urdu ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎امام ‏اعظم ‏ابو ‏حنیفہ ‏رحمتہ ‏اللہ ‏علیہ

امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ 




نام نسب
آپ رحمتہ اللہ علیہ کا نام نعمان بن ثابت، کنیت ابو حنیفہ اور لقب امام اعظم ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ 80 ہجری مین عراق کے مشہور شہر کوفہ میں پیدا ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد ماجد ثابت بن زرطی فارسی تھے۔ امام ابو حنیفہ نے اپنی زندگی کے 25 سال بنو امیہ کے عہد میں اور 18 سال بنو عباس کے عہد میں گزارے۔ عمر بن عبد العزیز  رحمتہ اللہ علیہ کے عہد خلافت میں وہ جوان تھے، ان کے سامنے ہی دعوت عباسی اٹھی اس کا مرکز ان کا اپنا شہر تھا۔ خلیفہ المنصور کے عہد سن 150 ہجری میں انھوں نے وفات پائی۔
تحصیل علم
کوفہ جہاں آپ پیدا ہوئے، عراق کا مرکززی شہر تھا جو مزہبی اور سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھا۔ امام ابو حنیفہ  رحمتہ اللہ علیہ نے شروع میں علم کلام حاصل کرنے پر توجہ دی اور علم مناظرہ میں کمال پیدا کیا۔ یہاں تک کہ کوئ بے دین، ملحد اور مزاہب باطلہ کا پیروکار مناظرہ میں آپ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا تھا لیکن جلد ہی آپ کا دل مناظرہ، کلام اور منطقی علوم سے بیزار ہو گیا۔ پھر آپ علم حدیث ، قرات، نحو اور ادب کی طرف متوجہ ہو گئے اور کوفہ شہر کے مشہور علماء سے یہ علوم حاصل کئے جن میں حماد عطا ابی رباح  رحمتہ اللہ علیہ، عمرو بن دینار رحمتہ اللہ علیہ اور شعبی رحمتہ اللہ علیہ جیسے بڑے بڑے علماء شامل ہیں۔
اوصاف و کمالات
امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ بے حد ذہین، طباع اور گہری فہم و ادراک کے مالک تھے۔ حد درجہ متقی، دیانت دار، عبادت گزار اور خدا ترس تھے، آپ کی امانت، ضرب المثل تھی، وفات کے وقت 5 کروڑ درہم کی امنتیں آپ کے پاس جمع تھیں۔(مرات الجنان: یانعی)
شبلی نعمانی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کی ذہانت اور حاضر جوابی کے متعدد واقعات ذکر کیے ہیں کہ امام صاحب مشکل سے مشکل مسئلے کو چٹکی سے حل کر دیا کرتے تھے:
ایک مرتبہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے قسم اٹھائ کہ وہ کوئ ایسی عبادت کرے گا جس میں اس کا اس وقت کوئ شریک نہ ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کی بیوی کو طلاق ہوگی۔ اس شخص کے لیے قسم پوری کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ امام مالک نے برجستہ جواب دیا کہ اس شخص کے لیے مطاف خالی کر دیا جائے وہ اکیلا ہی خانہ کعبہ کا طواف کرے۔ بس اس کی قسم پوری ہو گئ۔(سیرت النعمان)
جب خلیفہ عباسی نے بغداد شہر کی تعمیر شروع کی تو امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کو تعمیراتی کام کا نگران مقرر کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ چار سال تک اس کام کے نگران اعلیٰ رہے۔
علم فقہ کے چار اماموں سے آپ واحد امام ہیں جنہیں تابعی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور عبداللہ بن اوفی بن اوفی رضی اللہ عنہ،اور ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا تھا۔ بعد میں خلیفہ المنصور کو آپ سے کچھ خوف پیدا ہوگیا کیونکہ آپ علویوں کے طرفدار تھے اور محمد نفس زکیہ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ آپ کی خط و کتابت تھی۔ لہزا المنصور نے ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے انھیں سلطنت کے چیف جسٹس کے عہدے کی پیشکش کی۔ جب امام نے اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو اسے ںہانہ بنا کر ان کو قید کر دیا۔ چنانچہ المنصور کی قید ہی میں آپ کا انتقال ہوا۔ نماز جنازہ پڑھاتے وقت قاضی شہر نے کہا ۔
"اس دور کے سب سے بڑے فقیہ، محدث ، عابد اور زاہد فوت ہو گئے" انا للہ و انا الیہ راجعون۔
تلامزہ
امام صاحب کے شاگرد ویسے تو کثیر تعداد میں تھے جن میں عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ عظیم محدث تھے۔ ان کے علاوہ سفیان بن عینہ رحمتہ اللہ علیہ، وکیع بن الجراح رحمتہ اللہ علیہ، عبد الرزاق رحمتہ اللہ علیہ، یزید بن ہارون رحمتہ اللہ علیہ اور حفص بن غیاث رحمتہ اللہ علیہ بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں۔
لیکن جن شاگردوں کے ذریعہ آپ کی فقہ کو شہرت اور قبولیت حاصل ہوئ وہ چار ہیں۔
1) زفر بن ہزیل رحمتہ اللہ علیہ
2)حسن بن زیادلئولئوی رحمتہ اللہ علیہ
3) ابو یوسف القاضی رحمتہ اللہ علیہ
4)محمد بن الحسن شیبانی رحمتہ اللہ علیہ
آخری دونوں شاگردوں کو صاحبین کہتے ہیں۔ آخری شاگرد یعنی امام محمد رحمتہ اللہ علیہ کثیر التصانیف علماء میں سے ہیں اور امام صاحب کے علمی کارناموں کو پھیلانے میں سب سے زیادہ حصہ ان کا ہے۔
                           فقی خدمات

جامع المسانيد: امام اعظم  حدیث کی روایت میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ کوفہ میں جدید فرقوں کا ظہور اور وضعی احادیث کی کثرت تھی۔ جامع المسانید کے نام سے احادیث کا ایک بڑا مجموعہ آپ سے روایت ہے۔ اس سے اس بات کی بھی تردید ہوجاتی ہے جہور کے معاندین نے پھیلائی ہے کہ ابوحنیفہ  حدیث اور آثار صحابہ ٹا پر قیاس کو تری دیتے ہیں ۔

 افتاء:

 انہوں نے فقہ اسلامی قانون کی طرف توجہ کی ۔ عراق کے اصحاب الرائے کا مرکز اس وقت کوفہ تھا۔ وہ اس سے وابستہ ہو گئے اور مشہورفقیہہ ابراہیم کی متوفی 95 ہجری کے شاگرد امام حماد بن سلمہ کی شاگردی اختیار کی ۔ آپ حماد کی وفات تک پورے 18 سال ان کی صحبت میں رہے۔ حماد کے علاوہ متعدد اصحاب علم سے حدیث و فقہ کی تحصیل کی ۔ اس دوران حرمین کے بھی سفر کئے اور وہاں کے چیدہ چیدہ علماء سے استفادہ کیا۔ 120 ہجری میں جب ان کے استادحما د کا انتقال ہوا تو لوگوں نے ان کی مسند آپ کو سونپ دی۔ اس مسند پر 30 سال تک درس و تدریس اور افتاء کا وہ لا فانی کام انھوں نےانجام دیا جو آج مسلک حنفی کی بنیاد ہے۔ اس تیس سال کی مدت میں انھوں نے بقول جض 60 ہزار اور  بقول بعض 833 ہزار قانونی مسائل کے جواب دیئے جو ان کی زندگی ہی میں الگ الگ عنوانات کےتحت مرتب کر دیئے گئے ۔ (المکی جلد 1 ص 96)

تدوین فقہ کاعظیم کارنامہ: 

امام ابوحنیفہ نے اپنی علمی بصیرت اور گہری فکر کی بناء پر یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسلامی سلطنت کے وسیع کاروبار اور مسلم معاشرے میں پیش آنے والے نت نئے واقعاتکے لیے سب سے بڑی ضرورت ایک بلند پایہ قانون کی ہے جو اس وقت کی ضروریات کا ساتھ دے سکے ۔ اس لیے انھوں نے اپنی تمام تر توجہ تدوین فقہ پر مرکوز کر دی۔ چونکہ آپ کا کپڑے کی تجارت کا وسیع کاروبار تھا جس کی وجہ سے آپ فکر معاش سے آزاد تھے۔ لہذا آپ نے اپنے آپ کو مسائل کے استنباط | اور قرآن و حدیث سے دلائل کی تلاش کے لیے وقف کردیا۔

عبداللہ بن مبارک کا قول ہے :

آثار اور فقہ فی الحدیث کا صحیح  "مقیاس" پیدا کرنا آپ کا ایک لازوال علمی کارنامہ ہے (دائرۃ المعارف اردو)

امام ابوحنیفہ نے اسلامی علوم وفنون کے ماہرین کی ایک مجلس قائم کی جو چالیس علماء پر مشتل تھی۔ان میں علم لغت و تفسیر علم کلام علم حدیث اور علم بلاغت کے ائمون شامل تھے۔ اس مجلس نے مسلسل تیس برس تک کام کیا اور بارہ لاکھ نوے ہزار مسائل مدون کیے۔ یہ ایک ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اس سے اسلامی حکومت کے لیے قانون کی ایک بنیادفراہم ہوگئی جس پراجتهاد واستنباط کی عمارت تعمیر کرنا آسان ہوگیا۔ 

 علمی مقام:  

ایک روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر علم ثریا تک بھی پہنچ جائے تو اہل فارس میں سے ایک شخص اس کو حاصل کرے گا۔ علماء نے اس حدیث کا مصداق امام ابوحنیفہ کوٹھہرایا ہے۔ آپ اپنی علمی و عملی کمالات کی بدولت امام اعظم کہلاتے ہیں۔ علامہ ابن خلدون کے مطابقفقہ میں امام موصوف کا پایہ اتنا بلند تھا کہ کوئی دوسرا اس کی نظیر نہیں ہوسکا۔ اسی طرح ان کے ہم عصر فقہاء امام مالک یا امام شافعی اور سفیان ثوری  نے ان کی علمی عظمت کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے۔

امام مالک: اگر امام ابوحنیفہ کی اپنے اپنے زور استدلال سے سنگ مرمر کے ستونوں کو سونے کا ثابت کرنا چاہیں تو وہ کر سکتے ہیں۔ 

امام شافعی : ”لوگ فقہ میں ابوحنیفہ کے محتاج ہیں میں نے ان سے بڑھ کر فقیہ کوئی نہیں پایا۔

ابویوسف : میں نے حدیث کے فقہی نکات جاننے والا ابوحنیفہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا

سفیان نوری: ’’روئے زمین پر سب سے زیادہ فقیہ ابوحنیفہ تھے ‘‘

اجتہادوفتوی کا طریقہ:

امام ابوحنیفہ  کسی مسئلے کا جواب قرآن مجید سے اخذ کرنے کی کوشش فرماتے ۔ قرآن مجید سے جواب نہ ملتا تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے اور اس بات پر نظر رکھتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل کیا تھا یا آخری راۓ کیا تھی؟ اگر احادیث نبوی سے فیصلہ نہ ہوسکتا تو پھر فقہاء صحابہ و تابعین کے اقوال اور فیصلے تلاش کرتے۔ کسی معاملے میں فقہاء کا اجماع ہوتا تو اسی کو اختیار کر لیتے اگر جواب نہ پاتے تو قیاس کی طرف آتے اور کبھ کبھارر استحسان (قیاس خفی)سے کام لیتے۔ 

 Writer#ShoaibKamboh

 

 

 

 

Kinds Of Sentences, Subject & Predicate , The Phrase & The Clause, Parts Of Speech (English Grammar)

 

The Sentence

1.When we speak or write we use words. We generally use these words in groups; as, Little Jack Horner sat in a corner.

A group of words like this, which makes complete sense, is called Sentence.

Kinds of Sentences

2. Sentences are of four kinds:--

i) Those which make statements or assertions; as, Humpty Dumpty sat on a wall.

ii) Those which ask questions; as

Where do you live?

iii) Those which express commands, requests, or entreaties; as, 

Be quiet.

Have mercy upon us.

iv) Those which express strong feelings; as, How cold the night is!

What a shame!

A sentence that makes a statement or assertion is called a Declarative or Assertive sentence.

A sentence that asks a question is called an Interrogative sentence.

A sentence that expresses a command or an entreaty is called an Imperative sentence.

A sentence that expresses a strong feeling is called an Exclamatory sentence.

Subject and Predicate

3. When  we make a sentence----

a)  We name some person or thing; and 

b) Say something about that person or thing

In other words, we must have a subject to speak about and we must say or predicate something about the subject.

Hence every sentence has two parts----

i) The part which names the person or thing we are speaking about. This is called the subject of the sentence.

ii) The part which tells something about the subject. This is called the predicate of sentence.

4. The subject of a sentence usually comes first, but occasionally it is put after the predicate; as,

Here comes the bus.

Sweet are the uses of adversity.

5. In imperative sentences the subject is left out; as, Sir down.[Here the subject You is understood].

Thank him. [Here too the the subject  You is understood]

The Phrase & The Clause

6. Examine the group of words "in a corner". It makes sense, but not complete sense. Such a group of words, which makes sense, but not complete sense, is called a Phrase.

In the following sentences, the groups of words in italics are Phrases:-

The sun rises in the east.

Humpty Dumpty sat on a wall.

There came a giant to my door.

Show me how to do it.

7.Examine the groups of words in italics in the following sentences:--

He has a chain of gold.

He has a chain which is made of gold.

We recognize the first group of words as a phrase.

The second group of words, unlike the phrase of gold, contains a Subject (which) and a predicate (is made of gold).

Such a group of words which forms part of sentence, and contains a subject and a predicate, is called a Clause.

In the following sentences, the groups of words in italics are clauses:--

People who pay their debts are trusted.

We cannot start while it is raining.

I think that you have made a mistake. 

 PARTS OF SPEECH

Words are divided into different kinds or classes, called Parts of Speech, according to their use; that is, according to the work they do in a sentence. The parts of speech are eight in number:-

1)Noun

2)Adjective

3)Pronoun

4)Verb

5)Adverb

6)Preposition

7)Conjunction

8)Interjection

1) A Noun is a word used as the name of a person, place, or thing; as,

Akbar was a great king.

Kolkata is on the banks of the river Hooghly.

The rose smells sweet. 

The sun shines bright.

His courage won him honour.

Note:- The word thing includes (i)all objects that we can see, hear, taste, touch, or smell; and (ii) something that can think of, but cannot perceive by the senses.

2)An Adjective is a word used to add something to the meaning of a noun; as, 

He is a brave boy.

There are twenty boys in this class.

3) A Pronoun is a word used instead of a noun; as,

John is absent, because he is ill.

The books are where you left them.

4) A verb is word used used to express an action or state ;as,

The girl wrote a letter to her cousin.

Lahore is a big city.

Copper and Iron are useful metals.

5) An adverb is a word used to add something to the meaning of a verb, an adjective, or another adverb; as,

He worked the sum quickly.

The flower is very beautiful.

She pronounced the word quite correctly.

 6) A preposition is a word used with a noun or a pronoun to show how the person or thing denoted by the noun or pronoun stands in relation to something else; as,

There is a cow in the garden.

The girl is fond of music.

A fair little girl sat under a tree.

7) A conjunction is a word used to join the words or sentences;, as,

Ali and Ahmad are cousins.

One and one make two.

I ran slowly, and missed the bus.

8) An Interjection is a word which expresses some sudden feelings; as,

Hurrah! we have won the game.

Alas! She is dead.

9)Some modern grammars include determiners among the parts of speech. Determiners are words like a, an, the, that, this, these, those, every, each, some, any, my, his, one, two, etc., which determine or limit the meaning of the nouns that follow. In this book, as in many traditional grammars, all determiners except a, an and the are classed among adjectives.

10)As words are divided into different classes according to the work they do in sentences, it is clear that we cannot say to which part of speech a word belongs unless we see it used in a sentence.

They arrived soon after. (Adverb)

They arrived after us.(Preposition)

They arrived after we had left.(conjunction).

From the above examples we see that the same word can be used as different parts of speech.



 

 

Putting an end to Rape ‎ ‏‎

Putting an end to Rape

                                



Author:-Shoaib_Kamboh_Advocate
Putting an end to Rape
A few days ago a high-profile case of gang rape occurred in Pakistan, and different cultural, social, and ideological debates surfaced. This is a cultural practice & common in public debate after happening of such kind of incidents in Pakistan. This happened because the Pakistani public take decisions based on their emotions,i.g; to vote, support, or criticize, they take decisions behind reality and facts, and this ends with no benefits & results but to perpetuate this culture of rape. We see everywhere on every platform of television the panels which they called for debate depending full of men with little to no female representation, & the trends were at their peak on Facebook, Twitter & other social media platforms to punish the criminals in front of the public, by hanging in front of the public, etc. And our Prime Minister Imran Khan said that the criminals must be given the punishment of castration by chemical means. Now the question arises here is that, whether this may reduce the crime of rape or not, or whether women may be given the rights that Islam has given to them or not?
In our culture, women pretend to be the property of men(the Family women of the man), & the non-family women are not to be seen as respected, their rights have been pushed aside. Castration or hanging is not the ultimate solution to this, because if we castrate a man & when he came back to society the fire of revenge will be in his mind against the women, & this will promote the other crimes too, so, after giving these kinds of Punishments we would be unable to suppress the crime because rape is a disease called patriarchy, misogyny, and toxic masculinity. Hence there are only some steps that help this issue.
First, an end of the rape culture by an end of its sources. Second, reforms & third is the prevalence of  Law and order, and the major thing is the implementation of the law. Legislation is not the ultimate solution for this particular crime, there is a dire need to do some practical work.

Writer: Advocate_Shoaib_Kamboh