-->

Imam Abu Hanifa Biography & Stories in urdu ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎ ‎امام ‏اعظم ‏ابو ‏حنیفہ ‏رحمتہ ‏اللہ ‏علیہ

امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ 




نام نسب
آپ رحمتہ اللہ علیہ کا نام نعمان بن ثابت، کنیت ابو حنیفہ اور لقب امام اعظم ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ 80 ہجری مین عراق کے مشہور شہر کوفہ میں پیدا ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد ماجد ثابت بن زرطی فارسی تھے۔ امام ابو حنیفہ نے اپنی زندگی کے 25 سال بنو امیہ کے عہد میں اور 18 سال بنو عباس کے عہد میں گزارے۔ عمر بن عبد العزیز  رحمتہ اللہ علیہ کے عہد خلافت میں وہ جوان تھے، ان کے سامنے ہی دعوت عباسی اٹھی اس کا مرکز ان کا اپنا شہر تھا۔ خلیفہ المنصور کے عہد سن 150 ہجری میں انھوں نے وفات پائی۔
تحصیل علم
کوفہ جہاں آپ پیدا ہوئے، عراق کا مرکززی شہر تھا جو مزہبی اور سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھا۔ امام ابو حنیفہ  رحمتہ اللہ علیہ نے شروع میں علم کلام حاصل کرنے پر توجہ دی اور علم مناظرہ میں کمال پیدا کیا۔ یہاں تک کہ کوئ بے دین، ملحد اور مزاہب باطلہ کا پیروکار مناظرہ میں آپ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا تھا لیکن جلد ہی آپ کا دل مناظرہ، کلام اور منطقی علوم سے بیزار ہو گیا۔ پھر آپ علم حدیث ، قرات، نحو اور ادب کی طرف متوجہ ہو گئے اور کوفہ شہر کے مشہور علماء سے یہ علوم حاصل کئے جن میں حماد عطا ابی رباح  رحمتہ اللہ علیہ، عمرو بن دینار رحمتہ اللہ علیہ اور شعبی رحمتہ اللہ علیہ جیسے بڑے بڑے علماء شامل ہیں۔
اوصاف و کمالات
امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ بے حد ذہین، طباع اور گہری فہم و ادراک کے مالک تھے۔ حد درجہ متقی، دیانت دار، عبادت گزار اور خدا ترس تھے، آپ کی امانت، ضرب المثل تھی، وفات کے وقت 5 کروڑ درہم کی امنتیں آپ کے پاس جمع تھیں۔(مرات الجنان: یانعی)
شبلی نعمانی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کی ذہانت اور حاضر جوابی کے متعدد واقعات ذکر کیے ہیں کہ امام صاحب مشکل سے مشکل مسئلے کو چٹکی سے حل کر دیا کرتے تھے:
ایک مرتبہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے قسم اٹھائ کہ وہ کوئ ایسی عبادت کرے گا جس میں اس کا اس وقت کوئ شریک نہ ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کی بیوی کو طلاق ہوگی۔ اس شخص کے لیے قسم پوری کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ امام مالک نے برجستہ جواب دیا کہ اس شخص کے لیے مطاف خالی کر دیا جائے وہ اکیلا ہی خانہ کعبہ کا طواف کرے۔ بس اس کی قسم پوری ہو گئ۔(سیرت النعمان)
جب خلیفہ عباسی نے بغداد شہر کی تعمیر شروع کی تو امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کو تعمیراتی کام کا نگران مقرر کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ چار سال تک اس کام کے نگران اعلیٰ رہے۔
علم فقہ کے چار اماموں سے آپ واحد امام ہیں جنہیں تابعی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور عبداللہ بن اوفی بن اوفی رضی اللہ عنہ،اور ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا تھا۔ بعد میں خلیفہ المنصور کو آپ سے کچھ خوف پیدا ہوگیا کیونکہ آپ علویوں کے طرفدار تھے اور محمد نفس زکیہ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ آپ کی خط و کتابت تھی۔ لہزا المنصور نے ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے انھیں سلطنت کے چیف جسٹس کے عہدے کی پیشکش کی۔ جب امام نے اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو اسے ںہانہ بنا کر ان کو قید کر دیا۔ چنانچہ المنصور کی قید ہی میں آپ کا انتقال ہوا۔ نماز جنازہ پڑھاتے وقت قاضی شہر نے کہا ۔
"اس دور کے سب سے بڑے فقیہ، محدث ، عابد اور زاہد فوت ہو گئے" انا للہ و انا الیہ راجعون۔
تلامزہ
امام صاحب کے شاگرد ویسے تو کثیر تعداد میں تھے جن میں عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ عظیم محدث تھے۔ ان کے علاوہ سفیان بن عینہ رحمتہ اللہ علیہ، وکیع بن الجراح رحمتہ اللہ علیہ، عبد الرزاق رحمتہ اللہ علیہ، یزید بن ہارون رحمتہ اللہ علیہ اور حفص بن غیاث رحمتہ اللہ علیہ بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں۔
لیکن جن شاگردوں کے ذریعہ آپ کی فقہ کو شہرت اور قبولیت حاصل ہوئ وہ چار ہیں۔
1) زفر بن ہزیل رحمتہ اللہ علیہ
2)حسن بن زیادلئولئوی رحمتہ اللہ علیہ
3) ابو یوسف القاضی رحمتہ اللہ علیہ
4)محمد بن الحسن شیبانی رحمتہ اللہ علیہ
آخری دونوں شاگردوں کو صاحبین کہتے ہیں۔ آخری شاگرد یعنی امام محمد رحمتہ اللہ علیہ کثیر التصانیف علماء میں سے ہیں اور امام صاحب کے علمی کارناموں کو پھیلانے میں سب سے زیادہ حصہ ان کا ہے۔
                           فقی خدمات

جامع المسانيد: امام اعظم  حدیث کی روایت میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ کوفہ میں جدید فرقوں کا ظہور اور وضعی احادیث کی کثرت تھی۔ جامع المسانید کے نام سے احادیث کا ایک بڑا مجموعہ آپ سے روایت ہے۔ اس سے اس بات کی بھی تردید ہوجاتی ہے جہور کے معاندین نے پھیلائی ہے کہ ابوحنیفہ  حدیث اور آثار صحابہ ٹا پر قیاس کو تری دیتے ہیں ۔

 افتاء:

 انہوں نے فقہ اسلامی قانون کی طرف توجہ کی ۔ عراق کے اصحاب الرائے کا مرکز اس وقت کوفہ تھا۔ وہ اس سے وابستہ ہو گئے اور مشہورفقیہہ ابراہیم کی متوفی 95 ہجری کے شاگرد امام حماد بن سلمہ کی شاگردی اختیار کی ۔ آپ حماد کی وفات تک پورے 18 سال ان کی صحبت میں رہے۔ حماد کے علاوہ متعدد اصحاب علم سے حدیث و فقہ کی تحصیل کی ۔ اس دوران حرمین کے بھی سفر کئے اور وہاں کے چیدہ چیدہ علماء سے استفادہ کیا۔ 120 ہجری میں جب ان کے استادحما د کا انتقال ہوا تو لوگوں نے ان کی مسند آپ کو سونپ دی۔ اس مسند پر 30 سال تک درس و تدریس اور افتاء کا وہ لا فانی کام انھوں نےانجام دیا جو آج مسلک حنفی کی بنیاد ہے۔ اس تیس سال کی مدت میں انھوں نے بقول جض 60 ہزار اور  بقول بعض 833 ہزار قانونی مسائل کے جواب دیئے جو ان کی زندگی ہی میں الگ الگ عنوانات کےتحت مرتب کر دیئے گئے ۔ (المکی جلد 1 ص 96)

تدوین فقہ کاعظیم کارنامہ: 

امام ابوحنیفہ نے اپنی علمی بصیرت اور گہری فکر کی بناء پر یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسلامی سلطنت کے وسیع کاروبار اور مسلم معاشرے میں پیش آنے والے نت نئے واقعاتکے لیے سب سے بڑی ضرورت ایک بلند پایہ قانون کی ہے جو اس وقت کی ضروریات کا ساتھ دے سکے ۔ اس لیے انھوں نے اپنی تمام تر توجہ تدوین فقہ پر مرکوز کر دی۔ چونکہ آپ کا کپڑے کی تجارت کا وسیع کاروبار تھا جس کی وجہ سے آپ فکر معاش سے آزاد تھے۔ لہذا آپ نے اپنے آپ کو مسائل کے استنباط | اور قرآن و حدیث سے دلائل کی تلاش کے لیے وقف کردیا۔

عبداللہ بن مبارک کا قول ہے :

آثار اور فقہ فی الحدیث کا صحیح  "مقیاس" پیدا کرنا آپ کا ایک لازوال علمی کارنامہ ہے (دائرۃ المعارف اردو)

امام ابوحنیفہ نے اسلامی علوم وفنون کے ماہرین کی ایک مجلس قائم کی جو چالیس علماء پر مشتل تھی۔ان میں علم لغت و تفسیر علم کلام علم حدیث اور علم بلاغت کے ائمون شامل تھے۔ اس مجلس نے مسلسل تیس برس تک کام کیا اور بارہ لاکھ نوے ہزار مسائل مدون کیے۔ یہ ایک ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اس سے اسلامی حکومت کے لیے قانون کی ایک بنیادفراہم ہوگئی جس پراجتهاد واستنباط کی عمارت تعمیر کرنا آسان ہوگیا۔ 

 علمی مقام:  

ایک روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر علم ثریا تک بھی پہنچ جائے تو اہل فارس میں سے ایک شخص اس کو حاصل کرے گا۔ علماء نے اس حدیث کا مصداق امام ابوحنیفہ کوٹھہرایا ہے۔ آپ اپنی علمی و عملی کمالات کی بدولت امام اعظم کہلاتے ہیں۔ علامہ ابن خلدون کے مطابقفقہ میں امام موصوف کا پایہ اتنا بلند تھا کہ کوئی دوسرا اس کی نظیر نہیں ہوسکا۔ اسی طرح ان کے ہم عصر فقہاء امام مالک یا امام شافعی اور سفیان ثوری  نے ان کی علمی عظمت کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے۔

امام مالک: اگر امام ابوحنیفہ کی اپنے اپنے زور استدلال سے سنگ مرمر کے ستونوں کو سونے کا ثابت کرنا چاہیں تو وہ کر سکتے ہیں۔ 

امام شافعی : ”لوگ فقہ میں ابوحنیفہ کے محتاج ہیں میں نے ان سے بڑھ کر فقیہ کوئی نہیں پایا۔

ابویوسف : میں نے حدیث کے فقہی نکات جاننے والا ابوحنیفہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا

سفیان نوری: ’’روئے زمین پر سب سے زیادہ فقیہ ابوحنیفہ تھے ‘‘

اجتہادوفتوی کا طریقہ:

امام ابوحنیفہ  کسی مسئلے کا جواب قرآن مجید سے اخذ کرنے کی کوشش فرماتے ۔ قرآن مجید سے جواب نہ ملتا تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے اور اس بات پر نظر رکھتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل کیا تھا یا آخری راۓ کیا تھی؟ اگر احادیث نبوی سے فیصلہ نہ ہوسکتا تو پھر فقہاء صحابہ و تابعین کے اقوال اور فیصلے تلاش کرتے۔ کسی معاملے میں فقہاء کا اجماع ہوتا تو اسی کو اختیار کر لیتے اگر جواب نہ پاتے تو قیاس کی طرف آتے اور کبھ کبھارر استحسان (قیاس خفی)سے کام لیتے۔ 

 Writer#ShoaibKamboh

 

 

 

 

This is Muhammad Shoaib Irshad Advocate from Tehsil Bhalwal District Sargodha. I have an LL.B Hons from the University of Sargodha in 2022. My main focus is to spread knowledge and awareness by writing articles on different current affairs topics.

Related Posts