جامع المسانيد: امام اعظم حدیث کی روایت میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ کوفہ میں جدید فرقوں کا ظہور اور وضعی احادیث کی کثرت تھی۔ جامع المسانید کے نام سے احادیث کا ایک بڑا مجموعہ آپ سے روایت ہے۔ اس سے اس بات کی بھی تردید ہوجاتی ہے جہور کے معاندین نے پھیلائی ہے کہ ابوحنیفہ حدیث اور آثار صحابہ ٹا پر قیاس کو تری دیتے ہیں ۔
افتاء:
انہوں نے فقہ اسلامی قانون کی طرف توجہ کی ۔ عراق کے اصحاب الرائے کا مرکز اس وقت کوفہ تھا۔ وہ اس سے وابستہ ہو گئے اور مشہورفقیہہ ابراہیم کی متوفی 95 ہجری کے شاگرد امام حماد بن سلمہ کی شاگردی اختیار کی ۔ آپ حماد کی وفات تک پورے 18 سال ان کی صحبت میں رہے۔ حماد کے علاوہ متعدد اصحاب علم سے حدیث و فقہ کی تحصیل کی ۔ اس دوران حرمین کے بھی سفر کئے اور وہاں کے چیدہ چیدہ علماء سے استفادہ کیا۔ 120 ہجری میں جب ان کے استادحما د کا انتقال ہوا تو لوگوں نے ان کی مسند آپ کو سونپ دی۔ اس مسند پر 30 سال تک درس و تدریس اور افتاء کا وہ لا فانی کام انھوں نےانجام دیا جو آج مسلک حنفی کی بنیاد ہے۔ اس تیس سال کی مدت میں انھوں نے بقول جض 60 ہزار اور بقول بعض 833 ہزار قانونی مسائل کے جواب دیئے جو ان کی زندگی ہی میں الگ الگ عنوانات کےتحت مرتب کر دیئے گئے ۔ (المکی جلد 1 ص 96)
تدوین فقہ کاعظیم کارنامہ:
امام ابوحنیفہ نے اپنی علمی بصیرت اور گہری فکر کی بناء پر یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسلامی سلطنت کے وسیع کاروبار اور مسلم معاشرے میں پیش آنے والے نت نئے واقعاتکے لیے سب سے بڑی ضرورت ایک بلند پایہ قانون کی ہے جو اس وقت کی ضروریات کا ساتھ دے سکے ۔ اس لیے انھوں نے اپنی تمام تر توجہ تدوین فقہ پر مرکوز کر دی۔ چونکہ آپ کا کپڑے کی تجارت کا وسیع کاروبار تھا جس کی وجہ سے آپ فکر معاش سے آزاد تھے۔ لہذا آپ نے اپنے آپ کو مسائل کے استنباط | اور قرآن و حدیث سے دلائل کی تلاش کے لیے وقف کردیا۔
عبداللہ بن مبارک کا قول ہے :
آثار اور فقہ فی الحدیث کا صحیح "مقیاس" پیدا کرنا آپ کا ایک لازوال علمی کارنامہ ہے (دائرۃ المعارف اردو)
امام ابوحنیفہ نے اسلامی علوم وفنون کے ماہرین کی ایک مجلس قائم کی جو چالیس علماء پر مشتل تھی۔ان میں علم لغت و تفسیر علم کلام علم حدیث اور علم بلاغت کے ائمون شامل تھے۔ اس مجلس نے مسلسل تیس برس تک کام کیا اور بارہ لاکھ نوے ہزار مسائل مدون کیے۔ یہ ایک ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اس سے اسلامی حکومت کے لیے قانون کی ایک بنیادفراہم ہوگئی جس پراجتهاد واستنباط کی عمارت تعمیر کرنا آسان ہوگیا۔
علمی مقام:
ایک روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر علم ثریا تک بھی پہنچ جائے تو اہل فارس میں سے ایک شخص اس کو حاصل کرے گا۔ علماء نے اس حدیث کا مصداق امام ابوحنیفہ کوٹھہرایا ہے۔ آپ اپنی علمی و عملی کمالات کی بدولت امام اعظم کہلاتے ہیں۔ علامہ ابن خلدون کے مطابقفقہ میں امام موصوف کا پایہ اتنا بلند تھا کہ کوئی دوسرا اس کی نظیر نہیں ہوسکا۔ اسی طرح ان کے ہم عصر فقہاء امام مالک یا امام شافعی اور سفیان ثوری نے ان کی علمی عظمت کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے۔
امام مالک: اگر امام ابوحنیفہ کی اپنے اپنے زور استدلال سے سنگ مرمر کے ستونوں کو سونے کا ثابت کرنا چاہیں تو وہ کر سکتے ہیں۔
امام شافعی : ”لوگ فقہ میں ابوحنیفہ کے محتاج ہیں میں نے ان سے بڑھ کر فقیہ کوئی نہیں پایا۔
ابویوسف : میں نے حدیث کے فقہی نکات جاننے والا ابوحنیفہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا
سفیان نوری: ’’روئے زمین پر سب سے زیادہ فقیہ ابوحنیفہ تھے ‘‘
اجتہادوفتوی کا طریقہ:
امام ابوحنیفہ کسی مسئلے کا جواب قرآن مجید سے اخذ کرنے کی کوشش فرماتے ۔ قرآن مجید سے جواب نہ ملتا تو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے اور اس بات پر نظر رکھتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل کیا تھا یا آخری راۓ کیا تھی؟ اگر احادیث نبوی سے فیصلہ نہ ہوسکتا تو پھر فقہاء صحابہ و تابعین کے اقوال اور فیصلے تلاش کرتے۔ کسی معاملے میں فقہاء کا اجماع ہوتا تو اسی کو اختیار کر لیتے اگر جواب نہ پاتے تو قیاس کی طرف آتے اور کبھ کبھارر استحسان (قیاس خفی)سے کام لیتے۔
Writer#ShoaibKamboh