ابتدائیہ:
ہندومت یا ہندو دھرم جنوبی ایشیا اور بالخصوص بھارت اور نیپال میں غالب اکثریت کا ایک مذہب ہے۔جس کی بنیاد ہندوستان میں رکھی گئ، یہ قدیم ترین (2000ق م سے چلا آرہا ہے)-
ہندومت کسی ایک مذہب کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف و متضاد عقائد و رسوم، رجحانات، تصورات اور توہمات کے مجموعہ کا نام ہے۔
مندر میں جانے والا بھی ہندو ہے اور وہ بھی ہندو ہے جس کے مندر جانے سے مندر ناپاک ہو جاتا ہے۔ وید کا سننے والا بھی ہندو ہے اور وہ بھی ہندو ہے جس کے متعلق حکم ہے کہ اگر وید سن لے تو اس کے کانوں میں پگلا ہوا سیسہ ڈالا جائے۔ غرض ہندومت ایک مزہب نہیں ہے بلکہ ایک نظام ہے، جس کے اندر عقائد و رسوم اور تصورات کی بہتات ہے۔
ہندومت یا ہندو دھرم جنوبی ایشیا اور بالخصوص بھارت اور نیپال میں غالب اکثریت کا ایک مذہب ہے۔جس کی بنیاد ہندوستان میں رکھی گئ، یہ قدیم ترین (2000ق م سے چلا آرہا ہے)-
ہندومت کسی ایک مذہب کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف و متضاد عقائد و رسوم، رجحانات، تصورات اور توہمات کے مجموعہ کا نام ہے۔
مندر میں جانے والا بھی ہندو ہے اور وہ بھی ہندو ہے جس کے مندر جانے سے مندر ناپاک ہو جاتا ہے۔ وید کا سننے والا بھی ہندو ہے اور وہ بھی ہندو ہے جس کے متعلق حکم ہے کہ اگر وید سن لے تو اس کے کانوں میں پگلا ہوا سیسہ ڈالا جائے۔ غرض ہندومت ایک مزہب نہیں ہے بلکہ ایک نظام ہے، جس کے اندر عقائد و رسوم اور تصورات کی بہتات ہے۔
ہندو کا مفہوم:-
لفظ ہندو فارسی زبان کا ہے، جس کے معنی چور، چوکیدار، غلام اور کالے رنگ کا فرد کے ہیں۔
لفظ ہندو کی وجہ تسمیہ:
لفظ ہندو کی دو وجہ تسمیہ بتائ جاتی ہیں:
1:- ابتدا میں یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا جو دریائے سندھ کے پار رہتے تھے یا ان علاقوں کے رہنے والوں کے لیے جن علاقوں کو دریائے سندھ کا پانی سیراب کرتا تھا۔ انگریز مصنفین نے یہ لفظ 1835ء میں ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگوں کے مذہبی عقائد کے لیے استعمال کیا۔سوائے مسلمان اور عیسائی لوگوں کے۔
نوٹ:
سنسکرت کا "س" فارسی میں "ہ" سے بدل جاتاہے، مثلاً سفت اور ہفت یا موریہ اور ہوریہ- سندھو اور ہند ھو وغیرہ؛ چنانچہ آریوں کا جو پہلا گروپ ہندوستان آیا انھوں نے سندھو ندی جو ایران اور ہند کی سرحد پر پڑنے والی پہلی ندی ہے اس کو ہندو کہا اور اس سندھو ندی کے پار جتنے لوگ بستے تھے انھیں ہندو کہا۔
2:- یہ لفظ حقارت کے طور پر مفتوح قوم دراوڑ کے لوگوں کے لیے آریاؤں نے استعمال کیا تھا۔ کیونکہ پہلے ہندوستان میں آباد دراوڑ( یہ لوگ روم سے آئے تھے) قوم تھی پھر یہاں 1500 قبل مسیح میں آریا قوم کے لوگ مختلف علاقوں (ازبکستان)سے آ کر آباد ہوئے اور انہوں نے دراوڑ قوم کو غلام بنا لیا اور ان کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ تو انہوں نے اپنے آپ کو معزز کہلوایا اور اپنے مقابلے میں یہاں کے مقامی باشندوں کو ذلیل کرنے کے لیے ہندو وغیرہ کے نام سے پکارا۔
ان معلومات کی وضاحت خود پنڈت لیکھا رام نے یوں کی ہے کہ:
"ہندو کے معنی چور، کالا اور غلام ہیں۔یہ نام ہمیں مخالفین نے حقارت سے دیا ہے، ہمیں اپنے آپ کو آریا کہلوانا چاہیے۔ جس کے معنی مہزب، شریف النفس انسان کے ہیں"
ہندومت میں تصور خدا:-
اگر ہم کسی عام ہندو سے پوچھیں کہ وہ کتنے خداؤں پر ایمان رکھتا ہے؟ تو وہ ہمیں مختلف جوابات ملیں گے۔ کوئ کہے گا کہ تین خداؤں پر، کوئ کہے گا تینتیس
خداؤں پر، کسی کا جواب ہو گا ایک ہزار خداؤں پر جب کہ بعض ایسے بھی ہوں گے جو کہیں گے کہ وہ 33 کروڑ خداؤں کا وجود تسلیم کرتے ہیں-
ہندومت میں عبادت کے لئے مشہور دیوتا:
پرستش کے لیے ہندو تین دیوتاؤں کے قائل ہیں۔ پہلا گرام دیوتا، یعنی بستی کا دیوتا، دوسرا کل دیوی/دیوتا یعنی خاندان کا دیوتا، تیسرا اشٹ دیوتا، یعنی محبوب دیوتا۔ اس طرح ایک ہندو کا گرام دیوتا گنیش، کل دیوی لکشمی اور محبوب دیوتا نندی ہو سکتا ہے۔گرام دیوتا مندروں میں خاندانی اور محبوب دیوتا گھروں میں رکھے جاتے ہیں۔ ان تین دیوتاؤں کے علاوہ ہر ہندو دوسرے بہت سے دیوتائوں کو حسب مواقع پر پوجتا ہے۔درگاہ پوجا کے موقع پر درگا کو، گنیش چتر تھی کے موقع پر گنیش کو، کرشن کے جنم اشٹمی کے زمانے میں کرشن کی، دیوالی کے موقع پر لکشمی کو اور شیواتری میں شیو کی پرستش کی جاتی ہے۔
ہندومت کے یہ اہم دیوتا ہیں ، مگر ان کی فہرست لمبی ہے اور ان کی تعداد لانچ کڑور بتائ جاتی ہے، اس لیے ان سب کا جائزہ لینا آسان نہیں ہے، مختصر یہ ہے کہ تمام اہم اور غیر اہم بے شمار دیوتاؤں کے علاوہ بے شمار جانور مثلاً ہاتھی، سانپ،گھڑیال،شیر، مور، ہنس، طوطا، چوہا وغیرہ مختلف دیوتاؤں کی طرف سے ہونے کی وجہ سے مقدس سمجھے جاتے ہیں اور ان کی پوجا ہوتی ہے۔ جانوروں میں سب سے اہم گائے ہے۔ ان کے علاوہ درختوں میں پیپل ، انجیر، تلسی اور بیول اور دریاؤں میں گنگا کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اسے مقدس سمجھا جاتا ہے۔
ہندوؤں کی عبادت گاہ:-
ہندوؤں کی عبادت گاہ کو مندر کہا جاتا ہے۔ جہاں ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں رکھی ہوتی ہیں۔ اور یہ مندر ان ہی کے جانب منسوب ہوتے ہیں۔ مثلاً شیو سے مراد وہ مندر ہے جہاں ہندوؤں کے بھگوان شیو کی پرستش کی جاتی ہے۔ سروسوتی مندر وہ مندر ہے جہاں ہندو عقیدے کے مطابق علم و دانش کی دیوی سرسوتی کی پرستش کی جاتی ہے۔ ہندوؤں میں سروسوتی دیوی کا سب سے مشہور مندر تلنگا نہر یاست کے نظام آباد ضلع کے باسر مقام پر پے۔اسی ہندوؤں میں دولت اور آسودگی کی دیوی لکشمی کے لیے جو مندر تعمیر کی جاتی ہے، لکشمی مندر کہلاتی ہے۔ ان معروف دیوی اور دیوتاؤں کے علاوہ ہندوؤں میں کئ ہزار دیوی اور دیوتا ہیں اور سب کے نام پر منادر تعمیر کیے گئے ہیں۔
کچھ اہم شخصیات کے نام پر بھی منادر بنائے جا چکے ہیں۔ ان بھارت میں عام طور سے بابائے قوم تسلیم کیے گئے موہن داس کرم چند گاندھی ہیں، جنہیں عوام میں مہاتما گاندھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے قاتل نتھورام گوڈ سے کے نام پر بھی بھارت میں مندر موجود ہیں۔
مزہبی روایت کی بنا پر اکثر یہ مندر دریاؤں اور چشموں کے کنارے یا پہاڑوں کی چوٹی پر بنائے جاتے ہیں۔ حالاں کہ ایسے منادر کی کمی نہیں جو زمین ہی حدود میں سمٹے ہوئے ہیں۔
ہندو دھرم کا تصور الہ اور عقیدہ تریمورتی:-
ہندو اپنے آپ کو توحید پرست کہتے ہیں اور اپنے مختلف انداز میں وحدت کا پرچار کرتے ہیں۔ حلانکہ یہ پختہ ترین تریمورتی کے قائل ہیں۔ اس تثلیث کا وجود قدیم ترین ہندوؤں نے رکھا مگر ماضی قریب سے لے کر اب تک ان کے ہاں عقیدہ تریمورتی پر ایمان لانا ضروری ہے، ان کے عقیدہ تریمورتی (برہما، وشنو، شیوجی) کو اقنوم ثلاثہ اور تگردم بھی کہا جاتا ہے۔
برہما:-
رب الا رباب ہے، یہ خالق کائنات ہے، بعض فلسفیوں کے مطابق تمام نیک روحیں بالآخر اس میں جزب ہو جائیں گی۔ اس دیوتا کے بڑے مجسمے تیار کیے جاتے ہیں اور اسے بڑا طاقتور ظاہر کیا جاتا ہے، اس کے مجسمے کے چار سر اور چار ہاتھ (ایک ہاتھ میں چمچہ ، دوسرے میں لوٹا، قربانی کا سامان، تیسرے میں تسبیح اور چوتھے میں وید ہوتا ہے) بنائے جاتے ہیں تاکہ ان سے قوت کا اظہار ہو سکے اس کے مجسمے کو راج ہنس پر سوار دکھایا جاتا ہے۔ اس کی بیوی کا نام سرسوتی بتایا جاتا ہے جو تمام دیویوں میں اعلیٰ شمار کی جاتی ہے، یہ مور پر سوار ہوتی ہے، برہما کو بالعموم پہاڑوں پر دکھایا جاتا ہے۔ ہندو فلاسفر کا خیال ہے کہ کائنات کی پیدائش کے بعد برہما کا کائنات کی پیدائش کے بعد برہما کا کائنات کے ساتھ کوئ تعلق نہیں رہا ہے، بلکہ اب وہ آرام کررہا ہے، دنیا میں عمل دخل و شنو اور شیو جی کا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ برہما کے مندر کم بنائے جاتے ہیں۔
وشنو:-
یہ دیوتا خوشحالی اور مسرت کا دیوتا ہے اس کی پوجا سب سے زیادہ کی جاتی ہے، ہندو عقیدے کے مطابق ہندوؤں کے تمام عظیم ہیرو مثلاً رام چندر ، کرشنا چندر، کرشنا جی، مہاراج وغیرہ اس کے اوتار ہیں۔ وشنو انسان کے علاوہ نباتات ، حیوانات، کبھی مچھلی، کبھی سورج کی شکل میں، کبھی نرسنگ ،(شیر اور انسان کی باہمی شکل) کی صورت میں، کبھی آم کے درخت کی صورت میں، کبھی رام چندر کی صورت میں، کبھی کرشنا جی کی صورت میں، کبھی مہاتما بدھ کہ صورت مین ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کے اوتار جسے "کالکی" کی صورت میں پکارا جاتا ہے۔ اس کی آمد کا بھی انتظار ہے جو سوا چار لاکھ سال کے بعد ظاہر ہوگا۔
وشنو مہاراج کے چار ہاتھ ایک میں سنکھ، دوسرے میں گرز، تیسرے میں چکر اور چوتھے میں کنول کا پھول دکھایا گیا ہے۔ اس کی سواری کا جانور ، انسان اور پرندے کی صورت میں مرکب ہے، اس کی بیوی کا نام لکشمی ہے، جس کو حسن و جمال اور مال و دولت کی دیوی کہا جاتا ہے، اس کے ماننے والے اپنے ماتھے پر ترشول(مثلث) کی صورت میں سندور کا تلک لگاتے ہیں۔
شیوجی:-
ہندو تثلیث میں یہ دیوتا تباہی، بربادی، جنگ، طوفان اور موت کا دیوتا ہے۔ اس کے بت میں اس کے ماتھے پر ایک تیسری آنکھ ظاہر کی گئ ہے۔ جسے ترلوچن کہا جاتا ہے۔ اس تیسری آنکھ سے غیض و غضب کے شعلے نکلتے ہیں، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عشق کے دیوتا ام دیود اس سے ناراض ہو گیا تھا اور وہ اس کے غیض و غضب سے جل مرا تھا پھر بعد میں بڑی قربانیوں اور منت سماجت کے بعد دوبارہ زندہ ہوا۔
شیونگ ہے جس کی پوجا کی جاتی ہے، اسے شکتی پوجا (طاقت کی پوجا) کہا جاتا ہے، بعض پرانی عمارتوں اور کھنڈروں کی کھدائی کے وقت وہاں سے لنگ برآمد ہوا، اس کی بیوی کالی دیوی جو پاربتی ، اوما اور درگا کہلاتی ہے۔ یہ تینوں نام صفاتی ہیں۔ اس کی تصویر اور مجسمہ بڑا خوفناک ہوتا ہے، زبان باہر نکلی ہوئ ، رنگ کالا، منہ کھلا ہوا، گلے میں سانپوں اور کھوپڑیوں کا ہار جو انسانی لاشوں پر ناچتی ہوئ دکھائ دیتی ہیں۔ چہرہ آلودہ ہوتا ہے، اوما کی صورت میں رحم دل ماں کا روپ رکھتی ہے جس نے دونوں ہاتھ آگے پھیلا رکھے ہیں۔ درگاہ ایک غضب ناک حسینہ کی صورت ہے جو شیر پر سوار ہے، شیو جی کی اولاد بتائ جاتی ہے، اس کے بیٹے کا نام رشکے ہے جو دیوتا کے دستے کا سالار ہے اور دوسرے بیٹے کا نام گھنیش ہے، جو ہاتھی اور انسان کی صورت میں مرکب ہے، جدید ہندو مذہب جو مقبول عام مذہب کہلاتا ہے اس میں ان تینوں دیوتاؤں کی پوجا کی جاتی ہے، شیو جی کی پوجا زیادہ تر خواتین کرتی ہیں، شیوجی کے مندروں میں خواتین زیادہ ملتی ہیں۔
ہندومت کا مزہبی ادب:-
ہندومت کی مزہبی کتابوں کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
1: سرتی علوم
2:سمرتی علوم
ہندومت کے فرقے:-
1:-وشنو مت
2:-شیومت
3:-شکتی مت
4:-گنپتی مت
5؛-سوریا مت
6:-سمارت سوتر
ہندومت کے عقائد
1:- عقیدہ تریمورتی
2:-عقیدہ مکتی
3:-عقیدہ تناسخ
4:-گائے پرستی کا عقیدہ
ہندو دھرم میں ذات پات کی تقسیم:-
ہندو دھرم نے اسلامی تعلیمات کے برعکس معاشرے اور انسان کو مختلف حصوں اور ذاتوں میں بانٹ رکھا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
برہمن:-
برہمن چونکہ ایشور کے منہ سے پیدا ہوا ہے لہذا وہ مقدس ہے۔ وید پڑھنا اور سکھانا صرف اور صرف برہمنوں کے فرائض میں شامل ہے۔ اس کی گزر اوقات دیگر تین اقوام کے دان پن پر ہے۔ان کی مزہبی تعلیمات کے مطابق برہمن کو دان دینا لاکھ درجے ثواب کا باعث ہے۔ دنیا کی ہر شے کا مالک برہمن ہے۔ یہ ہر قسم کے موصول و صول کرنے کا حق رکھتا ہے اور انہیں معاف کرنے کا بھی اسے حق ہے۔ اگر اسے ضرورت ہو تو وہ تینوں اقوام کی ہر شے ضبط کر سکتا ہے۔ برہمن کو اگر رگ وید آتی ہے تو وہ بالکل بے گناہ تصور ہو گا خواہ وہ کتنے عالم کا پاپی کیو نہ ہو۔ برہمن کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی خواہ وہ قاتل کیوں نہ ہو۔
کھشتری:-
ہندو دھرم کے مطابق کھشتری کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خلقت کی حفاظت کریں اور برہمن کے لئے دان پن کا انتظام کریں۔ بے حیائ کی طرف قطعاً متوجہ نہ ہوں۔
ویش:-
ویش کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مویشی پالے، زراعت میں اپنی جان کھپائے، تجارتی لین دین کرے، دیوی دیوتاؤں کے آستانوں پر چڑھاوے چڑھائے اور برہمن کے لئے دان پن کرے۔
شودر:-
شودر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان تینوں کی خدمات بجا لائے۔ برہمن گروؤں کی خدمت میں اس کی نجات ہے۔ شودر کو یہ حق نہیں کہ وہ بینک بیلنس رکھے، شودر کو یہ بھی حق نہیں کہ وہ مزہبی تعلیم حاصل کریں اگر وہ کہیں چھپ چھپا کے مزہبی تعلیم حاصل کر لیتا ہے یا وید سن لیتا ہے تو اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ شودر کو صاف ستھرا رہنے کا بھی کوئ حق نہیں۔ وہ مہینے میں صرف ایک دفعہ نہا سکتا ہے اور حجامت بنا سکتا ہے۔ شودر برہمن کے صحن میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اگر صحن میں داخل ہو جائے تو اسے دھو جائے گا۔ شودر اگر برہمن کو قتل کرد ے تو سزا پھانسی ہے۔ برہمن اگر شودر کو قتل کردیں تو برہمن کے صرف بال مونڈھے جائیں گے۔
ہندو ازم کے مشہور تہوار:-
ہندومت کے مشہور تہوار درج ذیل ہیں:
1:- دیوالی:-
چار روزہ تہوار وشنو کے پیروکار اور تاجر مناتے ہیں، چراغاں اور رام مندر کی تاج پوشی کی جاتی ہے، مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔
2:ہولی:-
بسنت ، بہار اور رنگ بکھیرا جاتا ہے۔
3:راکھی بندھن:-
حقیقی یا منہ بولی بہن بھائیوں کی کلائی پر سلو نو کے دھاگے باندھتی ہیں یہ ساون میں منایا جاتا ہے۔
4:دوسہرہ:-
اس کا معنی ہے دس روزہ یعنی دس گناہوں کے لے جانے والا۔ یہ جیٹھ میں گنگا میں نہایا جاتا ہے۔
لفظ ہندو فارسی زبان کا ہے، جس کے معنی چور، چوکیدار، غلام اور کالے رنگ کا فرد کے ہیں۔
لفظ ہندو کی وجہ تسمیہ:
لفظ ہندو کی دو وجہ تسمیہ بتائ جاتی ہیں:
1:- ابتدا میں یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوا جو دریائے سندھ کے پار رہتے تھے یا ان علاقوں کے رہنے والوں کے لیے جن علاقوں کو دریائے سندھ کا پانی سیراب کرتا تھا۔ انگریز مصنفین نے یہ لفظ 1835ء میں ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگوں کے مذہبی عقائد کے لیے استعمال کیا۔سوائے مسلمان اور عیسائی لوگوں کے۔
نوٹ:
سنسکرت کا "س" فارسی میں "ہ" سے بدل جاتاہے، مثلاً سفت اور ہفت یا موریہ اور ہوریہ- سندھو اور ہند ھو وغیرہ؛ چنانچہ آریوں کا جو پہلا گروپ ہندوستان آیا انھوں نے سندھو ندی جو ایران اور ہند کی سرحد پر پڑنے والی پہلی ندی ہے اس کو ہندو کہا اور اس سندھو ندی کے پار جتنے لوگ بستے تھے انھیں ہندو کہا۔
2:- یہ لفظ حقارت کے طور پر مفتوح قوم دراوڑ کے لوگوں کے لیے آریاؤں نے استعمال کیا تھا۔ کیونکہ پہلے ہندوستان میں آباد دراوڑ( یہ لوگ روم سے آئے تھے) قوم تھی پھر یہاں 1500 قبل مسیح میں آریا قوم کے لوگ مختلف علاقوں (ازبکستان)سے آ کر آباد ہوئے اور انہوں نے دراوڑ قوم کو غلام بنا لیا اور ان کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ تو انہوں نے اپنے آپ کو معزز کہلوایا اور اپنے مقابلے میں یہاں کے مقامی باشندوں کو ذلیل کرنے کے لیے ہندو وغیرہ کے نام سے پکارا۔
ان معلومات کی وضاحت خود پنڈت لیکھا رام نے یوں کی ہے کہ:
"ہندو کے معنی چور، کالا اور غلام ہیں۔یہ نام ہمیں مخالفین نے حقارت سے دیا ہے، ہمیں اپنے آپ کو آریا کہلوانا چاہیے۔ جس کے معنی مہزب، شریف النفس انسان کے ہیں"
ہندومت میں تصور خدا:-
اگر ہم کسی عام ہندو سے پوچھیں کہ وہ کتنے خداؤں پر ایمان رکھتا ہے؟ تو وہ ہمیں مختلف جوابات ملیں گے۔ کوئ کہے گا کہ تین خداؤں پر، کوئ کہے گا تینتیس
خداؤں پر، کسی کا جواب ہو گا ایک ہزار خداؤں پر جب کہ بعض ایسے بھی ہوں گے جو کہیں گے کہ وہ 33 کروڑ خداؤں کا وجود تسلیم کرتے ہیں-
ہندومت میں عبادت کے لئے مشہور دیوتا:
پرستش کے لیے ہندو تین دیوتاؤں کے قائل ہیں۔ پہلا گرام دیوتا، یعنی بستی کا دیوتا، دوسرا کل دیوی/دیوتا یعنی خاندان کا دیوتا، تیسرا اشٹ دیوتا، یعنی محبوب دیوتا۔ اس طرح ایک ہندو کا گرام دیوتا گنیش، کل دیوی لکشمی اور محبوب دیوتا نندی ہو سکتا ہے۔گرام دیوتا مندروں میں خاندانی اور محبوب دیوتا گھروں میں رکھے جاتے ہیں۔ ان تین دیوتاؤں کے علاوہ ہر ہندو دوسرے بہت سے دیوتائوں کو حسب مواقع پر پوجتا ہے۔درگاہ پوجا کے موقع پر درگا کو، گنیش چتر تھی کے موقع پر گنیش کو، کرشن کے جنم اشٹمی کے زمانے میں کرشن کی، دیوالی کے موقع پر لکشمی کو اور شیواتری میں شیو کی پرستش کی جاتی ہے۔
ہندومت کے یہ اہم دیوتا ہیں ، مگر ان کی فہرست لمبی ہے اور ان کی تعداد لانچ کڑور بتائ جاتی ہے، اس لیے ان سب کا جائزہ لینا آسان نہیں ہے، مختصر یہ ہے کہ تمام اہم اور غیر اہم بے شمار دیوتاؤں کے علاوہ بے شمار جانور مثلاً ہاتھی، سانپ،گھڑیال،شیر، مور، ہنس، طوطا، چوہا وغیرہ مختلف دیوتاؤں کی طرف سے ہونے کی وجہ سے مقدس سمجھے جاتے ہیں اور ان کی پوجا ہوتی ہے۔ جانوروں میں سب سے اہم گائے ہے۔ ان کے علاوہ درختوں میں پیپل ، انجیر، تلسی اور بیول اور دریاؤں میں گنگا کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اسے مقدس سمجھا جاتا ہے۔
ہندوؤں کی عبادت گاہ:-
ہندوؤں کی عبادت گاہ کو مندر کہا جاتا ہے۔ جہاں ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں رکھی ہوتی ہیں۔ اور یہ مندر ان ہی کے جانب منسوب ہوتے ہیں۔ مثلاً شیو سے مراد وہ مندر ہے جہاں ہندوؤں کے بھگوان شیو کی پرستش کی جاتی ہے۔ سروسوتی مندر وہ مندر ہے جہاں ہندو عقیدے کے مطابق علم و دانش کی دیوی سرسوتی کی پرستش کی جاتی ہے۔ ہندوؤں میں سروسوتی دیوی کا سب سے مشہور مندر تلنگا نہر یاست کے نظام آباد ضلع کے باسر مقام پر پے۔اسی ہندوؤں میں دولت اور آسودگی کی دیوی لکشمی کے لیے جو مندر تعمیر کی جاتی ہے، لکشمی مندر کہلاتی ہے۔ ان معروف دیوی اور دیوتاؤں کے علاوہ ہندوؤں میں کئ ہزار دیوی اور دیوتا ہیں اور سب کے نام پر منادر تعمیر کیے گئے ہیں۔
کچھ اہم شخصیات کے نام پر بھی منادر بنائے جا چکے ہیں۔ ان بھارت میں عام طور سے بابائے قوم تسلیم کیے گئے موہن داس کرم چند گاندھی ہیں، جنہیں عوام میں مہاتما گاندھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے قاتل نتھورام گوڈ سے کے نام پر بھی بھارت میں مندر موجود ہیں۔
مزہبی روایت کی بنا پر اکثر یہ مندر دریاؤں اور چشموں کے کنارے یا پہاڑوں کی چوٹی پر بنائے جاتے ہیں۔ حالاں کہ ایسے منادر کی کمی نہیں جو زمین ہی حدود میں سمٹے ہوئے ہیں۔
ہندو دھرم کا تصور الہ اور عقیدہ تریمورتی:-
ہندو اپنے آپ کو توحید پرست کہتے ہیں اور اپنے مختلف انداز میں وحدت کا پرچار کرتے ہیں۔ حلانکہ یہ پختہ ترین تریمورتی کے قائل ہیں۔ اس تثلیث کا وجود قدیم ترین ہندوؤں نے رکھا مگر ماضی قریب سے لے کر اب تک ان کے ہاں عقیدہ تریمورتی پر ایمان لانا ضروری ہے، ان کے عقیدہ تریمورتی (برہما، وشنو، شیوجی) کو اقنوم ثلاثہ اور تگردم بھی کہا جاتا ہے۔
برہما:-
رب الا رباب ہے، یہ خالق کائنات ہے، بعض فلسفیوں کے مطابق تمام نیک روحیں بالآخر اس میں جزب ہو جائیں گی۔ اس دیوتا کے بڑے مجسمے تیار کیے جاتے ہیں اور اسے بڑا طاقتور ظاہر کیا جاتا ہے، اس کے مجسمے کے چار سر اور چار ہاتھ (ایک ہاتھ میں چمچہ ، دوسرے میں لوٹا، قربانی کا سامان، تیسرے میں تسبیح اور چوتھے میں وید ہوتا ہے) بنائے جاتے ہیں تاکہ ان سے قوت کا اظہار ہو سکے اس کے مجسمے کو راج ہنس پر سوار دکھایا جاتا ہے۔ اس کی بیوی کا نام سرسوتی بتایا جاتا ہے جو تمام دیویوں میں اعلیٰ شمار کی جاتی ہے، یہ مور پر سوار ہوتی ہے، برہما کو بالعموم پہاڑوں پر دکھایا جاتا ہے۔ ہندو فلاسفر کا خیال ہے کہ کائنات کی پیدائش کے بعد برہما کا کائنات کی پیدائش کے بعد برہما کا کائنات کے ساتھ کوئ تعلق نہیں رہا ہے، بلکہ اب وہ آرام کررہا ہے، دنیا میں عمل دخل و شنو اور شیو جی کا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ برہما کے مندر کم بنائے جاتے ہیں۔
وشنو:-
یہ دیوتا خوشحالی اور مسرت کا دیوتا ہے اس کی پوجا سب سے زیادہ کی جاتی ہے، ہندو عقیدے کے مطابق ہندوؤں کے تمام عظیم ہیرو مثلاً رام چندر ، کرشنا چندر، کرشنا جی، مہاراج وغیرہ اس کے اوتار ہیں۔ وشنو انسان کے علاوہ نباتات ، حیوانات، کبھی مچھلی، کبھی سورج کی شکل میں، کبھی نرسنگ ،(شیر اور انسان کی باہمی شکل) کی صورت میں، کبھی آم کے درخت کی صورت میں، کبھی رام چندر کی صورت میں، کبھی کرشنا جی کی صورت میں، کبھی مہاتما بدھ کہ صورت مین ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کے اوتار جسے "کالکی" کی صورت میں پکارا جاتا ہے۔ اس کی آمد کا بھی انتظار ہے جو سوا چار لاکھ سال کے بعد ظاہر ہوگا۔
وشنو مہاراج کے چار ہاتھ ایک میں سنکھ، دوسرے میں گرز، تیسرے میں چکر اور چوتھے میں کنول کا پھول دکھایا گیا ہے۔ اس کی سواری کا جانور ، انسان اور پرندے کی صورت میں مرکب ہے، اس کی بیوی کا نام لکشمی ہے، جس کو حسن و جمال اور مال و دولت کی دیوی کہا جاتا ہے، اس کے ماننے والے اپنے ماتھے پر ترشول(مثلث) کی صورت میں سندور کا تلک لگاتے ہیں۔
شیوجی:-
ہندو تثلیث میں یہ دیوتا تباہی، بربادی، جنگ، طوفان اور موت کا دیوتا ہے۔ اس کے بت میں اس کے ماتھے پر ایک تیسری آنکھ ظاہر کی گئ ہے۔ جسے ترلوچن کہا جاتا ہے۔ اس تیسری آنکھ سے غیض و غضب کے شعلے نکلتے ہیں، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عشق کے دیوتا ام دیود اس سے ناراض ہو گیا تھا اور وہ اس کے غیض و غضب سے جل مرا تھا پھر بعد میں بڑی قربانیوں اور منت سماجت کے بعد دوبارہ زندہ ہوا۔
شیونگ ہے جس کی پوجا کی جاتی ہے، اسے شکتی پوجا (طاقت کی پوجا) کہا جاتا ہے، بعض پرانی عمارتوں اور کھنڈروں کی کھدائی کے وقت وہاں سے لنگ برآمد ہوا، اس کی بیوی کالی دیوی جو پاربتی ، اوما اور درگا کہلاتی ہے۔ یہ تینوں نام صفاتی ہیں۔ اس کی تصویر اور مجسمہ بڑا خوفناک ہوتا ہے، زبان باہر نکلی ہوئ ، رنگ کالا، منہ کھلا ہوا، گلے میں سانپوں اور کھوپڑیوں کا ہار جو انسانی لاشوں پر ناچتی ہوئ دکھائ دیتی ہیں۔ چہرہ آلودہ ہوتا ہے، اوما کی صورت میں رحم دل ماں کا روپ رکھتی ہے جس نے دونوں ہاتھ آگے پھیلا رکھے ہیں۔ درگاہ ایک غضب ناک حسینہ کی صورت ہے جو شیر پر سوار ہے، شیو جی کی اولاد بتائ جاتی ہے، اس کے بیٹے کا نام رشکے ہے جو دیوتا کے دستے کا سالار ہے اور دوسرے بیٹے کا نام گھنیش ہے، جو ہاتھی اور انسان کی صورت میں مرکب ہے، جدید ہندو مذہب جو مقبول عام مذہب کہلاتا ہے اس میں ان تینوں دیوتاؤں کی پوجا کی جاتی ہے، شیو جی کی پوجا زیادہ تر خواتین کرتی ہیں، شیوجی کے مندروں میں خواتین زیادہ ملتی ہیں۔
ہندومت کا مزہبی ادب:-
ہندومت کی مزہبی کتابوں کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
1: سرتی علوم
2:سمرتی علوم
ہندومت کے فرقے:-
1:-وشنو مت
2:-شیومت
3:-شکتی مت
4:-گنپتی مت
5؛-سوریا مت
6:-سمارت سوتر
ہندومت کے عقائد
1:- عقیدہ تریمورتی
2:-عقیدہ مکتی
3:-عقیدہ تناسخ
4:-گائے پرستی کا عقیدہ
ہندو دھرم میں ذات پات کی تقسیم:-
ہندو دھرم نے اسلامی تعلیمات کے برعکس معاشرے اور انسان کو مختلف حصوں اور ذاتوں میں بانٹ رکھا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
برہمن:-
برہمن چونکہ ایشور کے منہ سے پیدا ہوا ہے لہذا وہ مقدس ہے۔ وید پڑھنا اور سکھانا صرف اور صرف برہمنوں کے فرائض میں شامل ہے۔ اس کی گزر اوقات دیگر تین اقوام کے دان پن پر ہے۔ان کی مزہبی تعلیمات کے مطابق برہمن کو دان دینا لاکھ درجے ثواب کا باعث ہے۔ دنیا کی ہر شے کا مالک برہمن ہے۔ یہ ہر قسم کے موصول و صول کرنے کا حق رکھتا ہے اور انہیں معاف کرنے کا بھی اسے حق ہے۔ اگر اسے ضرورت ہو تو وہ تینوں اقوام کی ہر شے ضبط کر سکتا ہے۔ برہمن کو اگر رگ وید آتی ہے تو وہ بالکل بے گناہ تصور ہو گا خواہ وہ کتنے عالم کا پاپی کیو نہ ہو۔ برہمن کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی خواہ وہ قاتل کیوں نہ ہو۔
کھشتری:-
ہندو دھرم کے مطابق کھشتری کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خلقت کی حفاظت کریں اور برہمن کے لئے دان پن کا انتظام کریں۔ بے حیائ کی طرف قطعاً متوجہ نہ ہوں۔
ویش:-
ویش کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مویشی پالے، زراعت میں اپنی جان کھپائے، تجارتی لین دین کرے، دیوی دیوتاؤں کے آستانوں پر چڑھاوے چڑھائے اور برہمن کے لئے دان پن کرے۔
شودر:-
شودر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان تینوں کی خدمات بجا لائے۔ برہمن گروؤں کی خدمت میں اس کی نجات ہے۔ شودر کو یہ حق نہیں کہ وہ بینک بیلنس رکھے، شودر کو یہ بھی حق نہیں کہ وہ مزہبی تعلیم حاصل کریں اگر وہ کہیں چھپ چھپا کے مزہبی تعلیم حاصل کر لیتا ہے یا وید سن لیتا ہے تو اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ شودر کو صاف ستھرا رہنے کا بھی کوئ حق نہیں۔ وہ مہینے میں صرف ایک دفعہ نہا سکتا ہے اور حجامت بنا سکتا ہے۔ شودر برہمن کے صحن میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اگر صحن میں داخل ہو جائے تو اسے دھو جائے گا۔ شودر اگر برہمن کو قتل کرد ے تو سزا پھانسی ہے۔ برہمن اگر شودر کو قتل کردیں تو برہمن کے صرف بال مونڈھے جائیں گے۔
ہندو ازم کے مشہور تہوار:-
ہندومت کے مشہور تہوار درج ذیل ہیں:
1:- دیوالی:-
چار روزہ تہوار وشنو کے پیروکار اور تاجر مناتے ہیں، چراغاں اور رام مندر کی تاج پوشی کی جاتی ہے، مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔
2:ہولی:-
بسنت ، بہار اور رنگ بکھیرا جاتا ہے۔
3:راکھی بندھن:-
حقیقی یا منہ بولی بہن بھائیوں کی کلائی پر سلو نو کے دھاگے باندھتی ہیں یہ ساون میں منایا جاتا ہے۔
4:دوسہرہ:-
اس کا معنی ہے دس روزہ یعنی دس گناہوں کے لے جانے والا۔ یہ جیٹھ میں گنگا میں نہایا جاتا ہے۔